کراچی میں اغوا، قتل، اور تاوان
کی وصولی کے واقعات اس تیزی سے ہورہے ہیں کہ اخبارات میں ابھی ایک واقعہ کی
بازگشت ختم نہیں ہوتی ہے کہ شہ سرخیوں میں ایک نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔
زمان ٹاؤن کے علاقے میں تین سالہ بچی کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کر کے
لاش گٹر میں پھینکنے کا واقعہ شقی القلبی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس بارے
میں شک اور شبہے کی گنجائش اس لئے باقی نہیں رہ جاتی کہ مجرموں نے خود اس
گٹر کی نشاندہی کی جس سے اس بچی کی لاش ملی ہے۔ یہ اتنا بڑا ثبوت ہے کہ اس
کے بعد کسی مقدمے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ میرے نزدیک ان ظالم اور
سفاک مجرموں کو فوری پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ چند ہفتوں قبل بھی ایک
ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں طارق روڈ سے ایک تاجر طارق عادل کے جواں
سال بچے کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا تھا۔ پھر تاوان لے کر بھی ظالموں نہ
صرف اس کو قتل کرکے گندے نالے میں اس کی لاش ڈال دی تھی۔ بلکہ مزید رقم کے
لالچ میں مجرم بعد میں بھی والدین سے اس کی بازیابی کے لئے سودے بازی میں
مصروف رہے اور بالآخر پکڑے گئے۔ پولیس اور سی پی ایل سی نے ان مجرموں کو
گرفتار کرا کے قانون کے حوالے کر دیا ہے اور اب مقدمہ چل رہا ہے۔ جانے یہ
مقدمہ کب تک چلے گا۔ اور مجرموں کو سزا بھی ہوسکے گی یا نہیں۔ کراچی میں۰۹۹۱
سے ۹۰۰۲ تک اغوا اور اغوا برائے تاوان کے ۱۱۶ کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن میں
سے صرف ۳۵۳ یعنی ۳۵ فیصد کے لگ بھگ کیسسز حل ہوسکے ۔ اور ۸۵۲ کیسسز کا پتہ
نہ چل سکا۔ کراچی میں ۶۰۰۲ سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا
ہے۔ ۶۰۰۲ میں ایسی وارداتوں کی تعداد ۲۹۶ تھی جو ۷۰۰۲ میں ۸۲۱ فیصد بڑھ گئی
اور ایسے واقعات کی تعداد ۰۲۸ ہوگئی۔۸۰۰۲ میںیہ تعداد ۱۰۴ ہوگئی ہے۔ لیکن
اس تعداد میں کمی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپنے عزیز و اقارب کی جان
کے خطرے کے پیش نظر اب ایسے کیسسز کے بارے میں پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کی
جاتی ہے۔ زمان ٹاﺅن والے کیس میں گرفتار ٹریفک پولیس اہلکاروں ہیڈ کانسٹیبل
بشیر احمد اور پولیس کانسٹیبل نور محمد جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل
میں ہیں۔ سماعت کے دوران مقتولہ کے عزیز و اقارب کی بڑی تعداد نے احتجاجی
مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ معاشرہ کو جرائم
سے پاک کرنے کے لئے مظاہرین کا یہ مطالبہ برحق ہے۔
۰۸ کی دہائی میں فیڈرل بی ایریا میں ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ جس میں بے بی
ترنم ناز کو قتل کردیا گیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے مجرموں کو پھانسی دے دی
اور کراچی کیا پورا ملک ایک عرصے تک جرئم سے پاک ہوگیا، گزشتہ عرصے میں
عدالتوں سے بہت سے ملزماں جو اغوا اور تاوان کے مقدمات میں ملوث تھے۔ عدم
ثبوت کی بنا پر رہا کردیے گئے ہیں۔ جس سے ان مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوئی
ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی شہر میں ۸۸ا سے زائد گینگ اغوا کے دھندے
میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ہماری پولیس اور قانون کے رکھوالوں کی ساری توجہ کا
مرکز موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی ہے ۔اور ہم نے اسی کو جرائم کے
سدباب کی قلید سمجھا ہوا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس مشیر عالم اور
مسٹر جسٹس کے کے آغا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے حکومت سندھ کو جوہدایت کی ہے کہ
وہ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی سے قبل اور بعد میں ہونے والے جرائم
کا تقابلی ریکارڈ پیش کرے وہ بالکل صحیح اقدام ہے۔ ۔ ڈبل سواری پر پابندی
کے خلاف ہیومن رائٹس کے انتخاب عالم سوری نے درخواست دی ہے۔ شہر میں امن و
امان کی صورتحال مخدوش ہے، جرائم پیشہ افراد متحرک ا ور فعال ہیں، اس لئے
وزیر داخلہ کو بھی بیوکریسی کے چنگل سے نکلنا چاہئے۔اور اغوا کی وارداتوں
کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ایسے مقدمات کا
ملک بھر سے ریکارڈ طلب کر کے تحقیقات کرنا چاہیے کہ کیا عدالتیں ان مقدمات
میں واقعی انصاف کررہی ہیں یا یہ اغوا کی وارداتیں بااثر افراد کی کمائی کا
ذریعہ بن گئی ہیں |