متاثرین زلزلہ بلوچستان توجہ کے منتظر

2005 ء کے آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں تباہ کن زلزلہ کے 8 سال بعد گزشتہ ماہ بلوچستان کے دو اضلاع آواران اور کیچ میں چوبیس اور اٹھائیس ستمبر کو ساڑھے سات شدت کے دو زلزلے آنے کے سبب پانچ سو سے زائد افراد کی ہلاکت اور چالیس ہزار کے لگ بھگ خاندانوں کی بے گھری ہوئی۔صوبائی حکومت زلزلے کے فورا بعد سے غیر ملکی امداد اور طبی و غیر طبی ماہرین کے لیے پکار رہی ہے لیکن وفاقی حکومت اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں تک کو زلزلہ زدگان تک رسائی نہیں دے رہی اور یہ اعلان سامنے آیا کہ زلزلہ زدگان کی کود مدد کر سکتے ہیں غیر ملکی اداروں کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ اس عرصے میں بلوچستان کی روایتی محرومیوں پر مسلسل آبدیدہ وزیر ِاعظم ایک ماہ میں دوسری دفعہ امریکہ میں موجود ہیں مگرزلزلہ زدہ علاقوں آواران یا کیچ میں ان کا ہیلی کاپٹر ایک بار بھی نہیں اترسکا،متاثرہ علاقے سے محض چھ گھنٹے کی مسافت پر پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں عید کے تین دنوں میں آٹھ لاکھ سے زائد جانور قربان کیے گئے لیکن بے گھر زلزلہ زدگان کی ایک بڑی تعداد پھر بھی بھوکی رہی ۔ زلزلے کے بعد مصیبت زدگان کی زبان اور حساسیت سمجھنے والے سرکاری سویلینز اور غیر جانبدار ملکی وغیرملکی این جی اوز امدادی کاموں میں آگے آگے رکھے جاتے تو ہزاروں متاثرین بلا خوف و خطر بھی امداد قبول نہ کرتے ۔ فوج اور ایف سی ضروری امدادی سکیورٹی فراہم کرنے سے زیادہ اس پر بضد دکھائی دیئے کہ امداد ان کے ذریعے ہی تقسیم ہوگی،یہ حکومت کی حکمت نظر آتی ہے کہ غیر ملکی اداروں کو اس علاقے سے دور رکھا ہے ہے کیونکہ بلوچستان میں بھارتی جاسوسی کے اداروں سمیت دیگر غیر ملکی کی مداخلت رہی ہے ۔ایک مدت سے آوران کا علاقہ باغیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس پر دوبارہ ریاستی عمل داری کی کوششیں ابھی بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں ہیں جس کو کامیابی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

زلزلے سے متاثرہ صوبے بلوچستان کے ضلع آواران اور ارد گرد کے اضلاع میں صورتِ حال بے حد خراب اور بہت سے لوگ ابھی بھی امداد سے محروم نظر آتے ہیں ۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چوبیس ستمبر کے خوفناک زلزلے میں سینکڑوں افراد ہلاک، ہزاروں زخمی جبکہ لاکھوں بے گھر ہوگئے اور ان گنت مدد کے انتظار میں ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔حکومت نے امدادی کاموں کا آغاز کیا مگر غیر ملکی امدادی کارکنوں کو ضلع کے اصل مقام آواران جانے کی اجازت نہیں دی جبکہ امدادی اشیا کی ترسیل بھی ایف سی کے معائنے اور اجازت سے مشروط کردی اس اقدام کو ناقدین کڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔اس صورتِ حال میں اب تک بے شمار افراد کو امداد نہیں مل سکی بلکہ کئی تو علاج جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔میڈیا نمائندگان نے مقامی حکام، حقوقِ انسانی کمیشن کی سربراہ، امدادی کارکنوں اور متاثرہ افراد سے بات چیت کرنے کے بعد اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ آواران اور ارد گرد کے اضلاع میں صورتِ حال اب تک بے حد خراب ہے ۔ رپورٹس کے مطابق صرف آواران میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے جبکہ وہاں ایکسرے کا کوئی یونٹ تک نہیں ہے۔ یہی حال دیگر زلزلہ زدہ مقامات کا بھی بتایا جاتا ہے۔وہاں موجود لوگ کہتے ہیں کہ جہاں وہ ہیں وہاں سے صرف تین سو کلو میٹر دور صورتِ حال کہیں بہتر ہے لیکن وہ ہم سے تین سو کلومیٹر دور ہیں لیکن ان کا اور ہمارا فاصلہ صدیوں کا ہے۔ حقوقِ انسانی کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ امدای سرگرمیوں میں اب بھی بہت سی مشکلات ہیں۔ فاصلہ ایک بڑی مشکل ہے۔ دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند وں کی جانب سے بھی نیشنل ڈیساسٹر مینیجمنٹ اور فوج پر حملے کیے جانا زیادہ خوفناک ہے ، امداد لینے کی کوشش کر نے والے لوگوں کو بھی ڈرایا گیا تاکہ وہ امداد نہ لیں۔ ایک طرف سے فوج چاہتی ہے کہ ان کو امداد دیں اور دوسری طرف علیحدگی پسندچاہتے ہیں کہ وہ امداد نہ لیں۔ لہذا ضرورت مند پسے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔دوسری طرف مذہبی تنظیمیں آواران پہنچ رہی ہیں اور انہیں حکومت کی جانب سے علاقوں تک رسائی کی اجازت بھی مل رہی ہے۔ جماعت الدعوۃ پاکستان کے ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے زلزلہ زدگان کی مدد میں مثالی کردار ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر تمام غیر سرکاری اداروں پر برتری لے رکھی ہے جس کو بین الاقوامی میڈیا بھی پذیرائی دینے پر مجبور ہے،عید سے چند روز قبل جماعت الدعوۃ پاکستان کے امیر حافظ سعید احمد نے مسجد قباء اسلام آباد میں زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے لگائے گئے کیمپ میں پریس کانفرنس کی جس میں تمام پاکستانیوں سے زلزلہ زدگان کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ۔اس اپیل سے پہلے بھی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام زلزلہ دگان کیلئے کروڑوں روپے کا سامان ،تین درجن سے زائد میڈیکل ٹیمیں اور ہزاروں رضا کار ان آفت زدہ علاقوں میں موجود ہیں ۔امیر جماعت الدعوۃ کے مطابق اس علاقے میں گھر بنانا زیادہ مہنگا نہیں ہے ، 1 لاکھ روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا اچھا گھر مٹی سے بن جاتا ہے۔اس لیے امدادی اداروں کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب حکومت نے غیر سرکاری تنظیموں خصوصا بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے سے روک کر رکھا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت ان تنظیموں سے خوف زدہ ہے کہ یہ زمینی حقائق کے بارے میں سازشیں اور باہر رپورٹ کر سکتے ہیں اور دوسری طرف حکومت ان تنظیموں کی سیکیو رٹی کے بارے میں بھی فکر مند ہے کیونکہ ماضی میں بلوچستان میں مغربی تنظیموں کے کارکنان کو اغوا کیا جاچکا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ کے ادارے فلاح انسانیت کے سربراہ حافظ عبدالروف نے کہا کہ وہاں بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ نہ گیس ہے ،نہ بجلی ہے ،نہ سڑکیں ہیں، بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں کا جو حق بنتا ہے وہ ان کو دیں۔اس سوال پر کہ کیا بلوچستان کا یہ علاقہ ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح ہے یا ان سے مختلف ہے فلاحی تنظیم کا کارکن نے بتایا کہ یہ پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ ایک سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں گاڑی پر چھ گھنٹے تک لگ جاتے ہیں ، مشکئی سے کراچی تک صحت کی کوئی سہولت نہیں۔ اواران ضلعی صدر دفتر ہے لیکن وہاں کہ ہسپتال میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پورے آواران ضلع میں ایک بھی ایکسرے یونٹ نہیں ہے اور قریبی ضلع بیلا کی بھی یہی حالت ہے۔ فاصلہ گو صرف تین سو کلومیٹر کا ہے لیکن فرق ہمارا اور ان کا صدیوں کا ہے۔ وہاں آج بھی لوگ کھجور کے پتوں کا جوتا پہنتے ہیں، ان کے پاس تبدیل کرنے کے لیے کپڑا نہیں بلکہ پیوند لگانے کی بھی جگہ نہیں رہی۔ وہاں اتنی غربت ہے کہ شاید ہی کسی گھر میں دو وقت کھانا بنتا ہو۔ وہاں حکومت موجود ہی نہیں تھی، بہت سے لوگ تھے جنہوں نے کبھی دوائی کی گولی نہیں دیکھی، انجیکشن نہیں دیکھا کبھی ڈاکٹر نہیں دیکھا۔ آواران سے اطلاعات ملتی ہیں کہ ایف سی والے آگے نہیں جانے دیتے او ر سامان نہیں بانٹنے دیتے اور دوسری طرف سے شکایت یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند اس میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔کچھ متاثر علاقے اتنے دور ہیں کہ ایک سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں گاڑی پر چھ گھنٹے تک لگ جاتے ہیں۔الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری انجنیئر عبدالعزیز نے بتایا کہ انہوں نے ایف سی اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ ان کی زیر نگرانی اس علاقے میں نہیں جانا چاہتے۔ جب وہ متاثرہ علاقے کی طرف بڑھے تو راستے میں ان سے پوچھا گیا کہ کیوں آئے ہو اور کراچی سے آنے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ ابتدائی شکوک و شبہات کے بعد انہیں مقامی لوگوں نے قبول کیا۔حیرانی ہے کہ اتنی محرومی، تباہی کے باوجود وہاں کوئی چھینا جھپٹی نہیں ہوئی۔امدادی کارکنوں پر حملوں کے بارے میں سوال کے جواب میں فیصل ایدھی نے کہا کہ ایک بھی کارکن نہ وہاں زخمی ہوا ہے اور نہ مارا گیا ہے۔ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں وہاں آئی تھیں لیکن جلد ہی وہاں سے چلی گئیں۔ وہ لڑائی سے متاثرہ علاقہ ہے اور انہوں نے وہاں فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ کون گولیاں چلا رہا تھا۔ ہیلی کاپٹروں کی موجودگی تھی جو امدادی کارروائیوں میں حصہ تو نہیں لے رہے تھے، سامان کی ترسیل میں حصہ لیا ہو تو معلوم نہیں۔زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے پاکستانی عوام کے دروازے کھلے ہیں لیکن عوام تحفظات کا شکار ہے کیونکہ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاحی ادارہ عسکریت پسند ہے اور فلاں خود سامان ہڑپ کر جاتا ہے جبکہ حکومت کے ذریعے مدد فراہم کرنے کی پالیسی اب زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی ۔ایسے وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جو فلاحی ادارے ان علاقوں میں عوامی مدد کرتے ہوئے دکھائی دیں ان کو سپورٹ دی جائے اور جولوگ حکومتی اداروں کے ذریعے امداد فراہم کر سکتے ہوں ان کو بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے ۔آج جو وقت بلوچستان کے عوام پر گزر رہا ہے ایسا ہی وقت 8 سال پہلے آزاد کشمیر اور بالہ کوٹ کے لوگوں پر پیش آیا تھا اور مستقبل میں کوئی بھی علاقہ ان آفات کی زد میں آسکتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرین کی بلا تخصیص مدد کی جائے ۔عوام کو خوف خد ائی اس لیے بھی کرنا ہو گا کہ جیسی عید اس بار زلزلہ زدگان بھوک ،افلاس اور ننگ میں گزاری ہے ویسی عید اﷲ نہ کرے مستقبل میں کوئی اور گزارے ۔ٖغیر سرکاری ملکی و غیر ملکی فلاحی تنظیموں نے امداد کی راہ میں رکاوٹوں کا جو ڈھنڈورہ پیٹ رکھا ہے اس کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہے محض کچھ واقعات کو جو سازش کے تحت کیے گئے کو مثال بنا کر بلوچتستان میں مزید مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو نا مناسب ہے ایسے حالات میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کام مثالی ہے اس تنظیم کی طرز پر عوامی خدمت کا کام کرنے کا جذبہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59304 views Columnist/Writer.. View More