فرد کا سماج سے وہی رشتہ ہوتا ہے
جو موج کا دریا سے اور کڑی کا زنجیر سے ۔ سماجی زندگی فرد کی شرست میں داخل
ہے ، جبکہ فرد سماج کالازمی عنصر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ فرد کی انفرادی حیثیت
بھی اسی وقت نمایاں ہوتی ہے جب وہ ایک مربوط اور منظم سماج میں زندگی
گذارتا ہے۔ سماج کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرون دریا کچھ نہیں
عام خیال یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول اور گردو پیش کا اثر قبول کرتا ہے؛
لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فردکے ہرہر عمل کا معاشرہ پر کسی
نہ کسی حد تک مثبت یا منفی اثر ضرور پڑتا ہے۔ چنانچہ اچھے سماج کی تشکیل
اور اس کے بقاء میں ہر فرد کے ذاتی عمل کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ لہذا ہر
فرد پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے کسی بھی عمل کی انجام دہی سے پیشتر
اس سے پیدا ہونے والے منفعت اور مضرت کے دونوں پہلوؤں کا بنظر غائر جائزہ
لے لے۔ کسی بھی فردکو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ معاشرہ اور معاشرہ سے
اپنی وابستگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی ایسا کام کر گذرے جس کے اثرات
کسی نہ کسی درجہ میں سماج پر مرتب ہوتے ہوں۔ اس لئے کہ سماج سے الگ ہوکر
فرد کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی اور اس حقیقت سے چشم پوشی کرنا اپنی
فطرت اور اس کے تقاضوں سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان بشری تقاضوں کے خم و پیچ میں ہر آن الجھا رہتا ہے۔
اسے ہر لمحہ کسی نہ کسی ضرورت کا مسئلہ در پیش اور اس کی تکمیل کی فکر دامن
گیر ہوتی ہے۔ اورقدرت نے انسان کی جملہ ضروریات اور مسائل کے حل کے لئے ہمہ
اقسام کے بے شماراسباب و وسائل فراہم کئے ہیں۔مگر یہ تمام خزانے ہمارے پاس
امانت ہیں، ہم بقدر ضرورت ان کے استعمال کا اختیارتو رکھتے ہیں لیکن اس میں
من چاہے اسراف اور غیر ضروری کفایت شعاری کااختیار نہیں رکھتے۔ خوشگوار
انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان ضرورت کے وقت میں ان وسائل کا
استعمال کرے۔ اگر کوئی انسان ضرورت کے وقت میں بھی ان وسائل کا استعمال میں
غیر ضروری کفایت شعاری سے کام لیتا ہے توگویا یہ ایک انتہا ہے جسے بخل کہا
جاتا ہے۔ اور اس کے بر عکس دوسری انتہا کا نام اسراف ہے، جس کا مطلب ہوتا
ہے بلا ضرورت یا ضرورت سے زائد وسائل کا استعمال۔ زیر نظر مضمون میں اسی
اسراف کے منفی پہلوؤں پر اظہار خیال مقصودہے۔
اسراف یا فضول خرچی ایک ایسا عمل ہے جس کے مضرت کا ہر شخص کو احساس و
اعتراف اور غیر معقولیت پر ہر عقلمند انسان کو حق الیقین حاصل ہے۔ اس لئے
کہ فضول خرچی کے پاداش میں نہ صرف یہ کہ انسان غضب الہی کا مستحق ہو جاتاہے
، بلکہ ایک دن ان وسائل سے محرومی بھی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بالآخر وہ
افلاس وبد حالی کا شکار ہوکر معاشرہ میں اپنی ساکھ کو بچانے میں بھی ناکام
ہو جاتا ہے جسے وسائل کی بہتات اور دولت کی ریل پیل کے بل پر اس نے قائم
کیا تھا۔قرآن کریم افراط اور تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے لوگوں کو
شاہراہ اعتدال کی یوں رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے: ’اے بنی
آدام، ہر نماز کے وقت (لباس سے) اپنے تئیں آراستہ کر لیا کرو، اور کھاؤ پیو
اور بے جا خرچ نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘
(الاعراف، ۷: ۳۱)
اس کائنات کے ذرہ ذرہ کو انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے وجود بخشا گیا ہے۔
چنانچہ ہر انسان اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتے ہی اپنے گرد و پیش میں
مواقف حیات اسباب کا ایک وسیع اور ہمہ گیر نظام پاتا ہے۔خالق ارض و سماء نے
انسان کی تخلیق سے قبل اس کی معاش کے خزانہ تمام طلبگاروں کے لئے حسب ضرورت
یکساں طور زمین میں رکھ دئے ۔ تاکہ روئے زمیں پر بسنے والے تمام انسان اپنی
جائز ضروریات کی تکمیل کے لئے اعتدال کی روش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان
اسباب کا استعمال کریں اور بے جا اسراف میں اس امانت کو برباد کر کے دوسرے
کی حق تلفی کا باعث نہ بنیں۔جہاں تک انسانی ضروریات کا تعلق ہے اس کے لئے
یہ تمام اساب و وسائل کافی ہیں۔ البتہ انسان کی خواہشات کی تکمیل اس دنیا
میں ممکن نہیں۔ لیکن سماج میں زندگی گذارنے والے کچھ لوگ جب اس حقیقت سے
چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی تکمیل میں دوسروں کی پرواہ کئے بغیر
وسائل کاغلط استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو اس کے منفی اثرات صرف اسی
کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس سے متعدی ہوکر پورے سماج کوایک بحرانی
کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔نتیجتاً سماج میں وسائل کی قلت کی وجہ سے بے
شمار پریشانیاں اور مشکلات رونما ہوتی ہیں، اورفرد کے گناہ کا کفارہ جماعت
کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں بے شمار ایسی مثالیں مل جائیں
گی جن سے پتہ چلتا ہے کہ پورے سماج پر ایک فرد کے مسرفانہ اور غیر معتدل
انداز بود و باش کی وجہ سے کس طرح کے بحرانی دورے پڑ رہے ہیں۔ ذیل میں کچھ
موٹی موٹی پریشانیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فردکے اسراف کے نتیجہ میں
پورے سماج کو اپنی چپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔
مثلا نقل و حمل کے مسئلہ ہی کو لیجیے۔ آج کی دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کی
محیر العقول دریافتوں کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاؤں میں سمٹ کررہ گئی ہے
اورنقل و حمل کے ایسے وسائل فراہم ہو چکے ہیں جن سے دوریاں نزدیکیوں میں
بدل گئی ہیں۔ پہلے آدمی کو کسی جگہ کا سفرکرنے کے لئے یا کسی مقام تک پیغام
رسانی کے لئے مہینے درکار ہوتے تھے، آج وہی مسافتیں گھنٹوں، بلکہ منٹوں میں
طے ہو جاتی ہیں۔ لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بسا
اوقات چند فرلانگ کی دوری بھی گھنٹوں میں طے ہو پاتی ہے اور منزل تک رسائی
کے لئے وقت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ سڑکوں پر مختلف چھوٹی بڑی گاڑیوں کا
تانتا کچھ ایسے لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوتا
ہے۔ اس کے نتیجہ میں جہاں عام معمول زندگی متاثر ہوتا ہے وہیں جان بلب
مریضوں کوفوری طور پر طبی امدادبھی مہیا نہیں ہو پاتی ہیں اور وہ ہمیشہ کے
لئے اس بھیڑ بھاڑ اورو شور شرابہ کی دنیا کو خیرباد کہ دیتے ہیں۔دوسری طرف
بڑے شہروں کی تنگ گلیاں ہوں، رہائشی علاقے ہوں یا بازار، آپ کسی بھی جگہ
اپنی سائیکل سے جائیں اور کسی ضرورت سے تھوڑی دیر کے لئے سائیکل کھڑی
کرناچاہیں، تو جگہ کی تلاش میں منٹوں سوچنا پڑتا ہے۔ کہیں بھی آسانی کے
ساتھ آپ کو پارکنگ کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ اور اگر کوئی جگہ مل بھی جائے تو
کام سے فراغت کے بعد وہاں سے اپنی سائیکل کو نکال لانا دشوار ہو جاتا ہے۔
کیونکہ اتنی دیر میں اس کے ارد گردبہت سی سائیکلیں، گاڑیاں اور ٹھیلے وغیرہ
لگ چکے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اس طرح کی پریشانیوں کی اصل وجہ
کیا ہے؟ بڑے لوگ جو عام طور پر اپنی پر تعیش گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں وہ اس
پریشانی کا اصل سبب عام طور پر ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو رکشہ چلاکر یا
ٹھیلا کھینچ کر اپنی اور اپنے کنبہ کی زندگی کی گاڑی کو کسی طرح کھینچ رہے
ہیں۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں حکومت اور انتظامیہ کو ملزم ٹھراتے ہیں۔ لیکن ان
تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ وہ لمبی چوڑی گاڑیاں ہیں جن کی برق
رفتاری اور فراٹوں سے اہل ثروت اپنے شوق کو تسکین دیتے ہیں۔ جن کے پاس پیسے
ہیں اگر ان کی ضرورت دو پہیے سے پوری ہو جائے تب بھی وہ چار پہیے کو اپنا
لازمہ حیات سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی خواہش اور ان کی تونگری کا آئینہ
دار ہے۔ بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کے یہاں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے
گاڑیوں کی تعدادکا تناسب بلا ضرورت افراد کی تعداد کے مساوی ہوتا ہے۔ ایسے
لوگ اس اسراف کو کبھی تو ضرورت کا جامہ پہنا کر جائز ٹھراتے ہیں اور کبھی
یہ کہہ کرٹال دیتے ہیں کہ’ زندگی ہے ہی کتنے دن کی؟اور پھر اس مال کو کوئی
قبر میں لے کر تھوڑے ہی جانا ہے‘۔ لیکن وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ گاڑیاں
آخر کس سڑک پر دوڑینگی اور پارکنگ کے لئے خالی جگہ کہاں سے مہیا کی جائے
گی؟ وہ اپنی خواہنشات کی تکمیل میں اپنی دولت کو بے تحاشہ لٹاتے ہیں اور ان
کے قہقہوں میں نہ جانے کتنی آہیں اور کراہیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اگر انسان
اس سلسلے میں صرف اپنی ضرورت کی تکمیل پر توجہ دے اور اپنی ذاتی گاڑیوں کا
استعمال بقدر ضرورت ہی کرنے پر اکتفا کرے، تو ٹریفک کے مسئلہ کا کسی حد تک
حل نکل سکتا ہے۔
دوسرا مسئلہ توانائی کا ہے۔زندگی کے سفر میں دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ
انسان روشنی کا بھی محتاج ہے۔ اسی لئے وہ رات کی تاریکیوں سے نبرد آزما
ہونے کے لئے روشنی کے نت نئے طریقوں کو بروئے کار لاتا ہے۔قدیم زمانہ میں
لوگوں نے چقماق سے آگ نکال کر اس کی ابتدا کی بعد ازاں اس سمت میں مرحلہ
وار کئی ایک اقدامات عمل میں آئے۔ اور آخر کار اس نے ترقی کرتے کرتے برقی
توانائی سے روشنی کا سامان پیدا کیا۔اور اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ برقی
توانائی انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ضمن
میں لوگ اس قدر لا پرواہی اور اسراف سے کام لیتے ہیں کہ کہیں تو قمقموں کی
جگمگاہت سے چراغاں ہو رہا ہے، اور کہیں غریبوں کے دیئے تیل کی بوند سے بھی
خالی ہیں۔سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں بجلی کا جس قدر بیجا استعمال
ہوتا ہے اس سے ہروہ شخص واقف ہے جو کسی حد تک ان جگہوں پر آنا جانا کرتا
ہے۔ان دفاتر کے ملازمین کو بل کی بالکل پروا نہیں ہوتی، اس لئے کہ بل انھیں
خود ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اہل ثروت کے گھروں کی بھی حالت اس سے دگر گوں نہیں
ہے۔البتہ وہ اتنا احتیاط ضرور کرلیتے ہیں کہ کہیں جاتے وقت سارے بلب بجھا
دیتے ہیں اور پنکھے بند کر دیتے ہیں۔ لیکن اسراف کی اس حد سے وہ بھی نہیں
بچ پاتے کہ جس جگہ ایک بلب سے کام چل سکتا ہے وہاں اسراف کرتے ہوئے کئی کئی
بلب ہوتے ہیں۔ اس سے انھیں تھوڑی دیر کی چمک دمک سے لطف اندوز ہونے کا موقع
تو مل جاتاہے؛ لیکن اس کا منفی اثر سماج پر یہ ہوتا ہے کہ توانائی کی قلت
کی وجہ سے ملک کے بہت سے حصے روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی راتیں
تاریکیوں میں گذرتی ہے، اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر یہ فضول
خرچی کرنے والے اہل ثروت تھوڑی دیر کے لئے اس نکتے پر غور کر لیں تو نہ صرف
یہ کہ ان کامحنت سے کمایا ہوا اثاثہ ضائع ہونے سے بچ جائے گا، بلکہ بہت سے
لوگ تاریکیوں میں رات گذارنے کی پریشانی سے محفوظ ہو جائیں گے۔
اسراف کا ایک بڑا سماجی نقصان شادیوں اور دیگر تقریبات کے موقعوں سے
پڑوسیوں کی ایذا رسانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں لوگ
ناچ گانوں اور دیگر لغویات پر جو خرچ کر ڈالتے ہیں اگر وہ پیسے قوم کے غریب
بچوں پر خرچ کئے جائیں، تو بہت سے نونہالان قوم کو وہ میدان مل سکتا ہے جس
میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے خوابوں کی دنیا بسا
سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو فطری قابلیت کے
حامل ہونے کے باوجود محض وسائل کی قلت کی وجہ سے کامیابی کے اس مقام بلند
تک نہیں پہونچ پاتے جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق تھے۔ اس اسراف کا ایک
نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ رات کے حصوں میں جب ناچ گانے کا ماحول گرم ہوتا
ہے، تودن بھی کے تھکے ہارے مزدوری کرنے والے کتنے ہی لوگوں کی نیندیں حرام
ہوجاتی ہیں، کتنے طلباء جو مطالعہ کے لئے یکسوئی کے خواہاں ہوتے ہیں، ان کی
یکسوئی متاثر ہوتی ہے، کتنے مریض جن کو سکون کی ضرورت ہوتی ہے، ان کا سکون
اس شور شرابہ میں غارت ہوکر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان چیزوں سے ان دولتمندوں کو
کیاسروکار؟ انھیں تو انھیں تو اپنے ارمان نکالنے ہیں، خواہ معاشرہ کو اس کی
کیسی ہی قیمت ادا کرنی پڑے اور افراد کی اس ہوس پرستی کا کیسا ہی اثر سماج
پر مرتب ہو۔چنانچہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ قوم کا بے پناہ پیسہ برباد
ہوتا ہے، بلکہ مستحقین کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔
معاشرے پر پڑنے والے فضول خرچی کے یہ کچھ منفی اثرات تھے جو نمونہ کے طور
پر پیش کئے گئے، ورنہ روز مرہ کی زندگی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
جب جب اسراف کیا جاتا تو اس میں اجتماعی اور سماجی نقصان کا کچھ نہ کچھ
پہلو ضرورشامل ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ فرد کے اسراف کا راست اثر سماج پر پڑتا
ہے۔ اسی وجہ سے قرآن پاک نے ارشاد فرمایا: ’اور رشتہ داروں کو (بھی) ان کا
حق ادا کرو، اور مسکین و مسافر کو (بھی ان کا حق دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔
فضول خرچ کرنے والے لوگ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا بڑا
ہی نا شکر گذار ہے۔ (بنی اسرائیل، ۱۷: ۲۶،۲۷)اسراف کرنے والوں کو شیطان کا
بھائی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اسراف کے نتیجے میں حق تلفیاں ہوتی ہیں
اور معاشرہ ہر اعتبار سے عدم توازن کا شکار ہوتا ہے جس سے بغض و حسد اور
باہمی رقابت جیسے منفی احساسات پروان چڑھتے ہیں اور بالآخر آپس میں بھائی
بھائی میں دشمنی کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں جو شیطان کا عین منشا ہے۔
|