دینی مدارس کے نصاب تعلیم پر ایک تبصرہ

دینی مدارس کا نصاب تعلیم جو کہ صدیوں سے معمولی ردو بدل سے وہی چلا آ رہا ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں تبدیلی ضروری ہے اور عصر ِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق دینی مدارس کے نصاب کو ہم آہنگ کیا جائے ۔ اس کے بارے میں ہم یہاں چند ماہر تعلیم حضرات کی آراء پیش کریں گے ۔ تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائے اور مدارس کے موجودہ نصاب کے بارے میں خوبیوں اور خامیوں کو شمار کیا جائے ۔

۱۔ پروفیسر خورشید احمد
مسلم دنیا پر مغربی استعمار کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام دو دنیاؤں میں بٹ گیا ہے ۔ ایک دنیاوی اعتبار سے ، قیادت کی تیاری اور علوم کے حصول کا سارا نظام ایک خاص سیاسی انتظامی نظام کے سپرد کر دیا اور دوسری طرف دوسرا گروہ جو کہ مادی بے سروسامانی اور نہایت نامساعد حالات میں دین کی حفاظت اور اسلامی روایات کی پاسداری اور قوم کی دینی تعلیم و تربیت اور دینی قیادت کی تیاری کا کام اپنے سر لے لیا ہے ۔

اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسلامی ریاست ، اسلامی معاشرے ، اسلامی تہذیب اور امت مسلمہ کے لئے معیاری اور مثالی نظام ِ تعلیم کے خدو خال کو نمایاں کیا جائے ۔ موجودہ حالات میں ہمیں دینی نظام تعلیم کی خوبیوں ، خامیوں ، گنجائشوں اور اصلاح طلب پہلوؤں کا تجزیہ کرنا ہو گا ۔ یعنی دینی مدارس کا اولین فرض یہ ہے کہ ایک طرف مسجدیں آباد رکھیں اور مدارس کی ذمہ داریاں لیں اور دوسری طرف ایسے افراد تیار کرنا جو کہ علمی میدان میں اور دعوتی میدان میں آگے بڑھیں اور دین کی صحیح ترجمانی کریں ۔

۲۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری
مسلم دنیا میں دینی اور دنیاوی تعلیم دو متوازی لہروں کو آپس میں ملانے کی اب تک کوئی قابل ِ ذکر اور سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔ اور اسی ہی کی وجہ سے اسلام اور ملت ِ اسلامیہ کے ساتھ تعلیم یافتہ مسلمانوں کا گہرا تعلق اور تہذیبی احساسِ کو کمتر کر دیا ہے ۔

بلاشبہ روایتی نظام ِ تعلیم اپنے وجود اور بقا ء کے لئے ہمہ گیر چیلنج سے دو چار ہے لیکن دوسری جانب اس نے عصری سیکولر نظا مِ تعلیم کے لئے علم و ہنر کے اعتبار اور تہذیب و آگہی کا بڑا وسیع میدان خالی چھوڑ دیا ہے ۔ جبکہ سیکولر عصری نظام تعلیم کسی اور رعایت کے بغیر دینی نظام ِ تعلیم کو نہ صرف بے اثر کرنے بلکہ اس کی جڑ ہی اکھاڑدینے کے درپے ہے ۔ چشم ہوش سے دیکھا جائے تو یہ دونوں تعلیمی نظام شدید کمزوریوں اور بنیادی خامیوں کے حامل ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں ۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے جس زادِ راہ کی ضرورت ہےوہ ایمان ، خرد مندی ، وسعت ِ نظر ، قلبی کشادگی ، درجہ بندی ، حقائق شناسی ، مستقل بینی میں اضافے اور دانش جیسی گم شدہ متاعِ عظیم کو حاصل کرنے کی پیہم جدو جہد پر مشتمل ہے ۔

۳۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان
عام طور پر دینی مدارس پر لگائے گئے الزام پر افسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو دنیاوی تعلیم سےالگ رکھتے ہیں مگر مجھے اس سے قطع نظر زیادہ صدمہ اس بات پر ہوتا ہے ۔ خالصتاً دینی علوم میں بھی اب وہ تعمق ، وہ گہرائی ، وہ سنجیدگی دور وہ متانت ہمارے موجودہ دینی مدارس کے اکثر طلبہ و اساتذہ میں دیکھنے میں نہیں آتی جو ان مدارس کا شاندار طرہ امتیاز تھی ۔

۴۔ ڈاکٹر خالد علوی (مرحوم)
دینی مدارس کا اہم جزو نصاب تعلیم ہے ۔ اس نصاب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں شامل اپنے وقت کے متدول علوم تھے ۔ پڑھنے والا شخص ایک صاحب استعداد عالم ہوتا تھا اور اس کی مدد سے دوسرے علوم سے فائدہ اٹھا سکتا تھا ۔

نصاب میں بعض دقیق متون (Levts) رکھی گئی تھیں۔ اس سے طلبہ کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیت پیدا ہوتی تھی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت ختم ہونا شروع ہو گئی ، وہ دقیق متون جو تحقیقی صلاحیت کو ابھارنے کے لئے استعمال ہوتے تھے ۔ حاشیہ در حاشیہ اور شرح در شرح میں گم ہو کر رہ گئے ۔ طلبہ درس نظامی مکمل کرلینے کے باوجود عربی بولنے اور لکھنے میں مہارت نہیں رکھتے تھے ۔

۴۔ پروفیسر ظفر حجازی
دینی مدارس کا نصاب اپنی نصابی حیثیت اور طریقہ تدریس کی وجہ سے ملت ِ اسلامیہ کی علمی دینی اور تعلیمی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔ اس نظام ِ تعلیم سے فارغ التحصیل علماء نے صدیوں سے مسلمانوں کی علمی اور دینی ضرورت کو پورا کیا ہے۔

Naveed Zuberi
About the Author: Naveed Zuberi Read More Articles by Naveed Zuberi: 8 Articles with 13206 views i am student
m.phil
islamic studies
.. View More