وومن یونیورسٹی اور سردار قمرالزمان

اس ملک میں اگر کوئی مر جائے ،کوئی قتل ہو جائے،کسی کا بچہ ،بچی ،یا غریب عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے ،کسی کے گھر ڈکیتی،چوری یا کوئی حادثہ ہو جائے،یہاں تک کے عوام کے ساتھ کچھ بھی ہو بجائے ان کو انصاف دینے کے یا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی ہمدردی کرنے کے اس کو سیاسی رنگ دے کر ایک نمبر گیم بنا دیا جاتا ہے جس سے نہ کسی کو انصاف ملتا ہے اور نہ کوئی فیصلہ سامنے آتا ہے اور پھروہ وقت کی گرد میں غائب ہو جاتا ہے۔ متاثرہ عوام بے چارگی کی تصویر بنی کسی معجزے کے انتظار میں رہتی ہے۔المیہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ چار قدم اگے، اگر کوئی سیاست دان اپنے کئے ہوئے وعدوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کرے،کسی سڑک،پل،ہسپتال،سکول،کالج،یونیورسٹی،پانی کی کوئی سکیم،یا کوئی بھی ترقیاتی منصوبے کا علان کرے تو اس کی تکمیل ہونا تو دور کی بات اس کو آغاز میں ہی سیاست کی نظر کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جاتا ہے۔ وہ عوام جن کو ان ترقیاتی اسکیموں سے فائدہ ہونا تھا وہی کسی دوسرے سیاسی گروپ کے ساتھ مل کر یا برادری،علاقہ،قبیلائی بنیاد پر تنقید کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی شروع کر دیں گے۔جس سے کسی دوسیرے کا نہیں بلکہ خود عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے اگر ہم تعلیمی میدان کی بات کریں تو بہت سے پرائیویٹ سکول،کالج،ہونے کے باوجود بھی یہ نا کافی ہیں ،جیسے جیسے وقت اگے بڑتا جا رہا ہے دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے تعلیم کی اہمیت اور ضرورت بھی بڑتی جا رہی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا میں ترقی کے لئے اور ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ تعلیم کے میدان میں اگے بڑھا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے زرائع مہیا کئے جائیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے باغ آزادکشمیر میں ایک نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر تعلیمی ادارے تو بہت ہیں مگر اعلیٰ تعلیم کے لئے ابھی تک کوئی ادارہ نہیں تھا اور وہ خواتین جن کا ترقی میں برابر کا حصہ ہے جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ان کے لئے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی اشد ضرورت تھی جو اعلیٰ بھی ہو اور خواتین کو مکمل تحفظ کے ساتھ تعلیم بھی دے سکتا ہو ،سردار قمر الزمان جنہوں نے ہمیشہ نہ صرف باغ بلکہ آزادکشمیر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ،سردار قمر الزمان کو آزادکشمیر کی ترقی کا ہیرو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔انہوں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ آزادکشمیر کے باقی اضلاح میں میڈیکل کالج ہیں یہاں پر اپنے اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے باغ میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی ادارہ نہ تھا انہوں نے بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے باغ میں وومن یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا ،باغ میں وومن یونیورسٹی کا قیام ضروری ہو چکا تھا یہاں کی عوام خاص طور پر خواتین کے لئے بہت ضروری تھا ،سردار قمرلزمان نے تمام سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود بھی ہمت نہیں ہاری اور ایچ ای سی سے وومن یونیورسٹی کی منظوری لی اس کے قیام سے ایک طرف تو عوام کو روز گار میسر آئے گا ،سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو باعزت،اور با وقار نوکریاں اور روزگار ملے گااور دوسری طرف وہ خواتین جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ شہر سے باہر نہیں جاسکتی ان کے خوابوں کی تعبیر ہوگی وہ آسانی سے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے گی یہی نہیں بلکہ باغ سدھن گلی کے مقام پر اس کی زمین مختص کی گئی وی ایسی جگہ ہے جو مستقبل میں کسی سیاحتی مقام سے کم نہیں ہوگی وہ جگہ کشمیر کے باقی شہریوں کو بھی مناسب ہے۔

مشن جتنا بڑاہوگا مخالفت اتنی زیادہ ہوگی یہاں پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا اور حیرت کی جا سکتی ہے اس سوچ پر جو اس پروجیکٹ کی مخالفت صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر کرتے ہیں ،جو تنقید برائے تنقید کے نظریے کے مالک ہیں یہ یونیورسٹی جو خالصتاََعوامی منصوبہ ہے جس سے تمام سیاسی پارٹیوں اور قبائل کے بچے ،یا لوگ مستفید ہونگے ۔یہ الزام لگانا کہ یہاں پر بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہو رہی تو یہ غلط ہے ابھی تو صرف کنٹریکٹ کی بنیاد پر سب کچھ ہو رہا ہے اور یہ بھی ہے کہ میرٹ تو بعد کی بات ہے پہلے اس کا آغاز تو کیا جائے جن ملازمین کو یہاں جاب ملی بھی ہے وہ بھی ابھی تنخواہ سے محروم ہیں۔باغ میں وومن یونیورسٹی سیاست کی نظر ہو کر اس پر کام روکا ہوا ہے اور اس پر کچھ مفاد پرست عناصر نے اسٹے لیا ہوا ہے اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے اور اس کو ناکام بنانے والے چائے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں یا نظریے کے مالک ہوں وہ عوام کے دوست نہیں ہو سکتے اور نہ ان سے عوام کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے یہ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں کہ ہم تو ڈوبے صنم تم کو بھی لے ڈوبے گئے۔نہ یہ خود کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ترقی کرنے والے کو پسند کرتے ہیں باغ میں وومن یونیورسٹی کا قیام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی ضروری ہے،اس پر بجائے کسی قسم کی تنقید کرنے کے یا سیاسی رنگ دینے کے جلد از جلد کام شروع کیا جائے اور وہ نالائق اور مفاد پرست جو کام کر تو نہیں سکتے مگر بگاڑ میں پیش پیش رہتے ہیں عوام ان کو مستردکر دے اس یونیورسٹی سے کسی ایک شخص یا قبیلے کو نہیں بلکہ پورے کشمیر کی عوام کو فائدہ ہے پاکستان سے بھی خواتین آکر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں ۔عوام کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ اس کا اسٹے ختم کیا جائے اور فوراََ عوام کے حق میں فیصلہ دے کر اس عظیم منصوبے کو بلاتفریق،اور سیاست کے کام شروع کیا جائے سردار قمر الزمان جو نڈر،بہادر اور ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں ان کو اس منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹنا وہ عناصر جو ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے چھپے حقائق کو عوام کے سامنے لائیں جو اس عوامی منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،تعلیم انسان کو شعورو اگائی دیتی ہے ایک مرد کے پڑھے لکھے ہونے کا مطلب کہ وہ شخص پرھا لکھا ہے ایک عورت کے تعلیم یافتہ ہونے سے مراد کہ ایک نسل تعلیم یافتہ ہے۔وومن یونیورسٹی کے قیام کا مطلب کشمیر کی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے یہ کارنامہ کشمیر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا بلا تاخیر اس کی رکاوٹین ختم کر کے باغ کی عوام کا دیرینہ خواب پورا کیا جائے۔اگر اس کو روکا گیا یا اس کو سیاسی رنگ دے کر مشکلات پیدا کی گئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ باغ کی عوام کے حق پر ڈاکہ مارہ گیا ،عوام سردار قمر الزمان کے ساتھ ہے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75020 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.