بھوک اور نعرے

شہر میں حاجی صاحب ٹیلرنگ کی دکان کرتے تھے اور اپنے شعبے میں ان کا بڑا نام تھا۔شہر کے سب بڑے ان کے سامنے اپنی گردن جھکایا کرتے تھے۔وہ سب کے ماپ اور ناپ جانتے تھے۔حاجی صاحب سے کپڑے سلوانا ٹرینڈ تھا۔سیاستدان، بیورکریٹ،تاجر جن کے پاس چار پیسے ہوتے حاجی صاحب کے ہاتھ سے چھوئے کپڑے پہننا انہیں بھایا کرتا۔فوجیوں کی وردیاں بھی اسی دکان سے سلا کرتیں۔ہم نے دیکھا بھی اور بہت لوگ گواہی دیتے ہیں کہ حاجی صاحب نو دولتیوں اور کن ٹٹوں کے کپڑے سینے سے صاف انکار کر دیا کرتے تھے۔ان کے ہاں صرف اعلیٰ نسل ہی کے لوگوں کا آنا جانا تھا۔پھر شاید کسی دن حاجی صاحب سے کوئی بھول ہو گئی۔وہ شاید پہچان نہیں پائے۔کوئی بہروپیاآیا اور ان کے سب ٹھاٹھ بھاٹھ اپنے ساتھ لے گیا۔پچیس سالوں کی محنت ہفتوں ہی میں زمین پہ آ رہی۔حاجی صاحب کا داماد سب پیسہ لے کے امریکہ چلا گیااور وہاں سے ان کی بیس سالہ بیٹی کو طلاق بھجوا دی۔

حاجی صاحب دولت کا غم تو شاید بھول جاتے لیکن بیٹی کا صدمہ انہیں ایسا لگا کہ جانبر نہ ہو سکے۔ بیٹی کی شادی انہوں نے بہت کم عمر میں کی ہی اس لئے تھی کہ اپنے گھر کی ہو جائے تو ان کی زندگی کا ایک باب مکمل ہو جائے۔ورنہ تو ابھی وہ بچی ہی تھی۔اس کے کھیلنے کھانے کے دن تھے۔ بیٹا ملک کے ایک مشہورو معروف سکول میں پڑھتا تھا۔اس کا میٹرک کا امتحان ابھی ہوا ہی تھا کہ وہ امتحانوں کے لئے اس دنیا میں تنہا رہ گیا۔ حاجی صاحب کی بیوہ بہادر خاتون تھی۔اس کے ہاں کبھی خود عورتیں کام کیا کرتی تھیں۔اس نے بیٹی اور بیٹے کو گھر بٹھایا اور خود لوگوں کے گھر کام کرنے لگی۔بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ماں گھر سے نکلی تو اس کے پیچھے پیچھے بیٹا بھی نکل پڑا۔اسے کوئی کام تو آتا نہیں تھابس سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ پھرا کرتا اور شام کو ماں کے گھر آنے سے پہلے گھر آ جایا کرتا۔

بیٹی سارا دن گھر میں اکیلی رہتی۔پھر اس نے بھی ساتھی تلاش کر لیا۔مطلقہ عورتیں تو ویسے بھی ہمارے معاشرے میں اوباشوں کا خصوصی نشانہ ہوتی ہیں اور وہ تو کمسن بھی تھی۔ایک دن ماں وقت سے پہلے گھر آئی تو بیٹا گھر پہ نہیں تھا ۔بیٹی کو اس نے جس حال میں دیکھا وہ اسے بے حال کرنے کو بہت تھا۔دل کی مریضہ وہ پہلے ہی سے تھی۔پے درپے صدمات نے اسے پہلے ہی اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔یہ آخری جھٹکا ثابت ہوا۔اماں بھی اپنے آخری سفر پہ روانہ ہو گئی۔بیٹے کو سمجھ ہی نہ آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔بیٹی کو چونکہ ماں کی رحلت کا سبب معلوم تھا اس لئے ماں کی تدفین کے بعد وہی کیا جو ان حالات میں لڑکیاں کیا کرتی ہیں۔

آج کل اس کا بھائی دوبارہ ایک اچھے سکول میں پڑھنے لگا ہے۔وہ ایک کمرے کے گھر سے ایک نسبتاََ اچھی آبادی میں شفٹ ہو گئے ہیں۔زندگی کی گاڑی چل پڑی ہے۔اس گاڑی کو چلنے کے لئے پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ نہیں پوچھتی کہ یہ پیٹرول جائز طریقے سے خریدا گیا ہے۔ایران سے سمگل کیا گیا ہے یا کسی سرکاری محکمے کا کوئی چور اہلکار اسے بیچ گیا ہے۔اسے پیٹرول چاہئیے ہوتا ہے اور پیٹرول کا بندوبست حاجی صاحب کی بیٹی نے بھی کر لیا تھا۔حاجی صاحب جو کبھی کسی کم نسلے کا ناپ لینا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے آج وہی سارے کم نسلے ان کی بیٹی کا سہارا ہیں اور وہ بھی ان کم نسلوں کے سارے غم لمحوں میں ہوا کر دینے کی اتنی ماہر ہے کہ علاقے کی دوسری یہی سودا بیچنے والی ساری دکانیں ٹھپ ہو کے رہ گئی ہیں۔

انسانی حقوق کے نام نہاد این جی او مارکہ لوگ کہیں گے کہ میں بڑا ظالم ہوں کہ اتنی سفاکی سے یہ سب بیان کرتا چلا جا رہا ہوں لیکن یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے گھرمیں چولہا جلتا ہے۔جن کا رزق ابھی بند نہیں ہوا۔جو ابھی معروف اور مروجہ طریقوں سے اپنے تئیں رزق حلال کما رہے ہیں ۔جو بھوکے ہیں میری سفاکی کی وہ داد دیں گے کہ چلو کوئی تو ہے جو ہمارا قصہ لکھ رہا ہے۔وہ قصہ جسے ہم بیان نہیں کر پاتے کسی کو سنا نہیں پاتے اسے کو ئی تو اس ظالم زمانے کے سامنے بیان کر رہا ہے۔بھوک سب سے پہلے نام نہاد عزت اور غیرت پہ حملہ آور ہوتی ہے۔بھوک تہذیب کے سارے آداب بھلا دیتی ہے اور یاد رہتی ہے تو پیٹ کے تنور میں لگی آگ جسے بجھانے کے لئے جائز ناجائز حرام حلال سب چلتا ہے۔

یہ قصہ یوں لکھا کہ آج صبح فیس بک پہ ایک دوست نے کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے۔سی این جی اور بجلی کے بغیر گذارہ کر لیں گے۔بھوک برداشت کر لیں گے لیکن کسی کی غلامی برداشت نہیں کرینگے۔فقرہ اچھا ہے لیکن اگر پیٹ بھرا ہوا ہو تو۔بھوکے کو تو بھیا روٹی چاہئیے ہوتی ہے بھلے وہ حکومت دے طالبان دیں یا امریکہ ، اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بھوک آزادی اور غلامی کے فلسفے کو بالکل نہیں سمجھتی وہ نوالہ مانگتی ہے اور جب وہ کہیں سے نہ ملے تو پھر حاجی صاحب کے کم نسلے گاہک کام آتے ہیں۔ملک میں تبدیلی کے علمبردارو! ملک بدلنا ہے تو سب سے پہلے مخلوق کا پیٹ بھرو۔ان کی زندگی آسان کرو۔ان پہ اتنا بوجھ نہ لادو کہ ان کی انسانیت عنقا ہو جائے ۔آزادی کے نعرہ زنو! ذرا سوچوکہ آپ چکن بریانی اور مرغ مسلم کھانے والے اگر گھاس کھانے لگو گے تو غریب جو پہلے ہی گھاس کھا رہا ہے وہ کیا کھائے گا؟کچی اینٹوں پہ محل بنانے کے خواب دیکھنے والو! پہلے اپنی بنیاد تو مضبوط کرلو پھر آزادی کے خواب دیکھنا۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268788 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More