میر زادی اپنے گھر کی واحد کفیل ہے، جہاں اس کے والدین،
دو بھائی اور اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے اس کی بہن اپنے تین
بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ میر زادی نے غربت سے نجات پانے کے لیے ایک ایسے
راستے کا انتخاب کیا، جو اس کے علاقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے عام
نہیں۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق میر زادی کی تقدیر اس وقت بدلی، جب وہ اپنے بھائی کے
ہمراہ پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے تحت ماحول دوست
چولہے بنانے کی ورکشاپ میں شامل ہوئی۔ ورکشاپ میں میر زادی نے باقی شرکاء
کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ یہ ماحول دوست چولہے بنانا سیکھ لیے۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے سٹاف کو میر زادی کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوا
اور انہوں نے مختلف دیہات سے ان چولہوں کو بنانے کے آرڈرز میر زادی کو دینا
شروع کردیے۔
|
|
میر زادی نے ان دیہات میں جا کر یہ چولہے بنانا شروع کردیے۔ لیکن سندھ کے
اس پسماندہ علاقہ میں اسے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں جانے میں شدید مشکلات
کا سامنا تھا۔ میر زادی کی محنت اور لگن سے متاثر ہو کر ہیریٹیج فاؤنڈیشن
نے میر زادی کو ایک رکشہ بطور تحفہ دے دیا۔ رکشہ حاصل کرنے کے بعد میر زادی
اب نہ صرف رکشہ پر بیٹھ کر لوگوں کے گھروں میں چولہے بنانے جاتی ہے بلکہ
رکشہ پر لوگوں کو بھی ایک سے دوسری جگہ پہنچاتی ہے اور اس کا معاوضہ بھی
لیتی ہے۔
پاکستان میں عورتوں کے لیے رکشہ چلانا عام نہیں لیکن حلال رزق کے حصول کی
متلاشی میر زادی سمجھتی ہے کہ رکشہ چلانے میں کوئی عیب نہیں۔ میر زادی کا
کہنا ہے کہ اُس کے چند رشتے دار اور گھر والے اُس کے رکشہ چلانے کے خلاف
تھے لیکن جب اُس نے پیسے کمانا شروع کیے اور گھر کے مالی حالات بہتر ہونا
شروع ہوئے تو انہوں نے تنقید کرنا بھی بند کر دی۔
|
|
سندھ میں ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے پراجیکٹ مینیجر نعیم شاہ نے ڈوئچے ویلے سے
باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے میر زادی کو جو بھی کام دیا، اس نے وہ بخوبی
نبھایا، اسی لیے ہم نے اسے رکشہ دینے کا فیصلہ کیا‘۔
موک شریف اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، جن
میں ہندو، کولی، مسلم اور دیگر مذاہب کے افراد شامل ہیں۔ لیکن ایک ڈاکٹر کی
طرح میر زادی بھی یہ نہیں سوچتی کہ وہ چولہا بنانے کس کے گھر میں جا رہی ہے۔
میرزادی کا کہنا ہے کہ یہاں لوگ اس لیے بھی خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے گھر میں
چولہا بنانے کے لیے کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت آئے گی، اس سے وہ مطمئین
ہوتے ہیں۔
|
|
چولہا بنانے اور رکشہ چلانے کے علاوہ بھی میر زادی اپنے آپ کو مصروف رکھتی
ہے۔ اس نے اپنے گھر میں بچوں کی ٹافیوں کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی ہوئی ہے،
جسے وہ اپنی بہن کی مدد سے چلاتی ہے۔ اپنے کاروبار اور کام کو بہتر طور پر
کرنے کے لیے میر زادی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ذریعے حساب اور انگریزی بھی سیکھ
رہی ہے۔
میر زادی کا کہنا ہے کہ اس کے علاقے کے لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
اور اس کی کامیابی پر فخر کرتے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی طرح اور خواتین
بھی غربت کی زندگی کو خیرباد کہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ’جب بھی میں غریب
خواتین سے ملتی ہوں، میں انہیں کہتی ہوں کہ وہ کوئی ہنر سیکھیں، کچھ نہیں
تو مجھ سے چولہا بنانا ہی سیکھ لیں تاکہ وہ کچھ پیسے کما سکیں‘۔ |