شہر قائد میں دیواروں کا کمرشل
استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر دوسری دیوار پر کچھ نہ کچھ لکھا ضرور مل
جاتا ہے۔ دیواروں کی کبھی زبان نہ تھی مگر حضرت انسان نے ان کو زبان دی
ڈالی۔ جگہ جگہ لکھی مختلف اقسام کی تحریریں، پینٹر کے قلم سے تحریر ہوتی
ہیں مگر دیوار کے روشن چہرے پر ایسی سیاہی چھوڑ جاتی ہے جیسے برسوں تک
دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ دیوار پر لکھی اس تحریر کی اہمیت اس پر نمایاں کئے
گئے چند لفظوں اور پینٹنگ پر منحصر ہوتی ہے۔ مگر آج کے اس بے ہنگم اور مادہ
پرست دور میں تحریرکو اہمیت کا رخ دینے اور سمجھنے کی بجائے ہر شخص یا تو
اسے اشتہاری مہم کے لئے استعمال کرتا ہے یا پھر کچھ اندر کے اچھے برے جذبات
کے اظہار خیال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کی
تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، یا پھر آنے والے دنوں کی تقدیر کو دیوار پر لکھ
دیا جاتا ہے۔
یوں تو دیوار کو بہت سے بے معنی یا با معنی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا
ہے۔ تاہم ان کا سب سے زیادہ استعمال کمرشل ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ کمرشل
استعمال ایک منجن اور چورن بیچنے والے سے لیکر بیوٹی پارلر تک سب ہی کرتے
ہیں، مگر عامل بابوں کی ایک فوج ظفر موج کی سب سے بہترین تشہیری مہم کے لئے
دیوار کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ ٹی وی یا اخبار میں جگہ ملے یا نہ ملے دیواریں
تو کہیں بھی نہیں گئیں۔ راتوں رات بھاری رقم کے عوض یہ الٹے سیدھے بابے
لوگوں کی تقدیر کے فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے سبز باغ دیکھاتے
لکھوادیتے ہیں کہ جن کو سوچ کر ہی ناقص العقیدہ شخص جنت کے نظارے کرنا شروع
کردیتا ہے۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں آجائے گا جب وہ بابے کے پاس آجائے
گا․․․․․․․․․․․․․۔جعلی عاملوں کی لکھی گئی ان تحریروں کے بھونڈے سبز باغوں
کا میڈیا نے جس طرح ٹرائل شروع کیا ہے امید ہے کہ یہ باب بہت جلد بند
ہوجائے گا۔ مگر شہریوں کو بھی اس کے بارے میں شعور رکھنا چاہیے۔
جب کوئی اجنبی یا سیاہ شہر میں داخل ہوتا ہے تو اسے چاروں اطراف میں یہ
دیواریں چیختی چلاتی نظر آتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بارہا کوششوں کے نتیجے
میں یہ سلسلہ وقتی طور پر تھم جاتا ہے لیکن کوئی خاص موقع یا تقریب ، جلسے
کے انعقاد پر یہ دیواریں ایک مرتبہ پھر مختلف رنگوں سے رنگ جاتی ہیں۔ شہری
حکومتوں کی مسلسل کوششوں سے بڑے شہروں میں دیواروں پر لکھنے کی وباء کسی حد
تک تھم چکی ہے۔ لیکن چھوٹے چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں دویواروں پر
لکھنے کی بیماری بدستور عام ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں کے در و دیواروں پر جو تحریریں اور اشتہارات لکھے
ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں مختلف موضاعات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1 )کاسمیٹکس کی مصنوعات (2 )سیاسی نعرے (3 )میڈیکل ادویات (4 )نجومیوں
اوعاملوں کے الٹے سیدھے دعوے (5 )فلمی اشتہارات (6 ) سیاسی و مذہبی جماعتوں
کے اعلانات و اشتہارات(7 )غیر اخلاقی نعرے۔
بھدی دیواریں اور خوبصورت دعوے
ایک اندازے کے مطابق دیواریں چاہیے کراچی کی ہوں یا پھر حیدرآباد اور لاہور
وغیرہ کی ان پر جو اشتہارات دیکھنے میں آتے ہیں، ان میں 55 فیصد اشتہارات
کاسمیٹکس کی مصنوعات اور چیک اپ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دیواروں پر لکھے گئے چند اشتہارات کے نمونے کچھ یوں ہیں۔ ٭شادی کی رات
قیامت آجاتی اگر دلہن رنگ گورا کرنے کی کریم استعمال نہ کرتی۔ ٭ایک ماہ میں
بال چھ فٹ لمبے۔ ٭ ایک بار آزما کر دیکھیں، لوگ آپ کو دیکھتے رہ جائیں گے۔
٭اپنی شخصیات کو نکھارنیں کے لئے ابھی رابطہ کریں۔
کراچی میں کاسمیٹکس کے ایک تاجر کا کہنا تھا کہ انہوں نے دس سال قبل جب بال
لمبے اور گھنے کرنے والا تیل تیار کیا، تو اس کے پس اتنے پیسے نہیں تھے جن
سے وہ اشتہاری مہم چلا سکے۔ تاہم ایک مشورے پر پینٹر کی خدمات حاصل کیں اور
شہر کے دیواروں کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج اس
کا شمار مشہور ترین ہیر ٹانک کے تاجروں میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج
وہ جو کچھ ہے، ان دیواروں کی بدولت ہے۔ کراچی کے معروف بیوٹی پارلر کی
مالکن مس حنا ء نے بتایا کہ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی خوبصورت بننے
کا جنون پایا جاتاہے۔ کروڑوں روپے کھانے پر خرچ ہوتے ہیں تو اتنی ہی رقم
بیوٹی پارلر کے اخراجات میں پوری ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا اکثر دیکھا گیا
ہے کہ بیوٹی پارلر متوسط طبقے کی خواتین کھولتی ہیں، جن کے پاس اپنے بیوٹی
پارلر کی پبلسٹی کے لئے ٹی وی اور اخبارات کا بھاری معاوضہ کرنے کی رقم
نہیں ہوتی ہے۔ تاہم ان کے لئے یہ دیواریں ایک عظیم نعمت ہوتی ہیں۔
یوں سمجھا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اکثر بڑے تاجروں اور تجارتی اڈوں کی
کامیابی کے پیچھے ان دیواروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کچھ سرمایہ دار تو ان
دیواروں کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے احسان مند بھی نظر آئے۔
ہم ہیں آپ کے خدمات گار
ان دیواروں پر ایک موسم ایسا بھی آتا ہے، جب یہ دیواریں پکار پکار کر کہتی
ہیں، کہ اس خادم کی طرف توجہ دیں۔ یہ موسم قومی و بلدیاتی الیکشن کا ہوتا
ہے۔ جب شہر بھر کی دیواریں امید واروں کے پوسٹروں اور انتخابی نعروں اور
دعوؤں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ منظر کراچی سمیت پاکستان کے دیگر بڑے
شہروں کی دیواریں آج کل پیش کررہی ہے۔ ان دیواروں پر کہیں لکھا ہوتا ہے،
’’مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی ، کپڑا اور مکان، دیکھو دیکھو کون آیا، ایک
․․․․․․․․․ سب پہ بھاری، ․․․․․․․․ پہ مہر لگا کر با اختیار ہونے کا ثبوت
دیں․․․․․․․․․․․ وغیرہ ، جبکہ ان کے مد مقابل میں کچھ افراد بائیکاٹ کرتے
ہوئے دیوار کے چہرے پر چند جملے تحریر کرجاتے ہیں۔ حقیقت میں اگر دیکھا
جائے تو انسان انسان کے ساتھ لڑ رہا ہوتا ہے، مگر سادہ سے تجزیہ کیا جائے
تو یوں لگتا ہے کہ دیواریں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوگئی ہیں۔
ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ اکثر پینٹروں نے الیکشن کے دنوں میں دن
رات ایک کر کے دیواریں کالی کیں، جن سے ان کی شادی کے مقدر کا ستارہ نمودار
ہوا۔ شادی والا کام اگرچہ فطری لحاظ سے بہت عمدہ اور کیے جانے سے تعلق
رکھتا ، مگر یہاں تذکرہ پہلے کام سے ہورہا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد نے ان
دنوں میں روزی روٹی کے چکر میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے دیواروں کو رنگ برنگا
کرنے میں جت جاتے ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دیواریں سرمایہ داروں اور
جھوٹے بڑے تاجروں کے ساتھ ساتھ ان غریب مزدور طبقہ افراد کے لئے بھی مفید
ثابت ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ اشتہاری مہم چند روز پر محیط ہوتی ہے تاہم مختلف
فراڈیے قسم کے معالج اور بابوں کی بدولت کچھ دیگر ناقابل تذکرہ اشتہارات کا
سلسلہ سالانہ ، بلکہ دائمی طور پر جاری رہتا ہے۔
ایک غیر مستند حکیم جو کہ خود کو مشہور زمانہ حکیم، بلکہ حکیم ابن حکیم
کہلواتا تھا نے بتایا کہ 15 سال قبل اس نے ایک نسخہ خاص (ناقابل تذکرہ) پر
مبنی دوا تیار کی۔ جسے تشہیر کے لئے تمام اسٹیشن کو استعمال کیا گیا تاہم
کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ مگر جب انہوں نے دیوار کی خدمات حاصل کیں
تو بہت جلد اس کے حکمت خانے پر رش لگ گیا۔ بعد ازاں نام زکر نہ کرنے کی شرط
پر اس کا کہنا تھا کہ دوائی میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ نوجوانوں کو یہ کہہ کر
انہیں دوا لینے پر امادہ کیا جاتا کہ وہ اب زندہ نہیں رہیں گے، یا پھر وہ
کسی بڑی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں․․․․․․ الغرض انہیں ذہنی مریض
بنا کر ان کو ادویات فروخت کی جاتی ہیں۔ حالانکہ اکثر نوجوان ٹھیک ٹھاک
ہوتے ہیں۔
ذرا سوچئے! دیواروں پر لکھنا اور ان کو اس قدر بھدا بنانے ہمارے شہر کی
خوبصورتی ماند پڑرہی ہے۔ ہم اخلاقیات کی تہہ گھیرائیوں میں گرتے جارہے ہیں۔
ایک دوسرے کے خلاف غلیظ نعرے درج کر کے بیرونی مہمانوں کو اپنا خراب چہرہ
دیکھا رہے ہیں۔ اور پھر دیواروں کا یہ غلط استعمال ہماری نوجوان نسل،
خواتین اور بچوں کے لئے بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ الٹے سیدھے حکیموں کے کھلے
عام اشتہاری بازی سے ہمارے معصوم بچے وقت سے پہلے جوانی کی دہلیز پار کرنے
لگے ہیں۔ نوجوانوں میں حد درجے کی مایوسیاں پھیلنے لگی ہیں۔ جب کہ خواتین
کی بے جا فرمائشیں جو انہوں نے دیواروں پر لگے نت نئے اشتہارات سے دیکھ کر
کیں ان سے گھریلو فسادات پھوٹ رہے ہیں۔
اگر ہم اچھا معاشرے چاہتے ہیں جو فضائی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی اور تربیت
کے لحاظ سے بہتر ہو تو ہمیں اپنے ماحول کو درست رکھنا ہوگا۔ در و دیوار کی
موجودہ صورتحال پر کنٹرول بھی اس اچھے اور صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے
میں اہم کردار ادا کرے گا۔ شہری حکومت سے لے کر صوبائی اور وفاقی حکومت تک
سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ ان دیواروں پر لکھے
ہوئے آج کے یہ نعرے، جملے اور الٹے سیدھے اشتہارات کل کی تاریخ ہونگیں اور
آج ان کو دیکھ کر ہمارے بچوں کا حال برا ہوگا تو کل ہماری اولادوں کا
مستقبل بھی کچھ اچھا ثابت نہیں ہوگا۔
تھوڑی سی توجہ دی جائے تو ان دیواروں پر اچھے جملے جو ہماری تربیت اور
تعلیم کا حصہ بنیں تحریر کیے جاسکتے ہیں۔ ان پر اپنی تاریخ رقم کی جاسکتی
ہے۔ ان پر نقش ونگار کر کے اپنی بھولتی اور ڈولتی ثقافت محفوظ بنایا جاسکتا
ہے۔ دیواریں اب بھی بولتی ہیں دیوار تب بھی بول رہی ہوں گی مگر تب ان سے
اچھا پیغام ہمیں مل رہا گا۔ |