بے راہ روی کی جس روش پر
پاکستانی معاشرہ گام زن ہے، وہاں خیر کی امید کرنا عبث ہے۔ ایک درندہ بھی
کسی جانور کے بچے کو کھاتے ہوئے ہزار بار اس کی معصومیت اور بچپن دیکھ کر
پیچھے ہٹ جائے، مگر انسانی کھال منڈھے جو درندے ہمارے درمیان موجود ہیں وہ
بچوں پر بھی رحم نہیں کھاتے۔
میں نے ایک وڈیو دیکھی تھی، جس میں جنگل کی تاریکی میں خرگوش کے چھوٹے
چھوٹے بچوں کو دکھایا گیا تھا، لیکن اس جگہ ان بچوں کی ماں نہیں تھی، کہاں
گئی تھی چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر، یہ تو خدا جانے۔ اب وہ بچے بھوک سے بلک رہے
تھے، کہ اس نیم اندھیرے میں ایک بھیڑیا آیا اور بچوں کو بھوک سے یہاں وہاں
ہوتے دیکھ کر ان کے لیے چھوٹے چھوٹے پتے لاکر ان کے سامنے رکھتا گیا۔ وہ
پتے لاتا، انھیں اپنے پیر سے مسلتا اور خرگوش کے سامنے کردیتا، تاکہ انھیں
خوراک نگلنے میں مسئلہ نہ ہو۔ یہ تھا بھیڑیا، اور اس کے سامنے موجود تھے،
مجبور اور بے یارومددگار خرگوش کے بچے۔ بھیڑیا چاہتا تو ایک ہی وار میں ان
پانچوں کو کھا جاتا، لیکن نہیں، شاید اسے ان معصوموں پر رحم آگیا۔ کیمرے کی
آنکھ نے اس منظر کو محفوظ کرلیا۔ شاید خدا نے خرگوش کی ماں کو اسی لیے کسی
کام میں الجھا دیا ہوگا تاکہ بھیڑیے کی نیکی انسانوں تک پہنچ جائے، لیکن
بھیڑیا تو ہم انسانوں کے قبیل میں نفرت، خودغرضی اور شیطانیت کی علامت ہے،
گالی ہے۔ پھر یہ کون ہیں جو بھیڑیوں سے بھی ستر گنا زیادہ درندگی رکھتے ہیں،
نہیں یہ انسان نہیں ہوسکتے، بھیڑیے نے تو معصوم بچے پر رحم کرلیا، لیکن یہ
موذی جانور بچوں کی چیرپھاڑ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں کپکپائے۔
پانچ سالہ سنبل بھی ایک ایسے ہی جانور کا شکار بنی۔ اس کا بچپن، اس کی
معصومیت بلکہ اس کی پوری زندگی نگل گئے یہ جانور۔ بے دردی سے توڑ ڈالا گیا
اس گڑیا کو۔ دل خون کردینے والے ایسے واقعات اب ہر روز کا قصہ بن چکے ہیں۔
ملک کا کون سا شہر کون سا علاقہ ہے جہاں ہوس، وحشت اور درندگی کی ڈائنوں نے
یکجا ہوکر انسانی روپ دھارا اور کسی بچے کو کچا چباگئیں۔ میں ان جانوروں کو
کیا نام دوں، کیا تشبیہہ دوں، زبان نے وہ لفظ ایجاد ہی نہیں کیا جو ان کی
غلیظ فطرت اور مکروہ سیرت کا احاطہ کرسکے۔ خرگوش کے بچوں کی پیار سے بھوک
سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر بھیڑیے کو بھی پیار آجاتا ہے، جنگل میں درندے بھی
کسی قانون اور اخلاقیات کی پیروی ضرور کرتے ہیں، ڈائنیں کلیجہ چبا جاتی ہیں،
مگر غلاظت سے بھرے یہ ’’انسان‘‘ ننھے فرشتوں کو اپنی ہوس کی آگ میں
جلاڈالتے ہیں، پوری کی پوری زندگی کھاجاتے ہیں یہ انسان نما جانور۔ ان کی
حقیقت تک رسائی کے لیے، ان کی پہچان کے لیے ہمیں کوئی نیا لفظ نیا نام تلاش
کرنا ہوگا، جو اپنے اندر ان کی پوری شیطانیت، غلاظت اور سنگ دلی کو سموسکے۔
بچوں سے زیادتی کے واقعات ہوں یا عورتوں کی عزت پامال کرنے کے سانحے، یہ
جاننے کے لیے کسی اعدادوشمار کے مطالعے اور تجزیے کی بھی ضرورت نہیں کہ
ایسے واقعات ہمارے یہاں بڑھتے جا رہے ہیں۔ درندگی کے ایسے مظاہرے بھی ہوئے
ہیں کہ ڈھائی تین سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔
ہر انسان کو خون کے آنسو رلادینے اور ہر صاحب اولاد کا دل خوف سے بھردینے
والے ان واقعات کا ایک سبب تو وہی ہے جو ہمارے ملک میں ہر جرم کی کفالت کر
رہا ہے، یعنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے عملی، مگر یہ سبب تو صرف
مجرم کو بے خوف ہوکر جرم کرنے پر اُکساتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنا قبیح جرم
کوئی انسان کر کیسے سکتا ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ اپنوں کے گلے کاٹنے سے آدم
خوری تک انسانوں نے بے رحمی کی تاریخ انسان ہی نے رقم کی ہے۔ ہر معاشرے میں
انسان کا روپ لیے شیطان بستے ہیں۔ ان کی شیطانیت قانون کے خوف باعث متحرک
نہیں ہوتی یا معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کا پاس ولحاظ انھیں حد سے
گزرنے نہیں دیتا، مگر ان کی درندگی جو جگانے والے عوامل موجود ہوں تو کسی
بھی لمحے وہ انسان سے درندے بن جاتے ہیں۔ اس درندگی کو بڑھاوا دینے والے
عوامل میں برقی ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے اہم ہے۔
نوے کے عشرے میں پاکستان میں پرائیوٹ چینلز نے جنم لیا اور ساتھ ہی انٹرنیٹ
کو فروغ ملا۔ ایک سرسری سا مشاہدہ بھی بتا سکتا ہے کہ بچوں اور خواتین سے
زیادتی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ بھی اسی دور سے ہوا ہے۔ ٹی وی کی
اسکرین جتنے گہرے اثرات کی حامل ہے، شاید ہی کوئی دوسرا ذریعۂ ابلاغ اتنی
قوت رکھتا ہو۔ ناظرین کی تعداد بڑھانے کی دوڑ میں ٹی وی چینلز اتنے آگے بڑھ
گئے کہ اقدار پیچھے رہ گئیں۔ بے باکی کا سلسلہ لباس سے دراز ہوتے ہوتے
ہیجان خیز مناظر، مکالموں اور ہماری قدروں کی دھجیاں اُڑاتی کہانیوں تک جا
پہنچا۔ میڈیا نے معاشرے پر کس حد تک اثرات مرتب کیے اس کا اندازہ زبان کے
بگاڑ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اخبارات میں چھپنے والی زبان ہو یا ٹی وی سے نشر
ہونے والے الفاظ، لوگ انھیں معیار سمجھتے اور قبول کرتے ہیں، چناں چہ ٹی وی
چینلز پر خصوصاً ڈراموں میں استعمال ہونے والے تہذیب سے عاری مکالمے اور
الفاظ اب ہماری بول چال کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ کوئی مہذب معاشرہ اس بیہودہ
زبان کا متحمل نہیں ہوسکتا، مگر ہمارے یہاں اس بگاڑ کی کسی کو پرواہ نہیں۔
اس کے ساتھ انٹرنیٹ نے اتنی تیزی سے فروغ پایا کہ ہمارے شہروں میں آناً
فاناً انٹرنیٹ کیبل کا گلی گلی پھیلا کاروبار وجود میں آگیا۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ ٹی وی چینلز ہوں یا انٹرنیٹ، متعلقہ ادارے معاشرے کو ان میڈیم
کے منفی اثرات سے بچانے اور ہمارے ثقافت اور اقدار کے تحفظ کے لیے ٹھوس اور
مؤثر اقدامات کرتے، مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب صورت حال یہ ہے
کہ اطلاعات کے مطابق فحش مواد پر مبنی ویب سائٹس کراچی میں کام کرنے والی
کمپنیاں ڈیزائن کر رہی ہیں اور پاکستانی سنجیدہ اور معتبر ویب سائٹس پر بھی
’’ڈیٹنگ سائٹس‘‘ کے اشتہارات نوجوانوں کو ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ فحاشی
اور بے راہ روی پھیلانے والی ان ویب سائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟
اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟ حکم راں اور متعلقہ ادارے آخر کب اس معاملے
کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھیں گے۔
کوئی کچھ کہے مگر آئین کی رو سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ ہم ایک مسلم
معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہماری اقدار حیا کی پاسدار ہیں۔
ہماری ثقافت لباس سے زبان تک شرم اور لحاظ کی حامل ہے۔ پاکستان کے ادارے
آئین کے تحت پابند ہیں کہ وہ ہماری اسلامی اقدار کے پامال نہ ہونے دیں، مگر
نہ انھیں اپنی ذمے دار کا احساس ہے اور نہ کوئی ان کے فرائض یاد دلا رہا
ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کے بغیر ہم ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے، ٹی وی ہو یا انٹرنیٹ، یہ
ذرائع ابلاغ ہمیں دنیا سے جوڑے رکھتے اور ہم پر علم اور آگاہی کے نئے در وا
کرتے ہیں۔ تاہم زمانے کے ساتھ چلنے کا مطلب بے حیائی اپنالینا نہیں، بے
حیائی جنگل کی ثقافت اور جانوروں کی صفت ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ اس طرح چلنا
چاہیے کہ ہماری ثقافت اور اقدار کا سایہ ہمارے سروں پر رہے۔ |