محترم امیر حکیم اللہ محسود صاحب!
آپ کے صحافیوں کے بارے میں جاری کردہ فتوے کے جواب میں چند گزارشات عرض
کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میرے ایک دیرینہ دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ طالبان
کو جواب دینا ایسا ہے کسی بھی وقت موت کا باعث بن سکتا ہے اس لئے صرف نوکری
کرو لیکن محترم امیر صاحب! آپ کے فتوی کے جواب میں اور تو کچھ نہیںکہہ سکتا
لیکن آپ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے 90 فیصد صحافیوں کے حالات زار سے آگاہ
کرنا چاہتا ہوں - محترم! دنیا بھر کا غم اور لوگوں کے مسائل بیان کرنے والے
صحافیوں کے بارے میں بتادوں تو یقینا آپ کو صحافیوں پر ترس بھی آئے آزاد
میڈیا کے اس دور میں ایسے اخبارات کے مالکان بھی ہیں جن کی تقریریں اور
باتیں اگر آپ سنے تو آپ خود کہ اٹھیں گے کہ ان کے دامن تو نماز پڑھنے کیلئے
ہیں لیکن ان کے کرتوت ایسے ہیں کہ انہی کی وجہ سے صحافی بدحالی کا شکار ہیں
نہ صحافی کے حالات کار ایسے ہیں کہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر آواز
اٹھائے نہ ہی کوئی ایسا فورم موجود ہے مسلسل چودہ اور اٹھارہ گھنٹے کی
ملازمت نے صحافی کو گدھا بنا دیا ہے ! امیر صاحب! انڈسٹریلائزیشن کے اس دور
میں صحافت بھی ایک انڈسٹری ہے لیکن یہ ایسی انڈسٹری ہے جو صرف مالکان کیلئے
ہے اس میں کام کرنے والے تمام افراد خواہ وہ فیلڈ میں ہیں یا دفتروں میں
کام کرنے والے قلم کے مزدور ہیں اور مزدور وہ کرتا ہے جس کی اسے تنخواہ
ملتی ہے اگر مزدور اس سے آگے پیچھے ہو اور ڈیوٹی سرانجام دے تو پھر اسے لات
مار کر نکال دیا جاتا ہے-
محترم امیر صاحب !علماء کرام نے صحافیوں کے بارے میں فتوی تو دیدیا ہے لیکن
ان مالکان کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے جو مزدوری کرنیوالے صحافیوں کا خون
نچوڑ رہے ہیں دس ہزار روپے کی تنخواہ وہ بھی تین سے چھ ماہ بعد ملتی ہے
اخبارات کے مالکان تو اربوں میں کھیل رہے ہیں لیکن صحافی کی اوقات بس اتنی
سی ہے کہ سالوں نوکری کرنے والے صحافیوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ کس وقت اسے
نوکری سے فارغ کردیا جائے اور فراغت کے بعد بھی اسے اپنے جرم کا پتہ نہیں
ہوتا- محترم امیر صاحب!آپ نے صحافیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ مغرب اور
سیکولرازم کا ساتھ دیتے ہیں بحیثیت صحافی اور بارہ سالہ صحافتی تجربے کے
بعد میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کے نام پر قائم اس مملکت میں
کم از کم صحافی نہ تو سیکولرازم کے حامی ہے اور نہ ہی مغربی استعمار کے
کیونکہ شکر الحمد اللہ ہمیں اللہ تعالی نے مکمل دین اسلام ہی دیا ہے حضرت
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امت کے کمزور ترین ایمان رکھنے
والوں میں صحافی بھی شامل ہیں لیکن کوئی بھی اس فانی دنیا کیلئے اپنی ابدی
زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا سو ہماری دعا ہے کہ اس مملکت پاکستان میں وہ
اسلامی نظام قائم ہو جس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ والہ وسلم نے رکھی تھی
اور اس کی ترویج کیلئے چاروں خلفائے راشدین نے کام کیا جس میں چور کی سزا
ہاتھ کاٹنا زانی کی سزا سنگسار کرنے کی تھی اور اس میں کسی کیساتھ رعایت
نہیں ہوتی تھی محترم ! صحافی بھی ایسا ہی اسلام چاہتے ہیں نہ کہ نام نہاد
مولویوں کی جانب سے اپنے مقاصد کیلئے استعمال ہونے والا اسلام جو صرف دنیا
کی خاطر اسلام جیسے مذہب کو بدنام کرتے ہیں -
محترم امیر صاحب!دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا ہے تو آپ کو بتادوں کہ کم
از کم 80 فیصد صحافی ایسے نام نہاد جمہوریت کے حق میں نہیں جس میں کمزور کو
مزید کمزور کیا جائے جمہوریت کی آڑ میں غریبوں کا خون چوسا جائے ایسی
جمہوریت سے سب کو نفرت ہے جس میں قوانین جاگیردار وڈیرے چودھری اور خوانین
اپنے مقاصد کیلئے بنائیں جمہوریت کی آڑ میں خدا کی قوانین کا مذاق اڑا یا
جائے ہاں کچھ لوگ جن میں ہماری ہی برادری کے افراد شامل ہیں ان کیلئے
جمہوریت کا ڈرامہ اچھا ہے کیونکہ یہ مخصوص خاندانوں اور پارٹیوںکے آلہ کار
بن کر عیاشی کررہے ہیںاور اس میں انہیں ہی فائدہ ہے اس لئے وہ جمہوریت
جمہوریت کی رٹ ہر جگہ پر لگاتے ہیں- محترم محسود صاحب ! آپ نے صحافیوں پر
فحاشی اور بے حیائی پھیلانے اور اس کی فروغ میں کردار ادا کرنے کابھی کہا
ہے لیکن ایک بات میں واضح کردوں کہ جس طرح ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں ایک
جیسی نہیں ہوتی اس طرح سب صحافی فحاشی اور بے حیائی کو فروغ نہیں دے رہے
ہاں ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بنیادی طور پر میراثی ہے اور جس طرح پشتو
مثل کے مطابق خون کا اپنا ہی اثر ہوتا ہے اس طرح اس شعبے میں صحافیوں کی آڑ
میں آنیوالے میراثی اپنا میراثی پن دکھاتے ہیں اس کیساتھ ساتھ ایک اور بات
کہ صحافت آئینہ ہے معاشرے میں ہونیوالی گندگی کو صحافی دکھاتے ہیں اگر قوم
کا مزاج ہی فحاشی کی جانب ہو تو پھر اس میں صحافیوں کا کوئی قصور نہیں-
جس طرح اسلام کی اپنی مرضی اور مقصد کیلئے تشریح کرنے والے قابل مذمت ہے
اسی طرح صحافی خواہ وہ کوئی بھی ہو قابل مذمت ہے کیونکہ دین محمدی صلی اللہ
والہ وسلم کسی شخصیت کیلئے نہیں بلکہ قیامت تک کیلئے اللہ تعالی نے مکمل
بنا کر بھیجا ہے اس میں کسی للو پنجو نتھو خیرے خواہ وہ آکسفورڈ کا پڑھا
لکھا ہو یا سوات کے کسی حصے کا ہو اسے کہنے کا کوئی حق حاصل ہی نہیں کیونکہ
اسلام اور اس کے احکامات اس رب کائنات کے احکامات ہیں جس کی طرف سب کو لوٹ
کرجانا ہے اور جہاں پر انسان سے لمحے اور لحظے کا حساب ہوگا-محترم محسو د
صاحب ! آپ نے فتوی میں صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ کسی کو
شہید اور کسی کو ہلاک لکھتے ہیں برا ماننے کی ضرورت نہیں لیکن یہ حقیقت اور
ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے اور یہ اللہ تعالی کا
فرمان ہے سو صحافی اگر کسی کو ہلاک یا شہید لکھے یا کہے تو اس سے اس شخص کو
فرق نہیں پڑتا جو اللہ کی راہ میں زندگی کی قربانی دے آیا ہو کیونکہ اس کا
بدلہ اسے اللہ تعالی نے دینا ہے نہ کہ دنیاوی حکمرانوں صحافیوں یا معاشرے
کے کسی شخص نے اور ہاں ایک اور بات کہ صحافی خواہ وہ اخبار کا ہو ٹی وی کا
ہو یا ریڈیو کا اور خصوصا خیبر پختونخواہ کا صحافی پشتو مثل کے مصداق ایک
طرف لاٹھی اور دوسری طرف شیرکا سامنا کررہے ہیں اور ہاتھیوں کی جنگ میں
چیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جاتا باقی آپ خود سمجھدار ہیں-
ایک اور آخری بات جو میں اس خط کے آخر میں کرنا چاہتا ہوں آپ نے خود کہا ہے
کہ بازاروں اور معصوم لوگوں کو آپ لوگ نشانہ نہیں بناتے اور کئی مرتبہ یہ
بات سامنے آئی ہے کہ بہت ساری غیر ملکی ایجنسیاں اور جرائم پیشہ طالبان کے
نام اور ان کی آڑ میں اپنا کام نکال لیتے ہیں تو کیا آپ کی یہ ذمہ داری
نہیں کہ ایسے واقعات کی تحقیقات کرے کہ کون دہشت گردی کررہا ہے اور اسلام
کو بدنام کرنے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ ملک جتنا کسی عام شخص کسی صحافی
کسی عالم کسی حکمران کا ہے اتنا ہی آپ کا بھی ہے اور ملک سے محبت اور اس کی
حفاظت ایمان کا حصہ ہے- سو اس پر بھی سوچئیے!
والسلام ایک بے وقعت صحافی |