دینی اور دنیوی اداروں میں اتنا
زیادہ دوری کے بہت زیادہ نقصانات ہوئے، دنیوی طبقے میں سے اکثر نے تو دینی
تعلیم کو صرف علماء کے حوالے کر کے بری الذمہ ہو گے،جبکہ یہ غلط ہے،ہم نے
بس یہ سوچ لیا ہے کہ یہ کام تو بس علماء کا ہے ،ہمارا نہیں، ایسی بات نہیں
ہے،دینی معاملات کی بنیادی چیزیں سیکھناہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی
ہے،کیا ہی بات ہے کہ ہم سب دین کی بنیادی چیزیں خود ہی سیکھ لیں ،جیسے
اگرمسجد کا امام کسی نماز کے وقت نہیں تو ہم میں سے ہر ایک میں یہ اہلیت
ہونی چاہیے کہ وہ نماز پڑھا سکے،یہ کام صرف امام مسجد کا نہیں ،اسی طرح
نماز جنازہ اور نکاح وغیرہ ہم یہ فریضہ خود انجام دے سکیں،ہاں بڑے بڑے دینی
معاملات میں جید علماء کرام موجود ہیں، ان سے استفادہ کریں،لیکن یہ جو روز
مرہ پیش آنے والے مسائل ہیں یہ ہم سب کو سیکھنا ضروری ہے، ،لیکن اب صورتحال
یہ ہے کہ بہت ہی پڑھے لکھے لوگ،بہت بڑی ڈگریوں کے حامل گھنٹوں گھنٹوں ٹاک
شو میں بیٹھ کر دین کے بہت آسان اور اہم مسئلے کے بارے میں پریشانی کا
اظہار کرتے ہیں ، جس کو سن کر دکھ ہوتا ہے کہ اتنے آسان اور اہم سے مسئلے
میں اتنی ناواقفیت ،پچھلے دنوں ایک پروگرام دیکھنے کا موقع ملا جس میں بہت
زور شور سے بحث جاری تھی کہ پردہ ضروری ہے یا نہیں،ایک بہت ہی پڑھے لکھے
مہمان کا کہنا تھا کہ میں بہت ہی زیادہ پریشان ہو ں مجھے آج تک سمجھ نہیں
آیا کہ پردہ فرض ہے یا نہیں،اب آپ دیکھیں کہ کیا پردے کے احکامات اتنے غیر
واضح ہیں کہ ایک ذہین انسان اتنے عرصے سے پریشان ہے،کیا اس کے لیے گھنٹوں
بحث کرنے کی ضرورت ہے؟باوجود اسکے کہ ہمارے پاس قرآن پاک موجود ہے ،احادیث
کا ذخیرہ موجود ہے،اور اس میں بالکل واضح احکام موجود ہیں،ایک عام انسان
بھی اگر قرآن پاک میں پردے کے بارے ٹھیک طرح سے مطالعہ کرے تو بہت آسانی سے
اسے جواب مل سکتا ہے،مگر ہم لوگ مطالعہ خود نہیں کرتے،کیوں کہ ہم نے سوچ
لیا ہے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے،پھر جب اس کے بارے رائے لی جاتی ہے تو علم
نہ ہونے کہ وجہ سے ہم یہ کہ دیتے ہیں کہ یہ بہت پیچدہ مسئلہ ہے ،اور یوں
عوام کے سامنے اپنی کم علمی چھپانے کے لیے اس مسئلے ہی کو مشکوک بنا دیتے
ہیں ، دین کا کوئی مسئلہ مبہم نہیں ہے،یہ صرف ہماری کم علمی ہے، اگر ہم سب
خود ہی کسی مستند جید عالم سے قرآن کا ترجمہ سیکھ لیں اور احادیث کا ضروری
علم سیکھ لیں تو ہمیں ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ فلاں مسئلہ مبہم ہے،اور اس
کے لیے بنیادی چیز اس زبان سے آشنائی ہے جس میں یہ احکام ہیں،اور وہ عربی
زبان ہے،جس کی طرف ہمارا رجحان کم ہے،اگر ہم میں سے ہر ایک کوعربی زبا ن پر
دسترس حاصل ہو جائے تو پھر ہمیں کیا مشکل رہے گی ہم خود ترجمہ کر کے اس
مسئلے کاحل نکال سکتے ہیں،قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے بھی ہم باآسانی جان
سکتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں کیاحکم دے رہا ہے،پھر اﷲ تعالیٰ کے کلام مبارک
کی اصل چاشنی کا مزہ لے سکیں گے کہ آخر ہم جو روزانہ نماز میں تلاوت کرتے
ہیں اس میں ہمارا رب کس بات کا ہمیں حکم دے رہا ہے ،کس چیز سے منع کر رہا
ہے،یہ تو ہم رٹے رٹائے الفاظ پڑھتے جاتے ہیں ،اور ہمیں پتہ تک نہیں چلتا کہ
ہمیں کہا کیا جارہا ہے،اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستان اربک لینگویج بورڈ زیر
سرپرستی فضیلۃ الشیخ ولی خان المظفر حفظہ اﷲ قائم کیا گیا جو روایتی تعلیم
سے ہٹ کر ہے ،جس کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ہے کہ عوام خود عربی زبان سے
روشناس ہو کر دین کی اصل روح کو سمجھ سکے،اور دین کے بنیادی اصول جس زبان
میں ہیں اس زبان کو سیکھا جائے،اس کے لیے پاکستان اربک لینگویج بورڈ کے تحت
مختلف ادارے کام کر رہے ہیں،اور اس کے بہت سارے فوائدسامنے آئے ہیں،( ان
شعبوں کا انتظام الشیخ یوسف القمر حفظہ اﷲ کے پاس ہے، اس میں داخلہ لینے کے
خواہش مند حضر ات ان کے نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے) |