اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

اب کے ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملیں احمد فراز کا یہ مصرعہ اردو شاعری میں امر ہوچکا ہے۔ احمد فراز کے بچھڑنے کی خبر کے بعد ان کا یہ مصرعہ زبان زد عام ہے۔ اردو شاعری یوں بھی آہستہ آہستہ تہی دامن ہورہی ہے۔ تابش دہلوی، جون ایلیا، ضمیر نیازی، حبیب جالب، حفیظ جالندھری، اقبال عظیم، صوفی تبسم، دیکھتے ہی دیکھتے اس بزم فانی سے اٹھ کر رخصت ہوگئے۔ احمد فراز نوجوانوں کے شاعر ہیں۔ اور گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک مقامی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے یا آئی سی یو میں داخل تھے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم ان کا علاج کررہی تھی۔ ان کے معالج ڈاکٹر مرتضیٰ کے مطابق احمد فراز کو گردوں کے عارضے سمیت کئی امراض تھے۔ لیکن ان کا فشار خون، اور دل کی حرکت کام کررہی تھی ۔ ان کی صحت یابی کی امید ہو چلی تھی۔ کہ ان کے رخصت ہونے کی خبر آگئی۔ گزشتہ دنوں ان کی حالت تشویشناک رہی ۔ پاکستان سے ان کے صاحبزادے شبلی فراز بھی ان کی دیکھ بھال کیلیے شکاگو پہنچے۔ پی ٹی وی سے احمد فراز کے انتقال کی خبر نشر کی گئی تھی جسے بعد میں کچھ پاکستانی نجی چینلوں نے بھی چلایا تھا جو غلط ثابت ہوئی۔ احمد فراز امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ’اپنا‘ کے سالانہ کنونشن میں مشاعرے میں شرکت کے لیے واشنگٹن ڈی سی آئے تھے جہاں وہ گر پڑے تھے اور ان کے گھٹنوں پر چوٹیں آئی تھیں۔ ان چوٹوں سے انہیں ابتدائی طور انفیکشن ہوگیا تھا اور پھر انہیں شکاگو کے ایک ہسپتال میں ان کو گردوں کے عارضے کیوجہ ڈائلیسس مشین پر رکھا گیا۔ فراز صاحب کی رحلت کی خبر نے مجھے ان سے ہونے والی ایک ملاقات یاد دلا دی۔ آواری ٹاورز ہوٹل کی سوئمنگ پول کی سائڈ پر ہونے والی ایک تقریب کے بعد چند دوستوں کے ساتھ بزم آرائی میں اس دن احمد فراز خوب موڈ میں تھے۔ انہوں نے خوبصورت اشعار سنائے۔ اور حال دل کہا۔ ملکی حالات پر میں نے انہیں دل گرفتہ پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان اور بلوچستان میں ظلم ہورہا ہے۔ خود احمد فراز کا تعلق وزیرستان سے ہے، ان کا کہنا تھا کہ وزیریوں نے کشمیر کا وہ حصہ پاکستان کو لے کر دیا ہے جو اس وقت پاکستان میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر با ر یہ سمجھے کہ بہار آئی ہے۔ ضیا دور کے بارے میں کہا اس وقت حالات ایسے تھے کہ ملک سے باہر جانا پڑا۔ میری نظمیں اور شاعری ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات پر پابندی کی وجہ عوام سے دور تھی۔ میری شاعری عوام کی لیے ہے۔ یہ گڑھے میں ڈالنے کے لئے تو نہ تھی۔

اس دوران انہوں نے تازہ اشعار سنائے۔
قتل عشاق میں اب دیر ہے کیا بسم اللہ۔ سب گناہگار ہیں راضی یہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سب ہی جانتے ہیں۔ جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجش بے جا کی شکایت تم سے۔ اب تمہیں بھی ہے گلہ تو بسم اللہ

چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا۔ تو آگیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آگئے ہیں تہہ دام تو نصیب اپنا۔ وگرنہ اس نے پھینکا تھا جال ویسے ہی
جب ہر اک شہر بلاﺅں کا ٹھکانہ بن جائے۔ کیا خبر کب کون کس کا نشانہ بن جائے
ہم نے ایک دوست کی چاہت ہیں جو لکھی ہے غزل۔ کیا خبر اہل محبت کا ترانہ بن جائے

احمد فراز نے بین الاقوامی شہرت اپنی شاعری سے حاصل کی۔ ان کی شاعری پاکستان میں احتجاج کی شاعری کا استعارہ ہے۔ لیکن اب ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں احتجاجی شاعری اور تحریکیں دم توڑ چکی ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں مضبوط جمہوری نظام ہونے کے سبب وہاں احتجاجی شاعری کے علاوہ مضبوط تحریکیں ہر دور میں جاری رہی ہیں ۔ پاکستان میں احتجاجی شاعری جنرل ایوب کے زمانے تک خوب ہوتی رہی۔ ایک لحاظ سے جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی شاعروں کے پروٹسٹ کا جذبہ ان کی تخلیقوں میں نمایاں تھا لیکن اب یہاں کے شاعر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ کچھ تو اسی نظام میں گھل مل گئے اور جو باقی بچے وہ جیلوں میں یا تو گل سڑ گئے یا وطن بدری کے شکار ہوئے۔ پروٹسٹ کی شاعری کے لیے ہی فیض نے جیل کاٹی۔ ہمیں بھی فوجی ظلم کا شکار بنایا جاتا رہا۔ احمد فراز کو نئی نسل سے محبت ہے ۔ اس لئے نئی نسل کے شاعروں کے نام ان کا پیغام ہے کہ نوجوانوں مطالعہ کرو۔ دنیا کو باریکی سے سمجھو۔ ایک دور تھا کہ سماج و سیاست کے کم شعور رکھنے والے ہی شاعری کرتے تھے لیکن اب تو نئی نسل کو دنیا کے حالات کے متعلق گہرائی سے جانکاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن مجھے دکھ ہے کہ اب ایسا کوئی سکول نہیں ہے۔ ہم پہلے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے اور سیکھتے تھے۔اب ایسا ماحول بننے ہی نہیں دیا جاتا۔ مجھے دکھ ہے ہمارے یہ بچے کہاں جائیں۔ احمد فراز نے ساری عمر لیکچرار شپ، ریڈیو، لوک ورثہ، اکیڈمی ادبیات، اور دیگر اداروں میں ملازمت کی۔ حکومت نے احمد فراز کو پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور ان کی جگہ افتخار عارف کو پاکستان نشنل بک فاؤنڈیشن کا ایم ڈی مقرر کیاتھا۔تہتر سال احمد فراز کو انیس سو چورانوے میں ا ±س وقت کی وزیر اعظم بینظر بھٹو نے احمد فراز کی تقرری نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی کے طور پر کی تھی لیکن جب ان کی معیاد ختم ہوئی تو اس وقت کے نگران وزیر اعظم معراج خالد ان کی ’تاحکم ثانی‘ تقرری کر دی۔ وزات تعلیم کے ترجمان مبشر حسن نے احمد فراز کو ہٹائے جانے کے بارے میں کہا کہ احمد فراز کی عمر کافی ہو چکی تھی اور وہ بیمار رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کو ہٹایا گیا تھا۔

احمد فراز گیارہ سال تک اپنے اس عہدے پر برقرار رہے ۔ احمد فراز نے اپنے اس عہدے سے ہٹائے جانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے کچھ دن پہلے نجی ٹیلی وڑن چینلز کو بعض انٹرویو دیے جس میں نے کہا کہ فوج کا ایک حد تک کردار ہے کیونکہ میں اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ فوج ایک خاص رول سے باہر بھی کام کرے اور شاید یہی وجہ بنی مجھ ہٹانے کی‘۔ ان کی ملازمت کے دوران نیشنل بک فاؤنڈیشن نے دو سو ملین روپے کمائے جو ایک ریکارڈ ہے۔ احمد فراز کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سول اعزاز ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ان کو ستارہ امتیاز بھی مل چکا تھا۔ گزشتہ دور حکومت میں احمد فراز کی سرکاری رہائش گاہ سے ان کا سامان نکال کر سڑک پر پھینک دیا اور زبردستی مکان خالی کرالیا گیا تھا۔ یہ مکان ان کی بیگم ریحانہ گل کے نام تھا جو دو برس قبل ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوچکی ہیں اور نوٹس ملنے کے باوجود بھی مقررہ مدت تک مکان خالی نہیں کیا تھا۔ قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی ملازم چھ ماہ تک مکان رکھنے کا مجاز ہوتا ہے۔ احمد فراز ان دنوں برطانیہ میں تھے ۔ جب بی بی سی نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود سرکاری ملازم ہیں اور ایک ادارے’نیشنل بک فاؤنڈیشن، کے سربراہ ہیں اور ان کا حق بنتا ہے کہ اگر بیوی ریٹائر ہوں تو مکان انہیں الاٹ کیا جائے۔ لیکن شائد یہ اس ابتلاء کا نکتہ آغاز تھا۔ انہوں نے کہا کہ تین ہفتے پہلے انہیں وزیراعظم شوکت عزیز نے رات کو گیارہ بجے فون کیا اور کہا کہ ’مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ آپ سے زبردستی مکان خالی کرانا چاہتے ہیں، لیکن میں نے انہیں روک دیا ہے‘۔ احمد فراز کے مطابق جب وزیراعظم نے انہیں تسلی دی تو وہ برطانیہ آگئے اور جب وزیراعظم ملک سے باہر دورے پر گئے تو وزیر کے حکم پر اچانک ان کا سامان گھر سے نکال کر سڑک پر پھینک دیا گیا اور زبردستی اہل خانہ کو گھر سے بے دخل کر کے قبضہ کر لیا گیا۔ اس کارروائی کے بعد احمد فراز کے اہل خانہ نے ایک’گیسٹ ہاؤس، میں رات گزاری جبکہ گھر کا پورا سامان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے دفتر منتقل کردیا گیا۔ احمد فراز نے کہا کہ حکومت کے ایسے عمل سے انہیں صدمہ پہنچا ہے اور بالخصوص جب وہ ملک سے باہر ہیں اور سخت بیمار بھی۔ اس اقدام کے بعد احمد فراز نے حکومت پر آئین کا تقدس پامال کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجاً اعلیٰ شہری اعزاز ’ہلال امتیاز‘ واپس کردیا ہے۔ادب کے شعبے میں ملنے والا یہ ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا ہے کہ سن دو ہزار چار میں یہ اعزاز انہوں نے اس لیے قبول کیا تھا کہ انہیں امید تھی کہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوگی۔ اس بارے میں انہوں نے ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ اس امید پر تھے کہ حالات سن انیس اکہتر جیسے نہیں ہوں گے جب ملک ٹوٹ گیا تھا اور بنگلہ دیش بن گیا۔ احمد فراز نے بلوچستان اور وزیرستان کی صورتحال کا اپنے خط میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بدقسمتی سے آئینی اور جمہوری اقدار کو بوٹوں تلے روندا جارہا ہے۔ حکومت افواج پاکستان کو اپنے ہی لوگوں سے لڑا رہی ہے اور ان کا خون بہا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ حکمرانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا‘۔ انہوں نے کہا کہ ہلال امتیاز ایک بڑا اعزاز ضرور ہے لیکن ان کے بقول جب وہ اپنی فکری آنکھ سے دیکھتے ہیں تو انہیں یہ اعزاز ایک کلنک کا ٹیکہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے جو انہیں محبت اور پیار اور عزت دی ہے وہ موجودہ غیر جمہوری، غیر نمائندہ اور ظالم حکمرانوں کے دیئے گئے اعزاز سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے قوم سے کیے گئے خطاب پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ احمد فراز نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی واحد آواز سے شاید کچھ زیادہ فرق نہ پڑے لیکن وہ امید کرتے ہیں کہ ان جیسی اور آوازیں بھی بلند ہوں گی۔ لیکن ان کے بقول ایسے میں وہ اپنے اندر سے آنے والی آواز کو دبا بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ملک بھر سے ان جیسی لاکھوں آوازیں اٹھیں گی اور ملک میں آئین اور قانون کی حکرانی قائم ہوگی اور متلق العنانیت کا خاتمہ ہوگا۔ صدر مشرف کے استعفی کی خبر انہوں نے بستر علالت پر سنی ۔ مرتے دم انہیں جموریت کی بحالی کی خوشی ہوئی ہوگی۔ح ساس شاعر ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ اور اب اس کی شاعری ہمیشہ اس کی یاد دلاتی رہے گی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389545 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More