اﷲ تعالےٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے
بولنا سکھایا۔اِس کائنات میں بے شمار زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہر
ملک اور قوم کی اپنی ایک الگ زبان ہوتی ہے جس سے اس ملک یا قوم کی دنیا میں
پہچان ہوتی ہے۔زبانوں کا اختلاف اﷲ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ
اِس بارے میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ
أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ۔﴾
[ سورۃ الروم الآیۃ۲۲]
)اور اُس (اﷲ) کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری
زبانوں اور رنگوں میں اختلاف ، بے شک اس میں علم والوں کے لیے بڑی نشانیاں
ہیں (
اس کائنات میں زبانوں کا اختلاف ایک ابَدی حقیقت ہے ، ہر ملک اور ہر علاقے
کی اپنی الگ زبان ہے۔ جس قوم کی کوئی شناخت یا پہچان نہ ہو، اس کا وُجود
دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔دنیا میں پائی جانے والی ہرزبان کی
اہمیت مسلّم ہے۔ لیکن چندزبانیں ایسی ہیں جو بعض وجوہات کی بِناء پر دوسری
زبانوں پر فضیلت کی حامِل ہیں ۔اُن زبانوں میں سے ایک عرَبی زبان بھی ہے۔
جِس طرح ہرقوم کواپنی قومی زبان سے محبت واُلفت ہونا ایک فطری اَمرہے بالکل
اسی طرح ہر مذہب وملت کے پیروکاروں کواپنی دینی زبان سے بھی محبت ہوتی ہے
کیوں کہ کسی بھی قوم کی قومی ودینی بقاء کا اِنحصار اُن کی قومی ومذہبی
زبان کی بقاء پرہے۔ اگر ذرا تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگاکہ جن
قوموں کی قومی یادینی زبانیں ناپید ہوگئیں اُن قوموں کاوُجود بھی دنیاسے مٹ
گیا۔
اﷲ تعالٰی کے آخری نبی و رسول حضرت محمد ﷺ جودین لے کردنیا میں تشریف لائے
اُس کاتمام دینی ادَب مقدّس عرَبی زبان میں ہے۔ آپ ﷺ کی زبان اور آپ ﷺ پر
نازِل ہونے والے کلام کی زبان بھی عرَبی ہے۔ آپ ﷺ نے عرَبوں سے محبت کرنے
حکم دیتے ہوئے فرمایا: اَحِبوُّا الْعَرَبَ لثِلَاثٍ، فَاِنِّی عَرَبِیٌّ
وَالْقُرْآنُ عَرَبِیٌّ وَلِسَانُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِیٌّ ۔ [الحدیث]
(عربوں سے تین وُجوہات کی بناء پر محبت کرو، پس بے شک میں بھی عربی ہوں اور
قرآن بھی عربی ہے اور اہلِ جنت کی زبان بھی عرَبی ہے)
اﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجیدکو، جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے
لیے ذریعہ ہدایت ہے، مقدّس عرَبی زبان میں نازل کیا کیونکہ وہ جس قوم کی
طرف نازل کیا گیا ان کی زبان بھی عرَبی تھی۔ اِس بارے میں ارشاد ربانی ہے :
﴿اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرآناً عَرَبِیّاً لَعَلکُم تَعقِلون۔﴾ [سورَۃ یوسف
الآیۃ ۲] ( بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ
سکو) ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَھٰذا بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِیْنٍ﴾
[سورَۃ النحل الآیۃ ۱۰۳] (اور یہ قُرآن روشن عرَبی زبان میں ہے)
کسی بھی دین کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ اُس دین کی زبان کی بھی حفاظت کی
جائے ورنہ اُس زبان کے مٹنے کے ساتھ دین بھی مٹنے سے بچ نہ پائے گا جیسے کہ
عبرانی اور سریانی زبانوں کے معدوم ہونے کے ساتھ ہی اُن زبانوں میں نازل
شدہ یہودیت وعیسائیت کے دین بھی محفوظ نہ رَہ سکے اور اُن میں نازل ہونے
والی کتابوں میں اِس قدرتحریف وتبدیلی واقع ہو تی گئی کہ اُن کا ایک لفظ
بھی اپنی اصلی حالت میں باقی نہ رَہ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عُلَماء نے دین
کی حفاظت کے لئے اُس دین کی زبان کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
حِفْظُ اللُّغَاتِ عَلَیْنَا فَرْضٌکَحِفْظِ الصَّلٰوۃِ
(زبانوں کی حفاظت ہم پر فرض ہے جیسے کہ نماز کی حفاظت)
وَلَیْسَ یُحْفَظُ دِیْنٌ اِلَّا بِحِفْظِ اللُّغَاتِ
(اورنہیں محفوظ رہتادین مگر زبانوں کی حفاظت کے ساتھ)
حتَّی کہ حضرت عُمَرفاروق رضی اﷲ عنہ نے اِس بارے میں فرمایا: لَا
یُقْرِیءُ الْقُرْآنَ اِلَّا عَالِمٌ بِاللُّغَۃِ۔ (قرآن کو صِرف عرَبی
زبان جاننے والا ہی پڑھائے)
ہر دَور میں مسلمانوں نے دنیا کے ہر گوشے میں اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے
اِس مقدّس زبان کے دامن کو تھامے رکھا اور اس کی ترویج واشاعت میں حتَّی
الوسع جدوجہد کرتے رہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی مسلمانوں نے اپنی اِس روایت کو
برقرار رکھا یہاں تک کہ یہاں کی مقامی زبانیں بھی اِس زبان سے متائثر ہوئے
بِن نہ رَہ سکیں اور مسلمان افواج میں مقامی لوگوں کے میل جول سے ہماری
قومی زبان اُردو وجود پذیر ہوئی۔
ہندوستان میں طویل عرصہ تک حکمرانی کافریضہ سَرانجام دینے کے بعدمسلمان
مکافاتِ عمل کا شکار ہوکرغلامی کی دلدل میں گِرتے گئے اورانگریزہندوستان
پرقابض ہوگئے۔ اپنے اِستعماری دورِحکومت میں اُنہوں نے مسلمانوں کی تھذیب
وثقافت اوردینی ومذہبی اَقدار کوتباہ وبرباد کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ
عرَبی زبان کی ترویج کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں حائل کیں۔ بالآخر
مسلمانانِ برصغیر قائدِاعظمؒ کی قیادت میں طویل جدّوجھد اور عظیم قربانیوں
کے ساتھ اپنے لئے ایک الگ آزاد اسلامی مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کوپاکستان کے قیام کی صورت میں مسلمانانِ برصغیر کو اپنے
خوابوں کی تعبیرمل گئی۔
قیام پاکستان کے بعد قوم کی اُمنگوں کے مطابق نصاب تعلیم میں دینی ومذہبی
عُلوم کو شامل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اِس سلسلے میں مختلف ادوار
میں قومی تعلیمی پالیسیوں میں بھی اسلامیانِ پاکستان کی نظریاتی اساس کی
حفاظت کے لئے مختلف تجاویز پیش کی گئیں حتَّی کہ آئینِ پاکستان ۱۹۷۳ء میں
حکومتِ پاکستان کوپابند کیاگیا کہ وہ اسلامیانِ پاکستان کی نظریاتی اساس کی
حفاظت کے لئے عرَبی زبان کی تدریس کاکماحقُّہ انتظام کرے لیکن آج تک تعلیمی
پالیسیوں کی تجاویز پرنہ تو عملی اقدامات کئے گئے اور نہ ہی آئین پاکستان
کے مطابق اِس مقدّس زبان کواِس کاحق نصیب ہوسکا۔
انگریزی زبان کو اگر اِس وجہ سے لازمی قراردیاجاسکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی
زبان ہے توعرَبی کو اِس وجہ سے لازمی کیوں نہیں قراردیاجاسکتاکہ یہ اسلامی
زبان ہے؟چھپن اسلامی ممالک کی مذہبی زبان عرَبی ہے اور بائیس کے قریب عرَب
ممالک میں دنیاکے ایک بڑے حصے پرکروڑوں لوگ روزانہ یہ زبان قومی پیمانے
پراستعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید،حدیث شریف،تفسیر،فقہ،تاریخ اورہمارا سارا
دینی ورثہ اسی زبان میں ہے۔یہ وحی کی زبان ہے اوراہلِ جنت کی زبان بھی یہی
ہے اورنبی اکرم ﷺ نے اِس زبان سے محبت کرنے کا حکم دیاہے۔ نہ صرف اِس زبان
کو دینی اعتبار سے تقدُّس کا درجہ حاصل ہے بلکہ معاشی اعتبار سے بھی اِس کی
حیثیت مُسلَّم ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی کُل تعداد کانصف تقریبًا 11لاکھ
صرِف ایک عرَب ملک سعودی عرَب میں روزگار کماکر ملکی معیشت کو سنبھالادے
رہے ہیں۔کیاعرَب ممالک کے ساتھ تجارت وصنعت وحرفت کے میدان میں رابطے اہم
نہیں ہیں؟
اِسلام کے نام پر وُجود میں آنے والے وطنِ عزیز میں اِس مقدس زبان کوآج تک
سرکاری سرپرستی میسّر نہ آسکی یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں
میں اسے نظر انداز کیاگیا بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی اِس زبان کی
تدریس پرکوئی توجہ نہ دی گئی جس کے نتیجے میں عرَبی پڑھانے والے اساتذہ کی
حوصلہ شکنی ہوئی اور وہ اِس مقدس زبان کا حق اد اکرنے سے عاجز آگئے۔
عرَبی زبان کی اہمیت سے کوئی ذی شعور محبِّ وطن پاکستانی انکارنہیں کرسکتا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور میں پنجاب حکومت کی تعلیمی اِصلاحات سے
سب سے زیادہ عرَبی زبان کی تدریس متائثر ہوئی اور اُسے لازمی مضمون کی
بجائے اختیاری مضمون کا درجہ دے دیاگیا۔جب عرَبی زبان کی اہمیّت سے کوئی
مسلمان انکارنہیں کرسکتا توہمارے اربابِ اختیار نے کیوں کر اِس مقدّس زبان
کے تقدُّس کوپامال کیا اورااُسے لازمی کی بجائے اختیاری کادرجہ دے دیا؟
اوراُس کے مقابلے میں کمپیوٹر کو لازمی کیوں قرار دیا؟حالانکہ کہ کمپیوٹر
کو ایک الگ مضمون کے طورپر بھی پڑھایاجاسکتاتھایااُسے کسی اورمضمون ، زراعت
یاڈرائنگ کے مقابلے میں بھی رکھاجاسکتاتھا لیکن ایسانہ کیا گیا۔ مقامِ
افسوس ہے کہ اپنوں کی کم فہمی اور کج روی کی وجہ سے عرَبی زبان مسلسل
نظرانداز ہوتی رہی۔
دِل کے پھپھولے جَل اُٹھے سینے کے داغ سے
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
۲۰۰۹ء سے پنجاب بھرکے سرکاری ہائی سکولوں میں عرَبی زبان کی تدریس کے بارے
میں شکوک پیداکردیئے گئے۔ اکثر سکولوں میں اِس پیاری زبان کی تدریس کو ترک
کردیاگیاحالانکہ تمام سکولوں میں عرَبی پڑھانے والے اساتذہ موجود تھے۔ میرے
ایک ہیڈماسٹر دوست نے مجھے بتایا کہ ہمارے حکامِ بالا نے ایک میٹنگ میں کہا
کہ عرَبی اور کمپیوٹردونوں ہیں تواختیاری ہی لیکن آپ نے پڑھاناکمپیوٹر ہی
ہے اورہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ۲۰۱۳ء کے بعدمضمون عرَبی کاپرچہ نہیں
لیاجائے گا۔
اسی کشمکش میں تدریس عرَبی متائثرہوتی رہی حتیٰ کہ روزنامہ نوائے وقت کی ۲۹
اگست۲۰۱۱ء کی خبر کے مطابق محکمہءِ تعلیم پنجاب کی طرف سے تما م ڈی سی اوز
اور ای ڈی اوزکو عرَبی لازمی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیااور اُس میں کہا
گیا کہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک عرَبی کو ۲۰۰۹ء کی تعلیمی پالیسی کے تحت
لازمی مضمون کے طور پررکھاگیاہے جبکہ کمپیوٹر سائنس کو بھی لازمی مضمون کے
طور پر پڑھایاجائے گااور یہ اِضافی ہوگا۔لیکن افسوس کہ تعلیم کے اَربابِ
اِختیار نے اِس نوٹیفیکیشن کی کوئی پرواہ نہ کی اور عرَبی لازمی کے لئے
کوئی اِقدامات نہ کئے۔ ہماری انتظامیہ ہمیشہ ایسے نوٹیفیکیشنز کا یہی حشر
کرتی ہے۔ اور اِس نوٹیفیکیشن کے باوجودپنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے زیرِ
اِنتظام منعقد ہونے والے آٹھویں جماعت کے امتحان سیشن ۲۰۱۲ء /۲۰۱۳ء کے
داخلہ فارم اور ڈیٹ شیٹ میں عرَبی اور کمپیوٹر کوآپشنل مضامین کے طور پر ہی
رکھا گیاہے۔ پتانہیں وہ کون سی قوّت ہے جوعرَبی کے لازمی مضمون کے طورپر
پڑھائے جانے سے متعلق جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے راستے میں حائل
ہے؟اگرحکومت خود ہی اپنے جاری کردہ نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد نہ کرے توپھر
دوسروں سے اِس کی توقُّع کیسے کی جاسکتی ہے؟
ہماری پاکستان مسلم لیگ کی موجودہ وفاقی وصوبائی حکومت سے دردمندانہ
درخواست ہے کہ سب مسلمانوں کی دلی آرزو کالحاظ رکھتے ہوئے اِس مُقدّس زبان
کی بھرپورترویج کااہتمام کیاجائے تاکہ ہماری دینی اقداروروایات کی بہتر
طورپرحفاظت کی جاسکے ۔پاکستان کی خالق ونظریاتی جماعت کے داعی ہونے کے لحاظ
سے بھی جناب وزیراعظم پاکستان اور وزیرِاعلٰی پنجاب کی اخلاقی وقومی ذمہ
داری بنتی ہے کہ وہ اِس سلسلے میں اپناکردار ادا کرتے ہوئے پیارے نبی ﷺ کی
مقدس زبان کی تدریس سے متعلق نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کے احکام جاری
فرمائیں اوراس کی ترویج واہتمام کے لئے خصوصی اقدامات کرتے ہوئے اِس زبان
کے ساتھ قلبی محبت کا ثبوت دیں تو انشاء اﷲ اِ س اَرضِ پاک پر اﷲ تعالٰی کی
رحمت وبرکت عام ہوگی اور دنیا میں بالعموم اور عرب ممالک میں بالخصوص
پاکستان کا تصوُّر بہتر سے بہترین ہوگا اور امت مسلمۃ کی قیادت وسیادت کے
لئے ایک مشترکہ زبان کاہونا ناگزیر بھی ہے۔ اﷲ تعالٰی پوری اُمت کو
متحدومتفق ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ |