ابھی شام جل ہی رہا تھا اور اس کی تپش ابھی مدھم بھی نہیں
ہوئی تھی کہ۳۰ ستمبر کی رات آگئی پھر کیا تھا بارہ بجتے ہی جبکہ ابھی
اکتوبر کی نئی صبح کا نیا سورج ابھی تک اپنی کرنیں بھی نہ پھیلا سکا تھا
اور اس کے بعد تو وہ ہواکہ جیسے خونی بادلوں نے یکا یک سب کو ڈھانپ دیا ہو
۔ جس کا تصور کرکے انسان سہم جائے،ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کو حکومتی
ڈرون حملے نے بے حال کر دیا۔ لوگ سوچوں میں گم رات بھر کروٹیں بدلتے رہے
کیونکہ ان غریب اور متوسط طبقے کی نیند تو اقتدار کے فیصلوں نے چھین لیا
تھا۔ کیونکہ بیک وقت اُس دن پیٹرول اور بجلی کے ریٹ بلند سطح پر پہنچا دیا
گیا۔ ایک عام فرد جو مبلغ آٹھ ہزار روپئے کی معمولی تنخواہ پر ملازم ہو ،
اور اس کی مختصر چار افراد کی ہی فیملی کا تجزیہ کیا جائے تو پہلے ہی اُس
کے گھر کا خرچ نہیں چل پاتا ہوگا اب تو کسی اخبار میں کل ہی پڑھا تھا کہ
سات ، آٹھ ہزار کمانے والا بندہ اُن پیسوں میں صرف بجلی کا بل ہی بھر پائے
گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باقی مہینے بھر کا خرچ اس کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔
اب آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں غریبوں اور متوسط طبقوں کا کیا
حال کر دیا گیا ہے۔ جینا تو مشکل بنا ہی دیا گیا ہے اور سوچوں پر بھی ایسی
پابندی عائد کہ بندہ صرف دال روٹی کے چکر میں لگا رہتا ہے۔ اور اس کے سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت تک اس مہنگائی بے کراں نے معاؤف کر دیا ہے۔
ہماری آنکھ ہے کیوں نم کوئی پتہ تو کرے
دیء ہیں کس نے ہمیں غم کوئی پتہ تو کرے
وہ کون ہے جسے انسانیت سے نفرت ہے
کیوں لاتے ہیں یہ مہنگائی کوئی پتہ تو کرے
آج ایک غریب ہسپتال کے باہر اپنے گردے بیچنے کے لئے کیوں کھڑا نظر آتا ہے،
لوگ اپنے پھول جیسے بچوں کو کیوں بیچ رہے ہیں ، ملک میں کرپشن کیوں ہے ؟ سب
کو پتہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ہی یہ کرپشن عروج پر ہے، جب تنخواہوں میں
گزارا مشکل ہو جائے تو لوگ اِدھر اُدھر دیکھنے اور ذرائع آمدن کے دوسرے
راستے تلاش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ روٹی اس ملک کے عوام کی چِڑ بنا لی
گئی ہے کہ اکثر کو سکون سے دو وقت کی روٹی میسر ہی نہیں۔ مہنگائی ایسا جن
ہے کہ نہ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور نہ ہی واپس بوتل میں جا رہا ہے۔ بلکہ
اب تو یہ مہنگائی سلسلے وار ہو گیا ہے کیونکہ کبھی حکومتیں مہنگائی کرتے
ہوئے ڈر اور خوف محسوس کرتے تھے کہ کہیں عوام سڑکوں پر نہ آجائیں اور کوئی
ہنگامہ نہ برپا ہو جائے مگر آج یہ حال ہے کہ تسلسل کے ساتھ مہنگائی میں
ببانگِ دہل اضافہ کیا جاتا ہے۔ پیٹرول کی قیمت اس وقت ملکی تاریخ میں بلند
ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، حکومت کے سو دنوں نے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام
کے سو مہینوں کے برابر کچومر نکال دیا ہو۔ عوام بلبلا رہے ہیں، بھوک سے،
افلاس سے، دوائی سے، اسکول کی فیسوں سے، بیماریوں سے، بے روزگاری سے، مگر
پھر بھی جی رہے ہیں ۔ آس باقی ہے تو بس رب العزت کا کہ وہی انسان کا واحد
سہارا ہے وگرنہ یہاں تو حکمرانوں کا بس نہیں چل رہا ہے کہ وہ حد سے گزر
جائیں۔ یہ ساری باتیں اور مسائل کو صرف میں ہی محسوس نہیں کر رہا ہوں بلکہ
اب تو چیف جسٹس صاحب نے بھی اس ہوشربا مہنگائی پر از خود نوٹس لے لیا ہے،
اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جیت عوام کی ہوتی ہے یا
حکمرانوں کی ۔
آج مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سفید پوش افراد کے لئے تو زندگی کٹھن
راہگزر بن گئی ہے۔ لوگ انہی وجوہات کی بنا ء پر اپنی اولادوں کو تعلیم کی
راہوں سے دور کر رہے ہیں ۔ زندگی کی ضروری اشیاء مثلاً آٹا ، چینی، دودھ،
چاول ، سبزیاں اور دوسری روز مرہ کے استعمال کی چیزیں انتہائی مہنگی ہو چکی
ہیں جو کہ غریب کی پہنچ سے بھی دور ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹی کے ارباب صرف
کاغذی کاروائی کے ذریعے ’’سب اچھا ہے‘‘کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جسے آپ سب بھی محسوس کر رہے ہونگیں۔ایک غریب
مزدور سارا دن اپنا خون پسینہ بہا کر دو ڈھائی سو روپئے کمائے گا تو اس سے
وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ اس کی سارے دن کی
مزدوری ڈھائی یا تین سو روپئے ہوتے ہیں اور ایک کلو گائے کا گوشت خریدنے
جائے تو اس کی قیمت چار سو روپئے بتایا جائے۔ اب تو وہ یقینا دال کی طرف
جائے گا مگر یہ کیا دال کی قیمت تو خود ہی سو روپئے سے زیادہ چل رہا ہے۔
یوں غریب تین وقت کی بجائے یقینا دو وقت کے کھانے پر ہی گزارا کرنے پر
مجبور ہوتا ہے۔ مگر یہ ساری باتیں اور مسائل محلوں میں رہنے والے اور لیمو
زین گاڑیوں میں گھومنے والے کہاں سمجھ سکتے ہیں۔وہ بھی صرف زبانی دعویٰ ہی
کرتے رہتے ہیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جناب! غریبوں کا درد محسوس
کیجئے ،اور خوفِ خدا کو اپنے اندر سمویئے کیونکہ آپ سب کو بھی ایک نہ ایک
دن خدا کو منہ دکھانا ہے ، وہاں حساب دینا ہے۔ ابھی وقت ہے ازالے کا ، اﷲ
نے عوام پر حکمرانی کا تاج آپ کو پہنایا ہے تو اس کا پاس کیجئے تاکہ ملک کے
باسی آپ کے لئے واہ واہ کریں نہ کہ جا، جا کا نعرہ بلند کریں۔
ملک میں زلزلے، سیلاب اور دوسری ناگہانی آفتیں تسلسل کے ساتھ آ رہی ہیں،
کیا یہ ہمارے اعمالوں کی سزا نہیں ہے، آج جن بچوں کے ہاتھوں میں قلم ہونا
چاہیئے تھا اُن کے ہاتھوں میں کشکول تھما دیا گیا ہے۔ بازار سے گزریں تو
معصوم معصوم بچے بھیک مانگتے ہوئے سرِ راہ مل جائیں گے اور اس کی بڑی وجہ
مہنگائی ہی ہے۔ بجلی کو ہی لے لیں جو شاید آتی تو بہت ہی کم ہے مگر بل
تواتر اور اضافے کے ساتھ آتے ہیں۔ بھائی اتنی سمجھ تو ایک ان پڑھ کو بھی آج
کل ہے کہ جب چوبیس گھنٹوں میں دس سے بارہ گھنٹے بجلی آتی ہی نہ ہو تو اس کا
مطلب یہ ہوا کہ تیس دنوں میں تین سو گھنٹے بجلی لوگوں کو نہیں مل رہی ،تو
پھر وہ اَن پڑھ شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ یہاں انصاف نام کی کوئی چیز
میسر نہیں شاید۔بجلی کی عدم موجودگی میں لوگوں کو پینے کا پانی بھی گھروں
میں ٹھیک طرح سے دستیاب نہیں پاتا ۔ آپ ارباب تو مشینی صاف پانی پیتے ہیں
آپ کو کیا معلوم کہ گھروں میں کب اور کتنے وقت کے لئے لوگوں کو پانی کی
سپلائی دی جاتی ہے۔ بہانہ بڑا اچھا ہوتا ہے کہ بجلی نہیں ہے اس لئے پریشر
نہیں بن پا رہا ہے تو پانی گھروں تک کیسے پہنچے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ابھی عوام آپ کے رحم و کرم پر ہیں ، اپنا
اور اداروں کا قبلہ درست کروا لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بپھر جائیں اور ویسے
بھی اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔کسی شاعر نے
کیا خوب کہا ہے کہ :
ہم بھی بکنے گئے تھے بازارِ محبت میں ائے دوست
جب بازار پہنچے تو پتا چلا کہ انسان سستے ہیں اور آلو مہنگے ہیں
ویسے بھی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: پاکستان میں اتنی مہنگائی اور ہنگامہ
آرائی کے باوجود اگر آپ پُرسکون اور پُر امن پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو
پی۔ٹی۔وی لگا لیں ، آپ کو سب کچھ اچھا، بہتربلکہ بہت اچھا نظر آئے گا۔ |