وہی قاتل وہی منصف

اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا میں عورتیں بد ترین حالات سے جہاں جہاں دو چار ہیں اُن ملکوں میں پاکستان سر فہرست ہے فقط افغانستان کے بعد بانو کی کہانی سن کر مجھے اس بات کا یقین ہونے لگا ہے۔ بانو کی کہا میں بھی عجیب ہے۔ حیران ہوں کہ یہ اکسیویں صدی ہے ہر طرف آزادی نسواں کی دھوم ہے کبھی لڑکیوں کا عالمی دن اور کبھی عورتوں کا عالمی دن ۔مگر صرف دعوے ہی دعوے ۔ عورت آج بھی پابند ہے کہیں رسموں کی کہیں رواجوں کی غلام ہے کہیں اپنے میاں کی اور کہیں اپنے بھائیوں کی اور کبھی اپنے ہی گھر کے مردوں کی کبھی عزت کا شکا ر ہوتی اور کبھی غیرت کے ہاتھوں ماری جاتی ہے یورپ کی عورت تو خیر اب مادر پدر آزاد ہے پہلی صدی ہجری کی مسلمان عورتوں کی طرف نظر ڈالیں جب اسلام نے عوت کو حقیقی اور سچی آزادی دی تھی۔ حضرت رابعہ بصری جیسی عورتیں اسلامی آزادی کی زندہ مثال ہیں مگر ایک ہم مسلمان ہیں جہاں کہنے کو اسلامی معاشرہ ہے مگر عورت فقط ملکیت ہے مردوں کی ملکیت۔

حقوق نسواں کے بہت سے لوگ علمبردار ہیں مگر اُن کی سر میاں شہروں تک محدود ہیں ۔شہروں سے ہٹ کر کام کریں تو تشہیر نہیں ۔تشہیر نہ ہو تو ڈالر نہیں ملتے اور بہت تلخ حقیقت ہے کہ ہماری زیادہ تر تنظیمیں ڈالروں کے لیے ہی کام کرتی ہیں مقصد اخلاص نہیں فقط لالچ۔ شہروں سے ہٹ کر مسائل کا شکار علاقوں میں کوئی کام نہیں کرتا وہاں عورتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ وہاں روز کوئی نہ کوئی بانو اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کے ظلم کا شکار ہوتی ہے اور شاید ابھی برسوں ہوتی رہے گی۔

سعید بہت عرصہ میرے ساتھ کام کرتا رہا ہے اورآج بھی میرے حوالے ہی سے ایک جگہ کام کرتا ہے اس لیے میرا بہت احترام کرتا ہے۔ چند دن پہلے اُس کی بیگم کا فون آیا رو رہی تھی ۔ پوچھا کیا ہوا۔۔ ۔۔سعید نے دوسری شادی کر لی ہے آپ کو تو پتہ ہے میرے چھوٹے چھوٹے پانچ بچے ہیں ۔ ا ب میں کیا کروں گی۔ ان بچوں کا کیا ہو گا۔ میں نے اُسے حوصلہ دیا کہ میں ابھی سعید سے بات کرتا ہوں تم پریشان نہ ہو۔میرے فون کرنے پر سعید تھوڑی دیر بعد میرے پاس تھا۔ میں نے اُسے اُس کی بیگم کے فون کے بارے میں بتایا اور کہا کہ بتاؤ کیا قصہ ہے میرے بات سن کر وہ ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔ جنا ب وہ پاگل ہے بات سمجھتی ہی نہیں بس رونے کی عادت ہے ۔ چند دن پہلے میں نے اسے کچھ رقم دی تھی کہ سنبھال کر رکھو تو پوچھنے لگی کہ اتنی زیادہ رقم کہاں سے آئی ۔ میں نے بتا دیا کہ شادی کی تھی آج طلاق دے کر آیاہوں تو لڑکی کے وارثوں نے یہ رقم دی ہے ۔۔۔۔ میں نے تو اُس کو ہر بات سچ بتائی ہے مگر وہ کچھ سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ۔کہتی ہے شادی تو تم نے کی ہو گی مگر طلاق نہیں دی ہو گی۔ اب بتائیں میں اسے کس طرح سمجھاؤ۔ میرے کہنے پر اُس نے تفصیل سے ساری بات بتائی جو بانو کی بے بسی اور معاشرے کی بے حسی کی ایک تصویر ہے اور ثناء خوان تقدیس مشرق کے منہ پر ایک طمانچہ ۔

سعید ایک دن کسی کام کے لیے دفتر سے باہر نکلا تو دفتر کے ساتھ والے مکان میں کوئی نئے کرایہ دار آئے تھے اور ایک بزرگ دروازے پر کھڑے تھے اُن سے علیک سلیک ہوئی اور کچھ گپ شپ ۔دو تین دن میں بزرگ کافی بے تکلف ہو گئے چائے کی دعوت دی اور ضد کر کے سعید کو گھر کے اندر لے گئے ۔ گھر میں ایک جوان انتہائی خوبصورت لڑکی موجود تھی۔ بزرگ نے سعید سے تعارف کرایا کہ میری بھتیجی بانو۔ بانو نے چائے بنائی تو بزرگ نے زبردستی بانو کو اُس کے نہ چاہنے کے باوجود سعید کے سامنے بٹھا دیا۔ لڑکی چونکہ انتہائی خوبصورت تھی اسلیے سعید بار بار اُسے دیکھتا رہا لگتا تھا بزرگ بھی یہی چاہتا ہے کہ سعید اُسے پسند کرے اور وہ تھی بھی ایسی کہ ہر ایک کو پسند آتی۔ پھر اُس دن کے بعد بزرگ روز سعید کو چائے پلانے کو بلاتا۔ بانو کو اس کے سامنے بٹھا کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں بائیں ہو جاتاتاکہ آپس میں بات چیت کریں مگر بانو سعید کے سامنے گم سم اپنے خیالوں میں کھوئی رہتی اور بہت کم کسی بات کا جواب دیتی۔

دس بارہ دن بعد ایک دن بزرگ نے راز دار انہ انداز میں سعید سے پوچھا ۔میری بھتیجی اچھی ہے نا۔ سعید نے فوراً کہا بہت اچھی بزرگ بولے تمھیں پسند ہے ۔ سعید سوچ میں پڑ گیا ور ٹھہر ٹھہر کر بولا ہاں کسی حد تک ۔بزرگ نے سن کر کہا کہ بہت پسند ہے تو تم اس سے شادی کر لو۔ نہیں نہیں سعید نے گھبرا کر کہا۔ میں شادی شدہ ہوں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں معمولی تنخواہ ہے میں دوسری بیوی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ بزرگ نے کہا کہ فکر نہ کرو۔ تمھاری یہ بیوی بانو میرے پاس رہے گی۔ میں اس کا سارا بوجھ برداشت کروں گا۔ تمھیں بھی تمہارے خرچ کے لیے کچھ دوں گا۔ تم کسی کو نہ بتاؤ توتمھاری شادی کا کسی کوپتہ بھی نہ چلے گا۔ ہاں البتہ کچھ عرصے بعد جب میں کہوں گا تو تمہیں لڑکی کو طلاق دینا ہو گی ۔ طلاق دیتے وقت ہم تمہیں ایک معقول رقم دیں گے اور تم یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے اگلے دن بزرگ کے بیٹے بھی موجود تھے سعید سے کاغذ پر بہت سی شرائط لکھوا نے کے بعد اُس کا بانو سے نکاح کر دیا گیا۔

سعید پریشان تھا کہ جس لڑکی سے اُس کا نکاح ہوا ہے وہ ہر طرح کے جذبات سے عاری تھی وہ کچھ بات کرنا چاہتا تو وہ کہتی کہ تم جس کام کے لیے آئے ہو اُس سے زیادہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں اور تم بھی بس اپنے کام سے کام رکھو۔ سعید کو ایسا لگتا جیسے اُس نے یہ شادی کر کے کوئی جرم کیا ہو ۔ مگر معاہدے کے مطابق وہ روز بانو سے ملنے جاتا سعید کو ہر ماہ تھوڑی سی رقم بھی مل جاتی تھی اسلیے بانو کے رویے کی اُسے کوئی پرواہ نہ تھی ۔ چھ سات ماہ گزر گئے تو بانو نے ایک دن سعید سے کہا کہ کل شاید ہماری آخری ملاقات ہو۔ تم روز میرے بارے میں پوچھتے ہو تو آج ساری حقیقت بتاتی ہوں ۔ میں ایک عام گھرانے کی لڑکی ہوں میرے گھر کے سامنے ایک زمیند ار کی شاندار حویلی تھی زمیندار کا بیٹا آصف بچپن ہی سے میرے گھر آکر مجھ سے کھیلا کرتا تھا۔ زمیندار نے اپنے بیٹے کی پسند جان کر چھوٹی عمر میں ہی ہماری شادی کر دی ۔اتفاق سے ہماری کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ میرے ساس سسر پوتا پوتی کی حسرت لیے دنیا سے چلے گئے۔ آصف والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور بہت ساری جائیداد کا اکلوتا وارث ۔تمام رشتہ داروں کی نظریں اُس کی جائیداد پر تھیں آصف کو ڈر تھا کہ رشتہ دار اُسے کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔اسلیے میرے تحفظ کے لیے اُس نے لکھ دیا تھا کہ اُسے کسی بھی نقصان کی صورت میں اُس کی جائیداد کی وارث اُس کی بیوی بانو ہو گی۔ بشرطیکہ بانو دوسری شادی نہ کرے۔

آصف کوجو ڈر تھا وہی ہوا ۔ کھیتوں سے واپس آتے کسی نے اُسے قتل کر دیا قاتل کاکچھ پتہ نہ چلا یہ بزرگ آصف کا ماموں ہے ابھی آصف کے قتل کو دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ مجھے زبر دستی یہاں لے آیا اور پھر تم سے میری شادی کر دی۔ نکاح نامہ لے کر اس کے بیٹے عدالت چلے گئے کہ میں نے دوسری شادی کر لی ہے اسلیے جائیداد پر میرا کوئی حق نہیں اور اب آصف کی جائیداد کے وہی وار ث ہیں ۔ سنا ہے عدالت سے اُن کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے کل تم مجھے طلاق دو گے۔ اُس کے بعد میں کہاں جاؤں گی کہ ماری دی جاؤں گی میں نہیں جانتی ۔ اگر یہ بات تم نے مجھے پہلے بتائی ہوتی تو میں تمہاری مدد کی کوشش کرتا سعید نے کہا۔ آصف میرا دوست تھا۔ میں نے وہ گنوا دیا تو یہ دولت جو میری دشمن ہے اس کو لے کر میں کیا کروں گی بانو نے جواب دیا۔

رات بھر سعید سوچتا رہا کہ اس مظلوم کی کیا مدد کی جا سکتی ہے مگر اگلے دن صبح ہی صبح دفتر جانے سے پہلے بزرگ اُسے روک کراپنے گھر لے گیا۔ طلاق نامے پر دستخط کرائے بزرگ کے بیٹے موجود تھے سارا سامان بند ھاہوا تھا ۔ سعید کو معاہدے کے مطابق پیسے دئیے اور گھر خالی کر کے چلے گئے بانو اور اُس کا جذبات سے عاری اداس اداس چہرہ اب بھی سعید کو یاد ہے اور اُسے افسوس ہے کہ وہ ایک بے بس اور لاچار عور ت کی جو شاید اب تک اپنوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچ چکی ہو گی کوئی مدد نہیں کر سکا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445010 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More