وزیر ٹرانسپورٹ اور عوام

مہنگائی ،بے روزگاری،نفسانفسی کے اس دور میں جب ہر غریب انسان خدا اور اپنی مدد آپ زندگی کی سانسیں لیتا ہو۔ ایسا دور جس میں کسی بھی غریب انسان کی کوئی اوقات نہ ہو ،ملک کے سیاست دان،چار پیسے جیب میں رکھنے والے اس معاشرے کے نا خدا ذاتی مفاد کی خاطر عوام کو انگلیوں پر نچا رہے ہوں مشکل سے اپنی زندگی کی گاڑی کو د ھکا دینے والے کی راہ میں اگر تھوڑی سی بھی کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کا نظام زندگی درہم برہم ہو کر راہ جاتا ہے وہ سیاست دان جو الیکشن جیتنے سے پہلے خود کو عام آدمی کہتے ہوئے عوام کا خادم،یا عوام کا نوکر کے لفظوں سے خود کو پیش کرتے ہیں۔جب وہ الیکشن جیت کر اختیارات کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو وہ خوف خدا تو دور کی بات ہے خدا کو بھی بھول جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے اس کا قصور وار کون ہے؟ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں اپنی ہی تصویر نظرآئے گی۔ہم خود اپنے کیے کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں چائے وہ سفری صورت میں ہو یا پھر کسی بھی اجتماہی سہولت کے فقدان کی وجہ سے مل رہی ہو مگر فطرت انسانی ہے کہ وہ اپنی عدالت میں کبھی مجرم نہیں ہوتا ہمیشہ مظلو م ظاہر کرتا ہے آج کل روز مرہ کی زندگی میں سوائے پریشانیوں کے ،سیاسست دانوں کی مطلب پرستی،بے حسی،کرپشن،کے کچھ بھی زیر بحث نہیں ہوتا ،موجودہ وقت کی زندگی اس قدر محدد ہو گئی ہے کہ ایک منٹ بھی ادھیر ادھر ہو جائے تو سب کچھ مفلوج ہو کر راہ جاتا ہے کیونکہ آج کے انسان کے پاس سوائے افسوس کے،مجبوری،بے بسی کے اور کوئی آپشن نہیں ہوتا ۔20ستمبر جمعہ کا دن تھا مجھے اپنی فیملی کو لے کر بہت ضروری کام سے مظفرآباد جانا تھا میں نے آفیس سے چھٹی لی بچوں کو ساتھ لیا اور صبح صبح باغ اڈے پر پہنچا میرا ٹارگٹ تھا کہ میں 12بجے تک اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاوں گا جب میں اڈے پر پہنچا تو میں نے باغ سے مظفرآباد اسٹینڈ پر لوگوں کا ہجوم دیکھا میں نے سوچا کہ شاہد یہ روٹین کا رش ہے مگر سب لوگ پرشان تھے ان کے چہرے اترے ہوئے تھے سب کوئی حکومت کو برا کہہ رہا تھا کوئی انتظامیہ کو ،کوئی وزیر ٹرانسپورٹ کو گالیاں دے رہا تھا کوئی ڈرائیور کو ،میں نے جب یہ مہاجرہ دیکھا تو معلومات لینا شروع کی تو پتہ چلا کہ مظفرآباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی گاڑی کسی بھی روٹ سے وہاں نہیں جا سکتی میں نے اس کی مذید معلومات لینے کے لئے چند دوستوں کو فون کئے ان سے کچھ پتہ چلا کہ اصل میں وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر اپنی ٹرانسپورٹ چلانا چاہا رہا ہے جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ والوں نے ہڑتال کی ہوئی ہے اس بات کی حقیقت جاننے کے لئے میں طاہر کھوکھر کو فون کیا بہت کوشش کی مگر ان سے بات نہ ہو سکی انہوں نے فون نہ اٹھایا پھر میں نے ایک میسج کیا۔میں نے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر کوئی لفٹ نہ ملی۔ پھر میں نے اپنے زرائع سے کچھ معلومات لی جس سے یہ پتہ چلا کہ آزاد کشمیر میں ٹرانسپوٹ کا بہت برا حال ہے کوئی اصول کوئی قانون نہیں ڈرائیور اپنی مرضی کے کرائے وصول کرتے ہیں اور گاڑیاں بھی اپنی مرضی سے چلاتے ہیں کوئی عوامی ذمہ داری نہیں تمام اڈوں پر ڈرائیوز کی اجارہ داری ہے ۔ٹرانسپوٹرز اور بے لگام ہاتھی میں کوئی فرق نہیں اس چیز کو دیکھتے ہوئے اور عوام کو سفری سہولیات دینے کے لئے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر نے مناسب کرائے کے ساتھ گاڑیاں چلانے کی کوشش کی جس کو اس ملک کے اجارہ دار ٹرانسپورٹروں نے قبول نہیں کیا اور ہڑتال کر دی اس ہڑتال میں نہ کسی وزیر کا کوئی نقصان ہوا اور نہ کسی ڈرائیور کا اگر کوئی متاثر ہوا ہے تو اس ملک کا عام آدمی ،وہ طالب علم جس نے سکول کالج یونیورسٹی جانا تھا ۔یا وہ بے روز گار جس نے مشکل سے چانس اویل کر کے کسی انٹرویوں میں شامل ہو نا تھا،وہ شخص جس نے اپنے پیارے کو ہسپتال یا گھر دیکھنے جانا تھا وہ بیمار جو کسی علاج یا اپنی بیماری کی دوائی لنے جا رہا تھا ، اڈے پر لوگوں کا کیا حال تھا ان کی مجبوری کس قدر تھی یہ وہی جانتے تھے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ جب کوئی بہتری نہیں کرتا تو بھی اس پر خوب کچر ا چھالتے ہیں اور اگر کوئی عوام کے حق میں کوئی بہتر کام کرے تو پھر بھی اس کی راہ میں مشکلات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں ،وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر نے عوام کو سہولیات دینے کے لئے عوام کو اس مہنگے اور منہ مانگے کرائے سے بچانے کے لئے،اڈوں پر حکمرانی چلانے والے ڈرائیوز کے عذاب سے بچانے کے لئے اگر کوئی قدم اٹھایا بھی تو اس کو سیاسی رنگ دے کر اس پر اتنی تنقید کی گئی اس کو نا کام کرنے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔تو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر قصور وار کون ہے ؟عوام جو پہلے سے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہیں کوئی بھی بات ہو ،بجلی کی قیمتیں بڑیں یا پیٹرول کی متاثر عوام ہی ہوتی ہے عام آدمی ہی اس کا شکار ہوتا ہے کاروباری یہاں تک کہ ایک ریڑی لگانے والے کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بھی چلاتا رہتا ہے ،تین دن تک مظفرآباد پورے ملک سے کٹا رہا مگر افسوس کہ کسی چینل پر ایک خبر تک بھی نہیں آئی اور نہ کوئی عوام کی مشکلات کا بتایا گیا۔ان تین دنوں میں عوام پر کیا گزری یہ عوام ہی جانتی ہے،مگر یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیر ٹرانسپورٹ پر تنقید کرنے والے اتنا تو سوچیں کہ اگر اس ملک کو اسی طرح بدمعاشوں،اور ٹھیکداروں کے سہارے رکھا تو مسائل کبھی حل نہیں ہونگے اور نہ کبھی عوام کو کوئی سہولت مل سکے گی اس لئے ترقی اور عوام کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ تمام تر مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں عوام اور اس ملک کے مستقبل کے لئے بہتر کیا جائے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر کو عوام کو سفری سہولیات دینے کے لئے تمام تر اقدامات بروکار لانے چاہیے اور عوام کو ساتھ لے کر ان مسائل کو حل کریں،کامیابی ان کی ہوگی۔۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69317 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.