صحافتی تاریخ ،جرنلسٹس کالونی ،سردار رحیم ،شہلاوقار اور سیاحت

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری ؒ کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت ابو زر غفاری ؓ نے کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا اے لوگو میں جندب غفاری ہوں اس بھائی کے پاس آجاؤ جو تمہارا خیر خواہ اور بڑا شفیق ہے اس پر لوگوں نے انہیں چاروں طر ف سے گھیر لیا تو فرمایا زرا یہ بتاؤ کہ جب تم میں سے کسی کا سفر کا ارادہ ہوتاہے تو کیا وہ اتنا مناسب زاد راہ نہیں لیتا جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟ لوگوں نے کہا لیتاہے ۔فرمایا قیامت کے راستہ کاسفر تو سب سے لمبا سفر ہے لہذا اتنا زاد راہ لے لو جس سے یہ سفر ٹھیک طرح ہوجائے لوگوں نے کہا وہ زاد راہ کیا ہے جس سے ہمارا یہ سفر ٹھیک طرح ہوجائے فرمایا حج کرو اس سے تمہارے بڑے بڑے کام ہوجائے گے اور سخت گرم دن میں روزے رکھو کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا ہے اور رات کے اندھیرے میں دورکعت نماز پڑھو یہ دورکعتیں قبر کی تنہائی میں کام آئیں گی یا تو خیر کی بات کہو یا پھر چپ رہو شر کی بات مت کرو کیونکہ ایک بہت بڑے دن میں اﷲ کے سامنے کھڑے ہونا ہے اپنا مال صدقہ کرو تاکہ قیامت کی مشکلات سے نجات پا سکو اس دنیا میں دوباتوں کیلئے کسی مجلس میں بیٹھو یا تو آخرت کی تیاری کیلئے یا حلال روزی حاصل کرنے کیلئے ان دوکاموں کے علاوہ کسی اور کام کیلئے مجلس میں بیٹھنے سے تمہارا نقصان ہوگا فائدہ نہیں ہوگا ایسی مجلس کا ارادہ بھی نہ کرو مال کے دوحصے کرو ایک حصے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو اور دوسرا حصہ اپنی آخرت کیلئے بھیج دو ان دوجگہوں کے علاوہ کہیں اورخرچ کرو گے تو اس سے تمہارا نقصان ہوگا فائدہ نہیں ہوگا لہذا اس کا ارادہ بھی نہ کرو پھر حضر ت ابو زر ؓ نے بلند آواز سے فرمایا اے لوگوں دنیا کے لالچ نے تمہیں مار ڈالا او رتم جتنا لالچ کرتے ہو اس کو تم کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔

قارئین آج کا موضوع آج کی بات کچھ ایسی ہے کہ کھری کھری کہنے کا بھی جی چاہتاہے اور کھری کھری سننے کا بھی دل چا ہ رہاہے بقول شاعر
’’یا اپنا گریباں چاک ،یا دامن یزداں چاک ‘‘

آزادکشمیر اور پاکستان کی صحافتی تاریخ پر ہم نے ایک خاص واقعے کے بعدنظر دوڑانا شروع کی تو یقین جانئے کہ ہمارے چودہ نہیں بلکہ اٹھائیس طبق روشن ہوگئے آج آزادکشمیر اور پاکستان میں صحافتی برادری جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے ایک عام انسان اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے ہم نے پہلے بھی چند کالمز میں اس بات کا تذکرہ کیاتھا کہ ایک عام آدمی کے نزدیک صحافی ایک ایسی ’’مخلوق ‘‘ کا نام ہے کہ جو یا تو ’’سپر مین ،سپائیڈر مین ،ہالو مین ‘‘ سے لیکر مافوق الفطرت طاقتورکرداروں کے نام سے مشہور مختلف کیریکٹر ز جیسی طاقتوں کی حامل ہے ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ صحافی شاید کسی ایسی مخلوق کانام ہے کہ جس کے وزٹنگ کارڈ کے اندر ایسی طاقت چھپی ہوئی ہے کہ جس سے بند دروازے کھل جاتے ہیں ،تجوریاں ویلکم کا بورڈ لگا لیتی ہیں ،صدر اور وزیراعظم سے لیکر وزرائے کرام ،بیوروکریٹس ،پولیس آفیسران سے لیکر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ جرنلسٹس کی اس حد تک قدر کرتے ہیں کہ اپنے آرام کے لمحات میں بھی اگر کوئی صحافی ان سے بات کرنا چاہیے تو انتہائی خوش خلقی کے ساتھ ان کا استقبال کیاجاتاہے دوسری جانب عام آدمیوں میں سے ایک طبقہ ایسابھی ہے کہ جوصحافیوں کو جدید دور کے ’’ بلیک میلرز یا بیگرز‘‘ کہہ کرمخاطب کرتاہے اس طبقے کا خیال یہ ہے کہ دنیا جہاں کا نکما اور ناکارہ انسان جو تمام شعبوں سے ناکام ہوچکاہوتاہے اور تمام شعبے اس کیلئے اپنے دروازے بند کردیتے ہیں شعبہ صحافت ایسے لوگوں اور ’’ شاہینوں ‘‘ کیلئے اپنے بازو کھول دیتاہے اور گرم جوشی کے ساتھ ایسے لوگوں کو اس شعبے میں قبول کرلیاجاتاہے

قارئین مندرجہ بالا تمام باتیں نہ تو ہمارے تخیل کی پرواز کی وجہ سے تحریر کا حصہ بن رہی ہیں اور نہ ہی ہم صحافتی برادری کاحصہ ہوتے ہوئے خود پر ’’تبرا بازی ‘‘ کررہے ہیں یہ تمام کی تمام باتیں حقیقت ہیں اور آپ چاہے تسلیم کریں یا نہ کریں یہ ایک سچائی ہے کہ ہمارے اس منافقت بھرے معاشرے میں نوے فیصد سے زائد لوگ ننانوے فیصد صحافیوں کو انہی ناموں اورالقابات سے ان کی پیٹھ پیچھے یاد کرتے ہیں اور ان صحافیوں کی بلندی درجات کاسبب بنتے ہیں آئیے آج درد دل رکھتے ہوئے تھوڑا غور کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارا معاشرہ ’’ دین ،تعلیم اور صحافت ‘‘ کے ساتھ کس قسم کا سلوک کررہاہے اور جوابا ً یہ شعبے معاشرے کے قرض کو کس طریقے سے ادا کررہے ہیں اس سے پہلے کہ ہم اس بحث کا آغاز کریں ہم مختصراً آپ کو بتاتے جائیں کہ برصغیر کی تاریخ میں مغلیہ دور حکومت میں پہلی مرتبہ صحافیوں اور اہل قلم کو ان کی معاشرتی خدمات کے اعتراف میں جاگیریں دی گئیں تھیں مغلیہ دور حکومت میں جہاں شعر وشاعری ،فن تعمیر ،فنون حرب اور دیگر کمالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا وہیں پر صحافیوں اور لکھاریوں کو انتہائی محترم گردانتے ہوئے انہیں اہل علم میں شمار کیاگیا اور انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ریاست کی جانب سے نوازا گیا اور انہیں نہ صرف رہائش کیلئے زمین فراہم کی گئی بلکہ عزت کے ساتھ گزر اوقات کیلئے ریاست کی جانب سے وظائف مقرر کیے گئے مغلیہ دور حکومت کے بعد ڈوگرہ دور حکومت میں بھی صحافی برادری کو ’’ بولنے یا زبان بندی ‘‘ کے عوض زمینیں الاٹ کی گئیں پاکستان کی آزادی کے بعد سے لیکر آج میاں محمد نوازشریف کی پاکستانی حکومت اور آزادکشمیر میں سردار ابراہیم خان مرحوم کے دور صدارت سے لیکر الحاج سردار محمد یعقوب خان کے دورصدارت تک کسی بھی ’’ اسلامی ،نظریاتی ،مارشل لائی،ترقی پسند ،رجعت پسند ،دائیں بازو ،بائیں بازو ‘‘ حکومتوں میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ریاستی سطح پر صحافی برادری کیلئے ’’ آن دا ٹیبل ‘‘ کسی قسم کی خدمات انجام دے کر اس شعبے کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتا صرف پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو یہ اعزاز ملا کہ انہوں نے راولپنڈی میں جرنلسٹس کالونی کے نام سے ایک کارنامہ اپنے نام کیا ۔

قارئین اس بحث کا بنیادی مقصد آپ کو صحافی برادری اور صحافتی حلقوں کی انتہائی دگرگوں صورتحال سے آگاہ کرنا ہے گزشتہ دنوں جب آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید امریکہ کے ایک انتہائی اہم دورے پر تھے میرپور جو آزادکشمیر کا صنعتی اور معاشی دل ہے اور آزادکشمیر کا سب سے بڑا پریس کلب رکھنے کا اعزاز بھی ہولڈ کرتاہے وہاں ایک انوکھا کارنامہ دیکھنے میں آیا کشمیر پریس کلب میرپور میں قائمقام وزیراعظم چوہدری محمد یٰسین جو آزادکشمیر کے سینئر وزیرہیں انہوں نے صدر کشمیر پریس کلب میرپور سید عابد حسین شاہ ،جنرل سیکرٹری سجاد جرال اور سابق صدور وجنرل سیکرٹریز کشمیر پریس کلب میرپور کی موجودگی میں تمام ممبران پریس کلب کو میرپور میں صحافی برادری کیلئے بننے والی آزادکشمیر کی تاریخ کی اب تک کی اکلوتی جرنلسٹس کالونی کے پلاٹس کے الاٹمنٹ لیٹرز تقسیم کیے راقم اس تقریب میں موجود تھا اور متعدد بار دانتوں تلے انگلیاں دبااور چبا کر اپنے ہوش وحواس میں ہونے کی تصدیق بھی کرتارہا کہ خدانخواستہ ہم کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے کہ آج مغلیہ دور حکومت اور ڈوگرہ شاہی کے بعد پہلی مرتبہ آزادکشمیر کی تاریخ میں یہ کارنامہ انجام دیاجارہاہے راقم نے اس تمام کارنامے کا سہرا اپنی ایک گزشتہ تحریر میں بھی موجودہ صدر پریس کلب سید عابد حسین شاہ ،جنرل سیکرٹری سجاد جرال اور ان کی تمام ٹیم کے سر باندھنے کی کوشش کی تھی لیکن کشمیر پریس کلب کے صدر سید عابدحسین شاہ نے اپنے صدارتی خطاب اور سپاسنامے میں انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کا کریڈٹ سابق وزراء اعظم سردار عتیق احمدخان ،راجہ فاروق حیدر خان ،موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور قائمقام وزیراعظم چوہدری یٰسین کو دے دیا یہ میڈیا ٹاؤن یا جرنلسٹس کالونی دورحاضر کی کسی کرامت سے کم نہیں ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ تمام ذمہ دار لوگ اب اس جرنلسٹس کالونی کو جلد از جلد انسانوں کی رہائش کے قابل جگہ بنانے کیلئے اپنا اپنا کردار اداکرکے تاریخ میں اپنا نام بہتر جگہ پر لکھوائیں گے بصور ت دیگر ہمارے ایک انتہائی عزیز او رمہربان دوست ڈاکٹر سی ایم حنیف اکثر یہ بات دوہرایا کرتے ہیں کہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرے کیلئے جو بھی کام کرسکتاہے وہ کردے ورنہ وہ کام کسی نہ کسی کے ہاتھوں ہوہی جانا ہے ہمیں امیدہے کہ موجودہ حکمران جرنلسٹس کالونی کے باقی ماندہ کام خودہی کروائیں گے اور اپنے پیش رو کو یہ سہرا اپنے سر نہیں سجانے دیں گے یہاں ہم کشمیر پریس کلب میرپور کے صدر سید عابد حسین شاہ ،جنرل سیکرٹری سجاد جرال ،سابق صدور وجنرل سیکرٹریز حافظ محمد مقصود ،صوفی محمدنذیر چوہدری ،محمد امین بٹ ،ارشد محمود بٹ ،محمد رمضان چغتائی ،خالد چوہدری ،سہراب خان ،سردار جمیل صادق ،ظہیر اعظم جرال سمیت سینئروجونیئر صحافیوں سابق پریس سیکرٹری صدر آزادکشمیر راجہ حبیب اﷲ خان ،چوہدری پرویز شہزاد ،خالد محمود انجم ،سردار عابد خان ،شہزاد ہ اقبال ،شجاع جرال ،رضوان اکرم ،خواجہ اقبال ،سجاد خانپوری ،سجاد بخاری اور تمام دوستوں کے مثبت کردار اور ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ڈالنے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری صحافی برادری جس کاہم خود بھی ایک حصہ بن چکے ہیں وہ وسیع تر مقاصد کے حصول میں چھوٹے موٹے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جدوجہد کرنا جاری رکھیں گے یہاں پر ہم حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ بھی کرتے ہیں اور امید بھی رکھتے ہیں کہ میرپور سے شروع ہونے والے جرنلسٹس کالونی کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر اضلاع میں بھی یہ کام کیاجائیگا تاکہ ’’قلم قبیلے ‘‘ سے تعلق رکھنے والے شریف النفس لکھاریوں اورصحافیوں کو اپنے جائز ترین زندہ رہنے کے حقوق حاصل کرنے کیلئے بقول عام آدمی ’’ سپر مین ،سپائیڈر مین ،ہالومین ،بلیک میلر یا بیگر ‘‘ نہیں بننا پڑے گا یہاں ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ صحافی برادری کیلئے ریاستی سطح پر صحت وتعلیم اور وفات کی صورت میں اہل خانہ کی کفالت کیلئے مناسب بندوبست کیاجانا ضروری ہے اس سلسلہ میں آزادکشمیر کی حکومت مغلیہ دور حکومت یا ڈوگرہ شاہی جس کسی سے راہنمائی حاصل کرنا چاہے کرسکتی ہے لیکن ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت میں ریاست مملکت میں رہنے والے ہر فرد کی کفیل ہوتی ہے یہاں ہم اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ عام طور پر دین کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہمارا معاشرہ اورہمارے گھرانے نالائق ترین افراد کو مدارس کے سپرد کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی کی دوڑ میں جو سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں ایسے لوگ محکمہ تعلیم کوملازمت کیلئے مناسب خیال کرتے ہیں کیا اسی منافقت کے نتیجہ میں ہمارا ملک آگ اور خون کانشانہ نہیں بن چکا اور منبر ومحراب سے بلند ہونے والی آوازوں میں اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت نہیں بن چکی اور اسی طرح کیا ہمارا نظام تعلیم علامہ اقبال کے اس شعر کی جھلک نہیں دکھارہا

میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

قارئین آئیے اب کالم کے آخری مختصر حصے کی جانب ۔گزشتہ دنوں ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ سیاحت کے حوالے سے ایک خصوصی مذاکرہ رکھا مذاکرے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آزادکشمیر کے سیکرٹری وڈی جی سیرا سردار رحیم خان نے کہا کہ آزادکشمیر سیاحت کے اعتبار سے دنیا کی موزوں ترین جگہ ہے لیکن افسوس کامقام ہے کہ اس انتہائی اہم شعبے کو آج تک ایک مناسب سربراہ نہیں مل سکا آزادکشمیر میں سیاحت کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ایسی شخصیت اس شعبے کی سربراہ بنے جو آزادکشمیر کے جغرافیہ سے بھی آگاہ ہو اور سیاحت سے جبلی طور پر رغبت بھی رکھتی ہو کاسمیٹک قسم کی تبدیلیوں اور تبادلوں سے آزادکشمیر کامحکمہ سیاحت کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا آزادکشمیر میں بدقسمتی سے لے دے کر صرف وادی نیلم کانام لیاجاتاہے حالانکہ میرپور میں منگلاجھیل کے کنارے موجود سینکڑوں سیاحتی مقامات اگر عالمی معیار کے مطابق ڈویلپ کیے جائیں تو آزادکشمیر کی حکومت بلامبالغہ ہر سال خطیر زرمبادلہ اس مد میں غیر ملکی سیاحوں سے کما سکتی ہے سردار رحیم خان نے کہا کہ آزادکشمیر میں ایک طرف تو لائن آف کنٹرول پر موجود تاریخی اعتبار سے اہمیت رکھنے والے قلعے موجود ہیں تو دوسری جانب پونچھ کے علاقے میں سدھن گلی ،دیوی گلی سمیت دیگر خوبصورت علاقے سیاحوں کی آمد کے منتظر ہیں وادی نیلم میں گزشتہ سال اور رواں سال لاکھوں سیاحوں کی آمد کی بنیادی وجہ صرف وہاں تک جانے والی سڑک کی مناسب تعمیر ہے آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں سیاحتی انفراسٹرکچر کو ترقی دے کر ہم اس شعبے سے بے پناہ وسائل پیدا کرسکتے ہیں پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے آزادکشمیر کی سیکرٹری سیاحت واطلاعات ڈاکٹر شہلا وقار نے کہا کہ محکمہ سیاحت کوشش کررہاہے کہ آزادکشمیر کے جنوبی اور شمالی علاقوں میں پائے جانے والے بے پناہ قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے لایاجائے اس سلسلہ میں جہاں وادی نیلم ،وادی جہلم ،تاؤ بٹ ،رتی گلی جھیل اور دیگر علاقوں میں مختلف ایونٹس کروائے جارہے ہیں وہیں پر میرپور میں منگلاجھیل کے کنارے موجود مواقع کو استعمال کرنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر واٹرسپورٹس کا منصوبہ زیر غور ہے ڈاکٹر شہلا نے کہاکہ حکومت آزادکشمیر اس سلسلہ میں عملی اقدامات اُٹھارہی ہے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے راہنما راجہ نوید اختر گوگا نے کہاکہ ہم انتہائی دیانتدار ی سے یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ مجاور حکومت وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کے ساتھی انتہائی بددیانت اورکرپٹ ہیں اس کے باوجود ہم میرپور میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ سیاحت کی ترقی اور بین الاقوامی کرکٹ کے مقابلوں کے انعقاد کیلئے میرپور میں پانچ تاروں والے ہوٹل کا ہونا بہت ضروری ہے ۔

قارئین صحافت اور سیاحت کے حسین امتراج پر مبنی آج کایہ کالم ہم یہیں پر ادھورا چھوڑ رہے ہیں اس امید پر کہ ان دونوں شعبوں پر کوئی نہ کوئی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح کی مناسب توجہ ضرور دے گا یہی فقیر کی آج کی صدا ہے

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
ایک اخبار کے مالک نے ایڈیٹر کے عہدے کیلئے انٹرویو دینے والے امیدوار سے پوچھا
’’ویسے تو آپ بڑے پڑھے لکھے ،قابل اورذمہ دار آدمی دکھائی دیتے ہیں لیکن میں کس طرح یقین کرلوں کہ آپ کامیابی سے میرا اخبار چلا لیں گے ‘‘
امیدوار نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا
’’ بالکل جناب سوفیصد چلا لوں گا کیونکہ آپ کے ہاں آنے سے پہلے میں اپنے مالک کی پچاس لاکھ کی گاڑی چلاتاتھا تو کیا آپ کاپانچ روپے کا اخبار نہیں چلاپاؤں گا ‘‘

قارئین بدقسمتی سے دین ،تعلیم ،صحافت اور سیاحت سمیت دیگر تمام شعبوں میں لائق ترین او راہل ترین لوگوں کی ضرورت نہ تو معاشرہ محسوس کررہاہے اور نہ ہی ریاست اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہے اصلاح احوال وقت کی آواز ہے -

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336956 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More