خوشیاں غموں کے بعد ملتی ہیں اور
غم خوشیوں کے بعد ……خوشی کسی مادی شے کا نام نہیں بلکہ احساس کا نام ہے ۔
یہ وہی ملک پاکستان ہے جسے لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا
مقصدغلامی سے نجات، آزادی و خود مختاری اور امن و سکون کے ساتھ زندگی
گزارنا۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ آج ہمارے اس ارضِ وطن کی مثال اس شہر
بے اماں جیسی ہے جہا ں آئے روز اغواہ برائے تاوان کی وارداتیں ،دہشت گردی
کی بھینٹ چرھتی لاشیں،معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے دل دہلادینے والے کرب
ناک سانحات پر لکھتے لکھتے قلم خشک ہو نے لگے ، انگلیاں درد کرنے لگیں ،
ہاتھ تھک کے چور ،یہ دل درد میں ڈوبتا ،روح تھکا وٹ کا شکار ،اور یہ مضطرب
دل پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر نکلنے کو بے تاب ،لیکن یہ سانحات رکنے پرنہیں آ
رہے ،ان کے اندوہناک مظاہرے دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرانے لگیں ،ان سے بہنے
والے آنسوں خشک ہو گئے اور ان سے جنم لینے والے المیوں سے ہمارا رواں رواں
خون کی آبشار میں تبدیل ۔یوں لگتا ہے کہ انسانیت ہم سے روٹھ چکی ،بس اب ہم
اس کا لاشہ قبر میں اتارنے کو ہیں ۔لیکن اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق
ہمیں ظلم و بربریت کے شکار ہونے والے افراد تو نظر آتے ہیں،لیکن آج تک ان
مظالم کے موجدوں کا چہرہ دیکھنے یا ان کو نشان ِ عبرت بنتے دیکھنے سے یہ
نگاہیں قاصر ہی رہی ہیں۔
محنت کر کے دو چار اچھی اچھی خبریں تلاش کی کہ قارئین کے دلوں کو سکوں
فراہم کرنے کا سامان ہو ،لیکن ایک ایسی دلخراش خبر سامنے آئی کہ ساری محنت
پر پانی پھر گیا، المناک خبر یہ کہ جامعہ ملیہ کالج ملیر کے پرنسپل پروفیسر
دلاور خان کے سات سالہ کمسن اکلوتے صاحبزادے احمد رضا کا اغواہ ،منہ مانگا
تاوان نہ ملنے پر دوسرے ہی روزمعصوم کو ارمانوں اور جنم لیتی خواہشات کے
ساتھ قتل کر کے لاش بوری میں بند کر کے گندے نالے میں ڈال دی گئی ،لاش نالے
کا پانی بھرنے سے پھول گئی جس کے باعث پہچان مشکل تھی ، ڈی این اے ٹیسٹ کے
ذریعے شناخت ممکن ہوئی۔ کمسن احمد رضاتو ابدی نیند سو گیا ،لیکن اس کمسن کے
ذہن میں کچھ سوال ضرور ہوں گے ، کہ مجھ معصوم کا کیا قصور تھا ……میری کسی
سے کیا دشمنی تھی ……میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا ……مجھے کیوں مارا گیا ……میرے
والدین کیلئے زندگی بھر کے صدمے آخر کیوں ؟
خدا کیلئے آئندہ اس جیسے ہزاروں ،لاکھوں بچوں کو اس ظلم و بربریت کی چکی
میں پیسنے سے بچا لیجئے، سفاک قاتلوں نے بوڑھے والدین سے زندگی کا واحد
سہارا ہی نہیں چھینا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی پر بھی
سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔کیا کبھی اس جیسے کتنے ہی معصوموں کو قتل کرنے
والوں کو سزا مل سکے گی؟ ……اولاد کی موت کا صدمہ لئے والدین کو انصاف مل
سکے گا؟ …… کیا سفاک قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جاسکے گا؟……کیا آئندہ اغواہ
برائے تاوان کی وارداتوں کا سدِ باب کیا جاسکے گا ؟……کیا جرائم کو کنٹرول
کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اطمنان بخش ہے؟…… ملک
میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے بہتر طور پر لگایا جا
سکتا ہے کہ اس مملکت کے سابق وزیر اعظم اور گورنر کے صاحبزادوں کو دن دہاڑے
اغواہ کر لیا جاتا ہے جب اغواہ کاروں کی دسترس سے وی آئی پیز شخصیات بھی
محفوظ نہیں پھر عوام تو اپنے آپ کو اﷲ اور اس کے بعد اغواہ کاروں کے رحم و
کرم پر ہی چھوڑدیں۔ سمجھ سے با لا تر ہے کہ بے قصور لوگو ں کو اغواہ کر کے
اور ان میں سے بیشتر کی جا نیں لے کر دہشت گرد اپنے کس قسم کے عزائم کی
تکمیل چا ہتے ہیں ،ا غواہ برائے تاوان کی وارداتوں کے سدباب کیلئے
غیرمعمولی اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے، محدود پیمانے پراغواہ کاروں کے
خلاف کاروائیاں تو ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود غوابرائے تاوان کا عفریت قابو
آنے سے اب تک قاصر ہے ۔مجرموں کو سزائیں نہ ہونا یا اپنے اثر رسوخ اور پیسے
کی بِنا پرچھوٹ جانا اور سزائے موت کے قیدیوں کی سزاپر عمل درآمد نہ ہونا
بھی جرائم میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے ۔چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ خود کہتے
ہیں کہ جرائم میں اضافے کی ایک وجہ سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔اغواہ
برائے تاوان کی بڑھتی وارداتیں انڈسٹری کی صورت اختیا ر کر چکی ہیں ذرائع
کا کہنا ہے کہ اغواہ کا ر آپس میں مغویوں کی خرید وفروخت بھی کر تے
ہیں،کتنی اغواہ کی وارداتیں تو پولیس تھانے میں رپورٹ ہی نہیں ہوتی مغوی کو
اغواہ کاروں کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کرایا جاتا ہے ششدر تو یہ
حکومتی رٹ کا یہ حال ہے کہ سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض
ملازمین و افسران کو مذاکرات اور تاوان کی رقم دے کر اغواہ کاروں سے رہائی
ملی، ایسی صورتحال میں قانون نافذ کر نے والے اداروں پر عوام کا اعتماد کس
طرح ممکن ہے ۔اس تنا ظر میں درپیش حالات کیا ہو ں گے ؟ کیا ہم خاموش
تماشائی بنے ان غلطیوں کو دیکھتے رہیں ،جن کی قیمت پورا ملک اور عوام چکا
رہی ہے یا پھر ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں ،جس پر بحیثیت قوم اجتماعی طور پر
عمل درآمد کر کے در پیش مسائل کا تدارک کیا جا سکے ۔ |