بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیادیکم محرم چودہ
سوایک ہجری گیارہ ستمبر انیس سو نواسی کو رکھی گئی مارچ 1985ء میں اس وقت
کے صدرجنرل ضیاء الحق نے ایک آرڈینس جاری کرکے اس جامعہ کو ایک باقاعدہ
ڈگری دینے والا ادارہ بنایا اس وقت اس ادارے کل نوکلیات اور چھ
خودمختارْتحقیقی ادارے کام کررہے ہیں ،اس ادارے میں سترہ ہزار طلبہ
زیرتعلیم ہیں جن میں سات ہزارطالبات بھی شامل ہیں ،اسلامک یونیورسٹی میں
اسلامی فقہ،اسلامی بیکنگ اور معیشت،اسلامی تاریخ،عربی زبان،اسلامی تہذیب
اور اصول الدین کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی مضامین ،انجنیئرنگ اور ٹیکنالوجی
،بزنس ایڈمنسٹریشن ،منجمینٹ سائنسز،سوشل سائنسز،نفسیات اور ابلاغ عامہ کے
شعبوں میں تعلیم دی جاتی ہے ۔انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے قیام کیلئے
سعودی عرب نے بھی دل کھول کر امداددی ۔یونیورسٹی کا پرانا کیمپ فیصل مسجد
اسلام آباد کے اطراف واقع ہے جبکہ نیاکیمپس 2003ء میں اسلام آبادکے
سیکٹرایچ نائن میں بنایاگیا جس سے یونیورسٹی کے تعلیمی پروگراموں میں بھی
اضافہ ہوا ،نئے کیمپس کے ساتھ ہی خواتین کیلئے علیحدہ کیمپس بھی بنایاگیاہے
،اکتوبر 2009ء میں یونیورسٹی کے نئے کیمپ میں دوخودکش دھماکے ہوئے تھے جس
میں چارطالبات سمیت چھ افرادمارے گئے تھے اس واقعے کے بعد پورے ملک کے
تعلیمی اداروں میں خوف وہراس پھیل گیاتھا اورتمام ادارے ایک ہفتے تک بندرہے
تھے آہستہ آہستہ ادارے معمول پرآگئے لیکن ایسے واقعات رونماہونے کی وجہ اور
اصل بیماری کی تشخیص کی کوشش نہیں کی گئی تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ
دنوں حساس ادارے کے اہلکاروں نے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل پر چھاپہ مارکر
ایک طالبعلم سجاد احمدکو دہشت گردی کے الزام میں گرفتارکیا احمد سجار کی
نشاندہی پر قانون نافذکرنے والے ادارون نے دوبارہ چھاپہ مارکر اس کے ساتھی
فاروق حمید کو بھی حراست میں لے لیا ،اطلاعات کے مطابق القائدہ سے تعلق
رکھنے والے کمانڈرفدائی مشن کی قیادت کیلئے لاہورآیاتھا اور اس نے ایک
مذہبی جماعت کی زیلی تنظیم سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے یہاں پناہ لے رکھی
تھی چونکہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز پربھی طلبہ تنظیموں کاقبضہ ہے اس لیے
ایسے تخریب کاروں کوسیاسی و مذہبی طلبہ تنظیموں کی آڑ میں باآسانی پناہ مل
جانا غیرمعمولی بات نہیں ہے ،پنجاب یونیورسٹی جیسے معروف ادارے کے ہاسٹلز
سے ایسے مشکوک افراد کو گرفتارکیاجانا لمحہ فکریہ ہے اوردیگر تعلیمی اداروں
کیلئے بھی باعث فکرہے ۔
پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور کے قائداعظم ہال سے القاعدہ کے جنگجو کی
گرفتاری معروف اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر اور طاہرسرورمیرکیلئے
غیرمعمولی اورمیرے لیے عام سی بات تھی (یہ دونوں سینئر صحافی پنجاب
یونیورسٹی کے اس ہاسٹل میں رہ کے تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں جہاں سے احمد
سجاد و اس کا ساتھی پکڑے گئے) کیونکہ میں گزشتہ چند سالوں سے
یونیورسٹیز(اسلامک یونیورسٹی) کے ان ہاسٹلز میں آتا جاتا رہا ہوں اور
بحیثیت صحافی اس بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہا ہوں۔پنجاب یونیورسٹی کے
وائس چانسلر ڈاکٹرمجاہد کامران نیاپنے ہاسٹل سے مشکوک افراد کی گرفتاری کے
بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی ہاسٹلز میں غیرقانونی طورپرمقیم
مسلح افراد کی موجودگی کی تصدیق کردی تھی ،پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلزپر جس
طرح غیرقانونی رہائشیوں کا قبضہ ہے اس بھی زیادہ قابضین بین الاقوامی
اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے ہاسٹلزمیں موجود بتائے جاتے ہیں جن میں
دوسری یونیورسٹیوں کالجز کے طلبہ ہی نہیں بلکہ ملازمت پیشہ افرادکی ایک بڑی
تعدادموجودہے کسی کو معلوم نہیں کہ ان قابضین میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو
حساس اداروں کو مطلوب یاجن کی سرگرمیاں مشکوک ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام
آباد میں ملکی و غیر ملکی طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیرتعلیم ہے اس کے ساتھ
ساتھ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھی یہ درسگاہ اپنا ایک مقام رکھتی
ہے،افسوس کا مقام ہے کہ اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹلزپر بھی پنجاب یونیورسٹی
کی طرز پر طلبہ تنظیموں کاقبضہ ہے۔یہاں اسلامی جمعیت طلبہ اور انجمن طلبہ
اسلام دوبڑے گروپ تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کو قدرے زیادہ
اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ اس طلبہ تنظیم کو یونیورسٹی کے اکثریتی
آفیسران کی حمایت حاصل ہے یونیورسٹی میں اس مخصوص طلبہ تنظیم کی حمایت کرنے
والے پروفیسرز اور طلباء کی تعداد دیگر سیاسی و مذہبی تنظیموں کے مقابلے
میں قدرے زیادہ ہے ،اسی تنظیمی سیاست کا اب یہ نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ
یونیورسٹی اور ہاسٹلز میں ان طلباء تنظیموں خصوصااسلامی جمعیت طلباء کے
حمایت یافتہ آفیسران و دیگر انتظامیہ کی تعیناتیاں کی جاتی ہیں، جب ان
مخصوص تنظیموں کے غیر قانونی اقدامات(بوگس الاٹ منٹس،غیر قانونی
رہائشیوں،میس بلز کی عدم ادائیگی ) کے خلاف قانونی کاروائی کیلئے یونیورسٹی
کے غیر سیاسی ملازم قانونی اقدام کر کے روک تھام کی کوشش کرتے ہیں تو ان
تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی بیوروکریسی حرکت میں آ جاتی ہے جو ان کے غیر
قانونی اقدامات کی پشت پناہی کا باعث بن جاتی ہے ، ابتدائی طور پر ان غیر
تنظیمی ملازمین کو دھمکیاں دے کے خاموش رہنے کا کہا جاتا ہے اور بعد میں
طلبہ تنظیموں کے مطالبات کے مطابق ''نہ سدھرنے پر'' ایسے ملازمین کے
تبادلیدوسرے ڈیپارٹمنٹس میں کرا دیئے جاتے ہیں ،اس بات کو ثابت کرنے کیلئے
گزشتہ ایک سال میں درجن بھر ملازمین کے تبادلوں کی جانچ پڑتال کرا کر تصدیق
کرائی جا سکتی ہے ۔اسلامی یونیورسٹی کے کویت ہاسٹل ہاسٹل نمبر5,4,2 پر انہی
طلباء تنظیموں کا قبضہ ہے ،کویت ہاسٹل جو فیصل مسجد سے تھوڑے سے فاصلے پر
جنگل کے اندر موجود ہے میں یونیورسٹی کے ملکی اور غیر ملکی طلباء کی ایک
بڑی تعداد رہائش پذیر ہے یہاں پر بھی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت کی اکثریت
اور قبضہ ہے اسی تنظیم کے طلباء کی مرضی سے ہاسٹل انتظامیہ میں تبادلے و
تقرریاں کی جاتی ہیں کیونکہ یہاں ان طلباء نے غیرقانونی طور پر سینکڑوں
افراد کو رہائش دے رکھی ہے اس لیے ان کے ایسے غیر قانونی کاموں کو روکنے
والوں کو سائیڈ لائن کرنا اب عام سی بات بن گئی ہے اس کے باوجود جن ملازمین
نے پشت پناہی دینے سے انکار کیا تو ان کے تبادلے کرا دیئے گئے ۔ ان غیر
قانونی قیام کرنے والوں میں کتنے افراد ایسے ہیں جو مشکوک ہوسکتے ہیں یا جن
کی سرگرمیاں پنجاب یونیورسٹی میں پکڑے جانے والے افراد جیسی بھی ہو سکتی
ہیں۔کویت ہاسٹل کے علاوہ ہاسٹل نمبر 2 میں اسلامی جمعیت کا پورا قبضہ ہے
اور اس ہاسٹل میں تو جمعیت کا باضابطہ دفتر قائم ہے جہاں تنظیم کے افراد کے
علاوہ کسی جو جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی یہی حال ہاسٹل نمبر 4 کا ہے
وہاں طلبہ تنظیم اے ٹی آئی کی اکثریت اور ان کا دفتر قائم ہے ،ہاسٹل نمبر 5
میں بھی مخصوص طلباء تنظیموں کا قبضہ ہے ۔چند ہفتے قبل جب حماد عادل نامی
فرد کو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تو توقع کی
جارہی تھی کہ اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں سے غیر قانونی رہائش پذیر
طلباء کیانتظامیہ کی طرف سے چھانٹی کی جائے گی کیونکہ حماد عادل جس کا تعلق
عسکریت پسند تظیم سے بتایا جاتا ہے بھی اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا
ہے اور اس کے دوستوں اور ہم خیالوں کو تلاش کرنے کیلئے سکیورٹی کے ادارے
ہاسٹلز پر بھی نطر رکھے ہوئے تھے لیکن معلوم نہیں یونیورسٹی انتظامیہ ان
غیر قانونی طور پر رہائش اختیار کیے ہوئے مشکوک افرادکے خلاف کوئی کاروائی
کیوں نہیں کر رہی اور غیر قانونی رہائش اختیار کیے ہوئے افراد کو پناہ دینے
والوں کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جارہی۔یہ ایک نازک معاملہ ہے ہے کیونکہ
ان ہاسٹلز میں غیر ملکی طلباء کی بھی ایک بڑی تعدادرہائش اختیار کیے ہوئے
ہیں اگر خدانخواستہ کوئی انہونی ہو گئی تو اس وقت ذمہ دار کون ہو گا ؟؟
ویسے بھی ملکی حالات ایسے ہیں کہ ملک دشمن عناصر کسی بھی جگہ دھماکہ کر
دیتے ہیں اور یہ وفاقی دارلحکومت میں قائم یونیورسٹی کا معاملہ ہے ۔
یونیورسٹی انتظامیہ،اسلام آباد کے سکیورٹی اداروں اور وفاقی حکومت نے اگر
فوری طور پر ان معاملات پر سنجیدیگی دکھاتے ہوئے کنٹر ول نہ کیا تو حالات
خر اب ہوتے دیر نہیں لگا کرتی ۔اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ تو بے بسی کی
تصویر بنی بیٹھی ہے ، حکام کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ کتنے بڑے خطرات ان
کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ایسے میں صرف اچھے کی دعا اور امید ہی کی جاسکتی ہے
۔ |