تحریر ثمر شاہ ہاشمی
اگر انگریزی ادب کی لوک داستانوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ
یورپ میں پہلی صدی عیسوی سے اٹھارویںصدی عیسوی تک تین سو پچاس قحط پڑے یعنی
ہر پابچویں سال یورپ کو ایک قحط کا سامنا رہابرطانیہ ہر دس سالوں میں قحط
کا شکار رہا۔
انسویں صدی میں قحط نے شمالی چین میں پچانوے لاکھ لوگوں کی جان
لی1921میںروس اور 1942میں بمبئی میں قحط سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن
گئے،بیسویں صدی کا آخری قحط 1970میں بنگال میں پڑا جب چاول کی فصل ضرورت سے
بہت کم ہوئی جس سے کروڑوں لوگ بھوکھے مر گئے،ان سب قحطوں کی کوئی نہ کوئی
وجوحات ضرور رہی ہیں مثلا فصلیں بیماریوں کا شکار ہو گئیں پانی کی کمی یا
بارشوں کا ہونایا غیر معمولی موسمی تبدیلیاں۔
ہمارا ملک پاکستان جسکی اسی فیصد آبادی زراعت سے بلواستہ یا بلاواسطہ منسلک
ہے جسکی ساٹھ فیصد زمین زرعی ہے جہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اور چار
موافق موسم موجود ہیں یہاں نہ تو بارشوں کی کمی ہے نہ فصلوں کی بیماریاں
اتنے بڑے پیمانے پر ہیں کہ انکی ورک تھام نہ کی جاسکے ان سب وجوہات کی غیر
موجودگی میں ہمارے ملک میں ایک قحط جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے
پاکستان کی صد فی صد آبادی کی خوراک گندم یا گندم کا آٹا ہے اس سال گندم کی
فصل کی پیداوار ریکارڈ سطح پر رہی ہے پھر بھی گندم یا آٹا یہاں پیسوں سے
بھی دستیاب نہیں گویا گندم کو سلمانی ٹوپی پہنا کر غا ئب کر دیا گیا ہے ملک
میں اس نام نہاد قحط کی وجہ نا جائز زخیرہ اندوزی ہے گندم کے بیوپاری
کروڑوں ٹن گندم زخیرہ کر کے بھاو بڑھانے کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ غریب
آدمی گندم دیکھنے کو ترس رہا ہے -
زخیرہ اندوزی ایک گناہ عظیم ہے شب معراج کو جب حضرت محمدۖ آسمان پر تشریف
لے گئے تو انھوں نے جہنم میں کچھ لوگ ایسے دیکھے جو آگ کھا رہے تھے اور کچھ
کے پیٹ اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ فرش پر لگ رہے تھے اور الٹے پاوں اپنے پیٹ
گھسیٹ رہے تھے تو آپۖ نے ان کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کون لوگ ہیں اور اب
پر یہ عذاب کیوں کر آیا تو آواذ آئی کہ سود خور اور زخیرہ اندوز ہیں اور یہ
اسی طرح عذاب میں ہمیشہ رہیں گے،اتنا بڑا دنیاو آخرت کا گناہ ہونے کے
باوجودآج مسلمان زخیرہ اندوزی کو کاروبار کا نام دیتا ہے یہ نا عاقبت
اندیشی ہے ملکی قوانین کی سرا سر خلاف ورزی ہے قانون کی کتابوں میں زخیرہ
اندوزی کو جرم تو قرار دیا گیاہے لیکن اس قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا
جا سکا حکومتی قوانین اور اہلکار زخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں اور
بھاری رشوتوں کے عوض ان ذخیرہ اندوزوں کو من مانی کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا
گیا ہے-
حکومت نے آج تک ان زخیرہ اندوزں کے خلاف کوئی کریک ڈاون نہیں کیا اس لیئے
ملک میں گندم کی ذخیرہ اندوزی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے عوام گندم کے آٹے
کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے حال ہیں انکو آٹا لینے کے لیئے لبمی قطاروں
میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ حکومتی اہلکاورں کو احساس تک نہیں وہ
بس خاموش تماشائیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں بقول شا عر حرف تسلی تو اک
تکلف ہے ورنہ
جسکا اسی کا درد اسی کا درد باقی سب تماشائی ۔۔
آج ناجائز زخیرہ اندوزی کو روکنے اور گندم کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے
کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے زخیرہ اندوزی کے خلاف سخت قانون
سازی کی جائے-
لیکن اس قانون سازی کے سامنے سب سے بڑی روکاوٹ وہ جاگیردار اور وڈیرے یا
بڑے زمیندار ہیں جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں وہ اس طرح کا طرح کا کوئی بھی
قانوں نافذ ہونے میں بہت بڑی روکاوٹ ہیں الحمدوللہ ہمارے ملک میں قحط خواک
نہیں سب کچھ موجود ہے لیکن ؛قحط احساس ضرور ہے؛
کسی کو کسی کا احساس نہیں جس دن اس پاک سر زمین پر احساس کی ضصل لہرائی گئی
پھر اس دن اس سوہنی دھرتی سے ہر داغ ہر غم دھل جائے گا میرا سوہانا پاکستان
پھر سے جواں ہو گا وہی پاکستا ن ہو گا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا
وہی پاکستان ہو گا جسکی تعمیر قائدآعظم نے دن رات کی تھی وہ پاکستان جس کے
لیئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں تھیں لاکھوں اپنے گھرچھوڑے-
میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کی وہ اس سوہنی دھرتی کو وہ صبح احساس دے جسکی
مثال چودہ سو سال پہلے مدینے میں مہاجر اور انصار نے قائم کی یہاں وہ محبت
و احساس کی ضصل لہرائے کہ خودغرضی اور نفرت کے سیاہ بادل چھٹ جائیں ہمیں وہ
امن و ایثار کی برسات عطا کرے کہ دہشت گردی اور ظلم کی دھند دھل جائے ہمیں
سچا مسلمان اور محب پاکستانی بنائے۔۔۔۔ |