یہ گھروں کے محاذ

گولی چلی اور وہ عورت خون میں نہاکر جان سے گزر گئی۔ یہ قتل کی واردات تھی۔ ایسی وارداتیں ہمارے ملک میں روز ہی درجنوں کی تعداد میں ہوتی ہیں، مگر اس واقعے میں سانحے سے بڑا سانحے یہ ہے کہ گولی چلانے والے کی عمر ہے صرف 10سال، اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ گزرا کہ قاتل نے مقتولہ کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔

انگریزی اخبار ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق یہ واقعہ لاہور میں پیش آیا۔ یہ خبر بتاتی ہے کہ قانون سے متعلق ایک اہم عہدے پر فائز شخص کے اپنی بیوی سے اختلافات تھے۔ میاں بیوی باہمی چپقلش کے باعث ہونے والے جھگڑوں کے دوران ایک دوسر ے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے تھے۔ ماں کمسن بیٹے پر الزام لگاتی تھی کہ اس ’’جنگ‘‘ میں وہ اپنے باپ کا حمایتی ہے۔ وقوعے کے روز ماں نے بیٹے کو کسی بات پر ڈانٹا۔ بیٹے نے گھر میں رکھی 12 بور کی گن نکالی اور ماں پر گولیاں برسا دیں۔

میں نے یہ خبر پڑھی تو دل لرز کے رہ گیا، ذہن یاسیت میں ڈوب گیا۔ میں سوچنے لگی خون کے رشتے خونی کیوں ہوجاتے ہیں؟ اور پھر ماں جیسا رشتہ۔ یہ خبر پڑھنے والے لوگ بیٹے کو ظالم قرار دیں گے اور ماں کے لیے دکھی ہوں گے، مگر کیا یہی سچ ہے؟

ایک ہی خاندان کے افراد کے ایک دوسرے کے ہاتھوں نقصان اٹھانے اور قتل ہوجانے کے واقعات نئے نہیں، ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کہیں باپ اولاد کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے تو کہیں اولاد باپ کو خون میں نہلادیتی ہے۔ کوئی بھائی اپنے ماں جائے کے ہاتھوں ابدی نیند سوجاتا ہے تو کبھی کوئی بہن اپنی بہن کے خون سے ہاتھ رنگ لیتی ہے۔ یہاں تک کہ مائوں کے اولاد کو مار ڈالنے کے واقعات بھی دل پر خنجر چلاتے رہے ہیں۔ جس روز یہ خبر میری نظر سے گزری، اس کے اگلے ہی دن کے اخبارات میں راولپنڈی میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر، ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کے قتل میں اسی خاندان کے ایک فرد کے ملوث ہونے کی خبر تھی۔ قاتل مقتولین کا بیٹا اور بھائی تھا، جس نے پسند کی شادی نہ ہونے اور جائیداد کے تنازعے پر اپنے ہی گھر خون کی ہولی کھیلی۔

اس نوعیت کے سارے ہی واقعات دل دکھانے والے ہوتے ہیں، مگر لاہور میں جنم لینے والا یہ المیہ ان سے کہیں مختلف اور زیادہ الم ناک ہے کہ اس میں ماں کے قتل کا ارتکاب جس بیٹے سے سرزد ہوا ہے اس کی عمر صرف دس سال ہے۔ کھلونوں سے کھیلنے کی اس عمر میں اس نے بندوق کو کھلونا بنالیا۔ ظاہر ہے یہ بچہ نہ زمین و جائیداد کے معاملے پر اپنی ماں سے برہم تھا نہ ہی پسند کی شادی جیسا کوئی ایشو اس قتل کی بنیاد بنا۔ خبر کے مطابق یہ میاں بیوی کی باہمی تلخی تھی، جو اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سخت ترین زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ماں اپنے صرف دس سال کے بیٹے کو ’’باپ کی حمایت‘‘ کا طعنہ دیتی تھی۔ ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ جو طعنے بھی سنتا ہو، اسے تلخی، زہر اور نفرت سے بھرا ہونا ہی تھا۔

یہ ایک گھر کی کہانی نہیں۔ ہمارے یہاں کتنے ہی خاندان باہمی نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا یا ان کے بیچ کسی بھی نوعیت کے اختلافات باہمی رشتے کو کم زور کردیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے دلوں میں موجود ناپسندیدگی رویوں میں در آتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے گانگی حیات کے شراکت داروں کو کبھی کبھی ایک دوسرے سے اس قدر دور لے جاتی ہے کہ وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے الگ الگ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ شادی کے بندھن میں بندھنے والے مرد اور عورت کے درمیان صرف میاں بیوی کا رشتہ نہیں ہوتا، گزرتا وقت انھیں بچوں کے ماں باپ کی صورت ایک نئے تعلق اور ناتے میں بھی باندھ دیتا ہے۔ اس ناتے میں بندھے افراد اپنے پہلے اور اصل رشتے کی بنیادیں ہل جانے کے باوجود میاں بیوی کی حیثیت سے پوری پوری زندگی گزار دیتے ہیں، دریا کے دو کناروں کی طرح۔ ایسے جوڑوں میں سے کم ہی ایسے بالغ نظر اور باشعور ہوتے ہیں جو اپنے اختلافات کے شعلوں سے اپنی اولاد کے جذبات اور احساسات کی دنیا کو بچائے رکھیں۔ ورنہ ہوتا یوں ہے کہ ماں باپ کی آپس کی رنجش اولاد کی زندگی جہنم بنادیتی ہے۔

آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ آپ کو اچھے برے ہر قسم کے لوگ نظر آئیں گے۔ اگر فرداً فرداً صحت مند رویے رکھنے والے اور دوسروں کے لیے آزار بننے والے رجحانات کے حامل لوگوں کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو مستثنیات کو چھوڑ کر یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ مثبت رویوں کے مالک افراد کی تربیت ایسے ماں باپ نے کی جن کے مابین محبت اور اعتماد کا رشتہ تھا اور منفی رویے رکھنے والے افراد کے والدین ایک دوسرے سے عداوت کی آگ میں جلتے رہے تھے۔

دنیا کا شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں میاں بیوی میں کبھی اختلافات نہ ہوئے ہوں۔ ایسے گھرانوں کی بھی کمی نہیں جہاں شوہر اور بیوی کے درمیان اتنے فاصلے ہوجاتے ہیں کہ وہ کبھی قریب نہیں آپاتے۔ ذہنوں اور دلوں کا فاصلہ اپنی جگہ، لیکن کیا ضروری ہے کہ اختلاف اور عدم مطابقت کو نفرت میں ڈھال لیا جائے، ایسی نفرت کہ زبان ایک دوسرے پر شعلے برسائے۔ اس روش پر گامزن جوڑوں کے آپس کے جھگڑے چیخ و پکار تک ہی محدود نہیں رہتے، بلکہ اپنے اپنے حق میں حمایت کے حصول کے لیے بچوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا بھی جاتا ہے اور باپ کی طرف داری یا ماں کی حمایت کے طعنے بھی دیے جاتے ہیں۔ ایسے آتشیں ماحول میں پرورش پانے والے بچے کی شخصیت سیاہیوں میں ڈوب اور آگ میں جل کر اپنا مسخ شدہ چہرہ بناتی ہے۔ عدم برداشت کی جو فضا ہم اپنے سماج اور سیاست میں دیکھتے ہیں، اس کی بنیاد گھروں ہی میں تو پڑی ہے۔

دس سالہ بچے کے ہاتھوں ماں کے قتل کا سانحہ بھی ایک ایسے ہی گھرانے میں پیش آیا جہاں بچے کے لیے اس کے والدین ایک دوسرے کے دشمن کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ واقعہ کشیدگی کی فضا سے آلودہ اور بے گانگی کی گھٹن کے شکار ہر گھر کے دروازے پر دستک دے کر کہہ رہا ہے کہ ماں باپ اپنے اختلافات میں بچوں کو نہ گھسیٹیں، بلکہ دو کناروں پر کھڑے میاں بیوی جب ماں باپ کی حیثیت سے اولاد کے سامنے آئیں تو اسے ان کی قربت تحفظ کا احساس دے، نہ کہ وہ اس اندیشے میں مبتلا رہیں کہ وہ ایک ایسے گھر کے مکیں ہیں جو ٹوٹنے کو ہے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311993 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.