میں بے خبر سورہاتھا کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجنے
لگی۔ میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو پتا چلا کہ رات کے تین بج
رہے ہیں۔ میں الجھن میں پڑگیا کہ اتنی رات گئے کس کی کال ہوسکتی ہے۔ شاید
غلط نمبر مل گیا ہے خیر دیکھتے ہیں۔ ’’ہیلو! کون صاحب؟‘‘ ’’خوب غور سے
سنو‘‘۔ایک سرد سی آواز سنائی دی’’ کل صبح دس بجے لیاقت آباد فلائی اوور
کے نیچے۔ سفید پینٹ، گلابی شرٹ اور سبز ٹوپی، سمجھ گئے؟ کل صبح دس بجے ۔اوکے؟‘‘
’’آپ کون ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں؟ میں کچھ نہیں سمجھا۔‘‘ میں نے نیم
غنودگی کے عالم میں کہا: ’’شاید آپ نے غلط نمبر ملالیا ہے‘‘۔ ’’ نمبر
بالکل صحیح ہے اور میں وہی ہوں جس کا تم انٹرویو لینا چاہتے ہو۔ سمجھ گئے،
وقت کی پابندی ضروری ہے، ورنہ ...‘‘ ’’ارے باپ...تت...تت...تو آپ ٹٹ... ٹٹ...
ٹارگٹ ...‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔ ’’بس خاموش‘‘ دوسری طرف سے ایک غرّاتی
ہوئی آواز آئی’’کل صبح دس بجے لیاقت آباد فلائی اوور کے نیچے۔‘‘اور اس
کے ساتھ ہی موبائل فون بند ہوگیا۔ میرا دل بُری طرح دھڑک رہاتھا۔ ایک
انجانے خوف نے مجھے اپنی لپیٹ میںلے لیاتھا۔ انٹرویو کرنا تو دُور کی بات
میں نے تو آج تک کسی ٹارگٹ کلر کو دیکھا بھی نہیں تھا اور کل ایک سفاک
ٹارگٹ کلر کے سامنے حاضر ہو کر مجھے اُس کا انٹرویو لینا تھا۔ خیر اللہ
مالک ہے جب اوکھلی میں سردیا تو موسلوں کا کیا ڈر،ہمت مرداں مدد ِ خدا...
میں ٹھیک دس بجے اس کے سامنے حاضر ہوگیا۔ وہ دبلا پتلا گندمی رنگ کا ایک
عام سا آدمی تھا اور کسی ڈھب سے بھی ٹارگٹ کلرنہیں لگتاتھا۔میں سمجھ رہا
تھا کہ وہ کوئی خوف ناک شکل کا آدمی ہوگا۔ ’’بیٹھو‘‘ اس نے سامنے پڑی ہوئی
کرسی کی طرف اشارہ کیا ’’اپنا موبائل اور ٹیپ ریکارڈر میرے حوالے کردو‘‘۔
’’میرے پاس کوئی ٹیپ ریکارڈر نہیں ہے،موبائل میں گھر پر چھوڑ کر آیا
ہوں‘‘۔میں نے منمنا کر کہا۔ ’’چلو ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے یہ بتائو کہ تم اس
انٹرویو کے چکّر میں کیوں پڑے؟‘‘ ’’بات یہ ہے کہ میں ایک فری لانس جرنلسٹ
ہوں اور اخبارات میں مضامین اور فیچر لکھ کر اپنی روزی روٹی کماتا ہوں۔ چند
دن ہوئے اچانک ذہن میں یہ خیال آیا کہ کسی ٹارگٹ کلر کا انٹرویو کرنا
چاہیے۔ہوسکتا ہے کوئی اخباراسے خریدلے اور اچھے پیسے مل جائیں۔ ایک اخبار
کے ایڈیٹر صاحب سے بات کی تو انہوں نے پتا نہیں کس طرح میرا موبائل نمبر
آپ تک پہنچادیا‘‘۔ ’’چلو ٹھیک ہے ۔پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو‘‘۔ ’’آپ
کانام؟‘‘ ’’چھوڑو نام میں کیا رکھا ہے ، کچھ بھی سمجھ لو۔ سعید، رشید، اختر،
جاوید، انور‘‘۔ ’’اچھا یہ بتائیے، اب تک کتنے آدمیوں کو ٹھکانے لگایا ہے؟‘‘
’’کبھی گنتی نہیں کی، ویسے اندازً دو درجن تو ہوں گے‘‘۔ ’’دو …درجن ! میرے
خدا ! تو آپ نے دو درجن آدمیوں کو بلا قصور مار ڈالا؟‘‘ ’’ قصور وار یا
بے قصور یہ میں نہیں جانتا،بس مجھے مناسب معاوضہ ملتا ہے اور میں اپنا کام
کرگزرتا ہوں‘‘۔ ’’آپ کے سر پر ٹوپی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نماز
بھی پڑھتے ہوں گے، کیا میں غلط کہہ رہاہوں۔‘‘ تمہارا اندازہ صحیح ہے۔ میں
پابندی سے پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتا ہوں کیوں کہ یہ میرا فرض ہے اور
ٹارگٹ کلنگ میرا پیشہ‘‘۔ ’’اچھا یہ بتائیے کہ آپ ٹارگٹ کلر کیوں بنے کسی
دفتر میں نوکری کرلیتے‘‘۔ ’’کوشش کی تھی تین سال تک جگہ جگہ دھکے کھاتارہا
لیکن نائب قاصد کی نوکری بھی نہ ملی حالاںکہ میں نے اچھے نمبروں سے بی اے
پاس کیا ہوا ہے جب میں اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کو فاقہ
کرتے دیکھ دیکھ کر تنگ آگیا تو ایک صاحب نے مجھے اِس راستے پر ڈال دیا اور
اب میں واپس بھی آنا چاہوں تو نہیں آسکتا‘‘۔ ’’ کیا کبھی سوچا کہ ایک نہ
ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے؟‘‘ ’’ہاں سوچتا تو ہوںلیکن جب میں اپنے
حکم رانوں کو لوٹ مار کرتے دیکھتا ہوں تو اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کو منہ
دکھاتے وقت تنہا تو نہ ہوں گا۔ آج کے حکم رانوں کی ایک پوری فوج میرے ساتھ
کھڑی ہوگی‘‘۔ ’’ کیا آپ کے گھر والے واقف ہیں کہ آپ ٹارگٹ کلر بن کر روزی
کمارہے ہیں‘‘میں نے پوچھا۔ ’’قطعی نہیں، اگر اُنہیں پتا چل جائے تو اپنے
ہاتھوں سے مجھے زہردے دیں گے۔ گھر والے سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی معقول
نوکری مل گئی ہے‘‘۔ ’’اچھا اب یہ بتائیے کہ آپ کیا معاوضہ لیتے ہیں؟‘‘ ’’
یہ میں نہیں بتائوں گا۔ اشارتاً یوں سمجھ لو کہ معاوضہ لاکھوں یا ہزاروں
میں بھی ہوسکتا ہے۔ معاوضے کادارومدار حالات اور شخصیت پر ہوتا ہے جیسا کام
ویسا دام‘‘۔ ’’پھر تو آپ لکھ پتی بن چکے ہوں گے‘‘۔ ’’ نہیں ایسی بات نہیں۔
میں جو کچھ بھی کماتا ہوں اُس کا تین حصّہ اوپر چلاجاتاہے‘‘۔ ’’اوپر؟ یعنی
آپ اسے رفاہی کاموں میں خرچ کرتے ہیں؟‘‘ ’’ نہیں’’اوپر‘‘ سے مُراد یہ نہیں
ہے بل کہ یہ رقم اُن کے حوالے کردیتاہوںجو میری حفاظت کرتے ہیں۔ مجھے پولیس
اور دیگر ایجنسیوں سے بچاتے ہیں۔ بُرے وقتوں میں میری مالی مدد کرتے ہیں
اورہر طرح کا اسلحہ فراہم کرتے ہیں‘‘۔ ’’ یہ کون لوگ ہیں؟ ہماری پولیس
اُنہیں پکڑتی کیوں نہیں؟‘‘ ’’بس چپکے رہو ۔ نئے نئے صحافت میں آئے ہو۔
آہستہ آہستہ سب راز کھل جائے گا‘‘۔ ’’اچھا اب بتائیے کہ اگر آپ کے ٹارگٹ
کلر بننے کا راز آپ کے ابّو اور امّی پر کُھل گیا تو اُن کی کیا حالت ہوگی۔
کیاوہ اتنا بڑا صدمہ برداشت کرپائیں گے؟‘‘ اس کا چہرہ تاریک ہوگیا اور
خاموشی سے خلا میں گھورنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرے اس سوال کا جواب
دینا نہیں چاہتا۔ ایک سفّاک ٹارگٹ کلر ہونے کے باوجود وہ اپنے والدین سے
خوف زدہ تھا اور نہیں چاہتاتھا کہ اس کے پیشے کا راز ان پر کھلے۔ یہ کیسا
عجیب تضا د تھا۔ ’’ کیا آپ نئی نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟‘‘ ’’
میں کیا اور میرا پیغام کیا۔‘‘ اس نے افسردہ لہجے میںکہنا شروع کیا:’’ ایک
راندۂ درگاہ آدمی ہوں لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ آدمی کو کبھی
بھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیںاور نااُمید نہیں ہوناچاہیے۔ حالات کتنے ہی
اذیت ناک کیوں نہ ہوں، اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس
کی مثال یُوں سمجھو کہ رات کتنی ہی تاریک اور خوف ناک کیوں نہ ہو صبح کا
ظہور ضرور ہوتاہے۔ اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کو فاقے کرتے دیکھ کر
میرے اعصاب چٹخنے لگے اور میں غلط راستے پر نکل گیا۔حالاں کہ اگر میں اپنی
جھوٹی اَنااور تعلیمی تکبّر کو قربان کردیتا تو روزگار کے درجنوں راستے نکل
سکتے تھے۔ میں رکشہ چلا سکتا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور بن سکتا تھا۔ کسی دوسرے
محلّے میں جا کر پھل یا سبزی بیچ سکتاتھا۔ کسی بڑے آدمی کے گھر کا چوکیدار
یا دربان بن سکتا تھا یا بس میں کنڈیکٹری کر سکتا تھا لیکن منفی خیالات
مجھے لے ڈوبے اور کچھ بن گیاجو مجھے نہیں بننا چاہیے تھا۔میں اکثر سوچتا
ہوں کہ اگر میں اپنا پروفیشن چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے لگوں تو کیا ہوگا؟
جواب آسان سا ہے، کسی دن میری لاش کہیں جھاڑیوں میں پڑی ہوگی۔ بس انٹرویو
ختم ہوا۔ اب تم اپنا راستہ ناپو۔ مجھے آج ایک اہم مشن پر جانا ہے...‘‘
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایاتھا کہ بے تحاشا فائرنگ شروع ہوگئی۔ دس نمبر کا
چوراہا منٹوں میں ویران ہوگیا۔اچانک ایک بھٹکی ہوئی گولی میرے کان کو چھوتی
ہوئی ٹارگٹ کلر کے حلق میں گھس گئی۔ میں چیخ مار کر آگے گرا اور وہ کراہتا
ہوا پیچھے کی طرف لڑھک گیااور پھر میری آنکھ کھل گئی۔ میں پلنگ سے نیچے
گرگیاتھا۔ |