دینی مدارس الزامات کی زد میں

شاعرمشرق علامہ محمداقبال نے فرمایاتھا’’ان مکتبوں کواسی حال میں رہنے دو،غریب مسلمانوںکے بچوں کوانہی مدارس میں پڑھنے دو،اگریہ ملانہ اوردرویش نہ رہے توجانے ہوکیاہوگا۔۔۔۔؟ جوکچھ ہوگامیں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح ہوگا۔۔۔۔ جس طرح آج اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ حکومت کے باوجودآج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اورالحمرائ کے نشانات کے سوااسلام کے پیروکاراوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملے گا۔

آج بھی اگرتعصب کی عینک اتارکردیکھاجائے توروزِ روشن کی طرح یہ بات سب پرعیاں ہے کہ ہمارا پیارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان جوکہ خالص لاالہ الااللہ کے نام پرحاصل کیاگیاتھا۔اس ملک پاکستان کی دینی اورںنظریاتی سرحدوں کی حفاظت بننے سے لے کرآج تک دینی مدارس کے یہ ملا اوردرویش صحیح معنوں میں کرتے چلے آرہے ہیں ۔پاکستان کے اندرجب بھی شعائراسلام کے حوالے سے کوئی گھنائونی سازش کی گئی،ختم نبوت کی تحریک ہو،گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہویاپھرحدودآرڈنینس کامعاملہ ہو تویہی دینی مدارس کے علمائ اورطلبہ اس سازش کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرآئے۔۔ لیکن بدقسمتی سے آج اس ملک کے اندربعض مغرب کے پروردہ اوران کی تہذیب سے مرعوب ،مریض پرنٹ میڈیاکے ذریعے سے قلم کی حرمت کوپامال کرتے ہوئے اورالیکٹرونک میڈیاپربیٹھ کران درویش صفت اورپرامن دینی مدارس اورمساجدکو دہشت گردی اورانتہاپسندی کے مراکز ثابت کرنے پر اپنی مذموم اورناکام کوشش کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اوران کے پاک اورصاف دامن کوداغ دارکرنے کاکوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔پاکستان میں بدقسمتی سے جب بھی کسی مزار،مسجد،سرکاری عمارت یااقلیتوں کی کوئی عباد تگاہ کوئی دھماکہ یاخودکش بمبارحملہ آورہوتاہے تویہ موقع کوغنیمت سمجھتے ہوئے مختلف میڈیاذرائع کے ذریعہ سے یہ راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ یہدہشت گرد ،انتہاپسند اورخودکش بمبارکاتعلق مذہبی مکاتب فکر اور دینی مدارس سیہے ۔حالانکہ یہ بات آف دی ریکارڈ موجودہے کہ تمام مدارس کے بورڈز اورمدارس کے ذمہ داران نے مسلسل ا ن تمام واقعات کی مذمت کی ہے کہ ان کامذہب سے کوئی تعلق نہیں اورنہ ہی یہ دہشت گرد اورانتہائ پسند کسی دینی مدرسے سے فاضل ہیں ۔اگریہ مان لیاجائے کہ ان تمام دہشت گرد،انتہائ پسنداورخودکش بمبارکاتعلق کسی دینی مدرسہ سے ہے تودل پہ ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کوئی مسلمان جس کے اندرکم تردرجے کاایمان موجودہوتووہ کسی مزار،مسجدیاکسی مذہبی شخصیت پرکسی بھی صورت میں حملہ کرسکتاہے۔۔۔؟ اوراگرکوئی پکڑاگیاہے توآج تک اسے منظرعام پرکیوں نہیں لایاگیا۔۔؟ ۔

چندسال پہلے جب ایک فوجی ڈکٹیٹر کے حکم پروفاقی دارالحکومت کے اندرواقع جامعہ حفصہ(رض) اورلال مسجدپر حملہ کیاگیاتوجواز یہ پیش کیاگیاتھاکہ لال مسجد کے اندردہشت گرد، انتہا پسنداورغیرملکی جنگجو موجودہیں ۔اوریہ معاملہ بات چیت کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتاتھالیکن ظلم ،سفاکی اوربربریت کی انتہائ کرتے ہوئے جب یتیم بچیوں اورنہتے طالبعلموں پر ایسے فارس فورس بم پھینکے گئے کہ عالمی جنگی قانون کے مطابق یہ فارس فورس بم کوئی ملک اپنے دشمن کے خلاف بھی استعمال نہیں کرسکتا۔ لیکن پوری دنیائ کامیڈیااس بات پر گواہ ہے کہ لال مسجدکے تہہ خانے ،حجرے یامسجد کے مینارسے کوئی قانونی اسلحہ ،دہشت گرداورانتہائ پسنداورغیرملکی جنگجوموجود نہیں تھا۔اورشہید ہونے والوں میں معصوم اورپرامن یتیم طلبہ اورطالبات تھے۔بلکہ بددیانتی کایہ عالم ہے کہ اپریشن کے اگلے دن تما م قومی وبین الاقوامی پرنٹ میڈیااورالکٹرانک میڈیاپر ایک تصویرنشرکی گئی کہ یہ دہشت گرداورانتہائ پسند اتنہائی مطلوب تھا۔مگریہ بھی یہ صدی کاسب سے بڑاجھوٹ نکلا کہ جب اس مبینہ دہشت گردکی شناخت اٹک کے رہائشی عثمان نام کے ایک طالب علم کے طورپرثابت ہوئی ۔اس معصوم اورمظلوم طالب علم کے والدین اورچچانے چینل پر آکربتایا کہ جودہشت گردانتہائی مطلوب تھاوہ ہماراحافظ قرآن انتہائی شریف بچہ تھااوراس بات کی گواہی اس محلے کے رہائشیوں نے بھی دی۔فرض اگراس بات کومان بھی لیاجائے کہ مدارس اورمساجدانتہائ پسندی اوردہشت گردی کے مراکزہیں توتمام دینی مدارس کے ذمہ داران کے بار بارمطالبہ کے باوجودحساس ادارے اورقانون نافذ کرنے والے ادارے ان مراکز کادورہ کرکے اپنے تمام تفشیشی ذرائع اورحساسی آلات کے ذریعے یہ بات قوم کے سامنے کیوں نہیں لاتے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز ہیں ۔حالانکہ تمام بوردزکے ذمہ داران نے متفقہ یہ اعلامیہ جاری کیاہے کہ ہم ناصرف دہشت گردی اورانتہائ پسندی کی مذمت کرتے ہیں بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہرقسم کاتعاون کرنے کے لیے بھی تیارہیں ۔چونکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اورہیں اوردکھانے کے لیے اورہیں ۔گزشتہ چندسال پہلے جب باجوڑ کے ایک دینی مدرسہ پرراتوں رات حملہ کیاگیاجس کے نتیجہ میں سوکھی روکھی روٹی کھانے والے اورچٹائی پر بیٹھ کرقا ل اللہ وقال الرسول (ص)اللہ کی صدائیں بلند کرنے والے 83معصوم طلبہ کوشہید کیاگیاتوان میں بھی آج تک کوئی دہشت گرد ،انتہائ پسند اورخودکش بمبارسامنے نہیں آسکا۔

مدارس پردوسرابڑاالزام یہ لگایاجاتاہے کہ ان مدارس کے اندرجونصاب پڑھایاجاتاہے وہ طلبہ کومسلح جدوجہداورانتہائ پسندی پرابھارتاہے ،اگرحقیقت سے نظرنہ چرائی جائے تو اندھے کوبھی نظرآتاہے کہ معاشرے کے اندرہونے والے تمام جرائم میں ملوث افراد کاتعلق مدارس کی بجائے جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ تمام جعلی ڈگریوں والے وفاق کے نمائندے کہلائیں،

ملک توڑنے والے ملک سے وفادا ر کہلائیں اور لوگوں کو جوڑنے والے دہشت گرد کہلائیں ،

تیسرابڑاالزام جومدارس پرلگایاجاتاہے کہ مدارس میں پڑھایاجانے والانصاب جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔حالانکہ تمام مکاتب فکرکے مدارس میں تعلیم انگریزی،سائنس اورکمپیوٹرناصرف پڑھاجاتاہے بلکہ بعض مدارس بعض میں نصاب کاحصہ بھی ہے۔جس کی تاز ہ مثالیں ملک پاکستان کے اندرہونے والے میٹرک ،ایف اے اوربی اے میں پوزیشن لینے ہولڈرز طلبہ ہیں ۔اگرمیڈیاکاریکارڈچیک کیاجائے تویہ بات ببانگ دہل مل جائے گی جوکہ چودہدری شجاعت نے اپنے وزارت عظمیٰ کے زمانے میں میڈیاپرآکرکی تھی کہ’’میری مکمل تفشیش کے مطابق کوئی مدرسہ انتہائی پسندی کامرکزہے نہ ہی کسی مدرسہ میں دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے اورنہ ہی کومدرسہ پاکستان میں کسی دہشت گردی میں ملوث ہے‘‘۔پھرسوال یہ پیداہوتاہے کہ اس حقیقت سے آنکھ کیوں چرائی جاتی ہے۔اوراگربدقسمتی سے کوئی ادرارہ اس بھیانک کام میں ملوث ہے تواس کاالزام لگاتے ہوئے تما م مدارس کے علمائ اورطلبہ پرکیچڑ اچھالنا کونساانصاف ہے ۔۔؟۔

ان لوگوں کی عقل پراگرماتم کیاجائے تویہ بھی کم ہے کہ یہ الزام تراش انہی مدارس سے فارغ التحصیل علمائ میں امامت نمازجیسا اہم فریضہ اداکرنے کے بعدانہی لوگوں کودہشت گرداورانتہائ پسندقراردے دیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آئے روزمدارس کی تعداداوران سے فاضل علمائ کی تعدادبڑھتیہوئی تعدادسے خوف زدہ ہوکرمغربی سوچ رکھنے والے لوگ اس لیے کیچڑ اچھالتے ہیں کہ اگر یہی حال رہاتوان کی شراب وکباب کی محفلیں ویران ہوجائیں گی اوررشوت وسود کے ذریعے عوام کی جیب اورقومی خزانہ کولوٹ کربنائے جانے والے بینک بیلنس اورجائدادیںان غریبوں اوریتیموں کوواپس کرناہوںگے۔لیکن انشائ اللہ انہی مساجداورمدارس سے نکلنے والے درویش صفت لوگ ملک پاکستان کی دینی ونظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ہراول دستہ کاکرداراداکریں گے۔
کسی شاعرنے کیاخوب کہاتھا!۔
نورخداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا

Naveed Zuberi
About the Author: Naveed Zuberi Read More Articles by Naveed Zuberi: 8 Articles with 13204 views i am student
m.phil
islamic studies
.. View More