نصاب تعلیم میں تبدیلی کے حوالے
سے بہت کوششیں کی گئیں ،بہت ساری کوششیں کامیاب بھی ہوئیں ،یہ تو ممکن نہیں
کہ دینی مدارس کا ہر فاضل عصری علوم کا بھی ماہر بن کر نکلے اور نہ عصری
علوم کا ہر فاضل عالم دین بن سکتا ،دونوں کے طرز تعلیم میں بہت تفاوت ہے ،مگر
اتنا تو ہونا چاہیے کہ ابتدائی بنیادی تعلیم جو وقت اور انسان کی ضرورت ہے
وہ دونوں اداروں میں ضروری قرار دی جائے،پاکستان میں دینی مدارس کی نمائندہ
تنظیم وفاق المدارس العربیۃ نے اس سلسے میں حکومت کے مشورں سے مدارس کے
ابتدائی درجات میں انگریزی ،سائنس،ریاضی کو نصاب میں شامل کیا گیا،جس کا
بہت فائدہ سامنے آیا، اسی طرح عصری علوم میں بھی ابتدائی دینی تعلیم کا
نظام موجود ہے،مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس میں مزید اضافہ کیا
جائے،اورمزید دینی اور دنیوی تعلیم ان اداروں میں شامل کی جائے اور اسکو
لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے،برائے نام تعلیم نہ ہو ۔
ذیل میں ہم چند ماہر تعلیمات مفکرین کی آراء کا خلاصہ ذکر کریں گے جو عصری
اور دینی علوم میں مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔
عصری علوم کے اداروں کی خدمت میں چند آرا ء
حکومت اپنے تمام اداروں میں دینی نظام کا مخصوص کوٹہ رکھے،تا کہ طلباء کا
رجحان دینی تعلیم کی طرف بڑھے،اسی طرح کالجوں،یونیورسٹیوں میں فقہ،حدیث کی
کتابوں کو جگہ ملنی چاہیے، شعبہ عربی کو لازمی مضمون قرار دیا جائے،اور اس
کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عربی زبان کے ماہرین کو دعوت دی جائے،احادیث
اور فقہ کی تعلیم کے لیے مدارس ہی کے مستند علماء کی خدمات حاصل کی
جائیں،اور اسی طرح مدارس عربیہ میں جدید علوم کے لیے ان عصری علوم کے
لیکچرار کی خدمات کو لیا جائے ،عصری علوم کے تمام اساتذہ کے لیے بھی ایک
فکری کورس رکھا جائے تاکہ وہ طلباء کی صحیح معنوں میں فکری تربیت کر سکیں ،کالج
یونیورسٹیوں میں آخر تک دینی نصاب کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہو،اس دینی تعلیم
کی طرف رجحان تب ہی بڑھے گا جب ہماری حکومت دینی تعلیم کے لیے عملاََسرکاری
طور پر ادارے قائم کرے گی،ہماری یونیورسٹیوں میں قرآن پاک تجوید کے ساتھ
پڑھانے کا نظام بھی بنایا جائے،عصری اور دینی طلباء کے درمیان رابطہ کونسل
ہونی چاہیے،جس سے ان کے درمیان دوریاں ختم ہونگی اور ایک دوسرے کا موقف
سمجھنے میں آسانی ہو گی، مختلف تقریبات میں ایک دوسرے کو بلایا جائے اور
اپنا موقف سامنے رکھا جائے،عصری علوم کی اصطلاحات میں دینی طبقے کی بھی
رعائیت رکھی جائے،تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے جس طرح دینی اداروں
میں اور عصری اداروں میں الگ الگ کمیٹیاں موجود ہیں اسطرح ایک کمیٹی ان میں
مشترک ہونی چاہیے،جو گاہے بگاہے ایک دوسرے سے رابطے میں رہے اوروقت کی
ضرورتوں کے پیش نظر اس میں ایک دوسرے سے مشورے کے ساتھ نصاب میں تغیر وتبدل
کرے،ملکی مسائل کے حل کے لیے دونوں اداروں کے طلباء کے درمیان مختلف
سیمینار منعقد کیے جائیں،غیر ضروری کتابوں کا بوجھ ختم کیا جائے،اخلاقیات
اور سیرت پر خصوصی توجہ دی جائے اور وقتا فوقتا جید علماء کے بیانات سے
طلباء کو مستفیدکراوتے رہیں۔دینی علوم کے طلباء میں سے اگر کوئی عصری علوم
حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے مخصوص کوٹہ رکھاجائے۔ |