کراچی کی شان وشوکت میں
پتھروں سے بنی خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے
ماضی کی شان و شوکت ہمیشہ دل کو لبھاتی ہے۔ شہروں کی عمارتیں اور کھنڈرات
اس تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جو اس دور کا طرہ امتیاز تھی۔ تہزیب جب زوال
پزیر ہو تو تاریخ کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ایسے شہروں کا
ذکر ہے کہ جن کے کھنڈرات ان کے ماضی کی شان و شوکت بیان کرتے نظر آتے ہیں،
اور ان کے ویرانوں میں ماضی کے سایہ حرکت کرنے اور ماحول کو پراسرار بناتے
ہوئے، تخیلات کو کہیں سے کہیں پہنچاتے ہیں، لیکن تمام شہر اپنی تہذیبوں
کیساتھ گمنامی میں نہیں چلے جاتے، کراچی کا شمار بھی ان تاریخی شہروں میں
ہوتا ہے۔ جو اپنے ماضی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں اس کی عظمت رفتہ کی
داستانیں ان تاریخی عمارتوں میں نظر آتی ہیں۔ جنہیں امتداد زمانے نے
کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں
میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں
قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ کہا جاتا
ہے کہ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستیوں میں سے ایک
کا نام کولاچی جو گوٹھ تھا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و
ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد
منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں
ہوئی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات
میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں
سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد،
اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر
مرونٹوبارا (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا
سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور باربریکون، جوکہ ہندوستانی
یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عرب اس علاقہ کو
بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی
فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند
علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔
1772ء میں گاؤں کولاچی جو گوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی
بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا
شروع ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی
اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں دو
دروازے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو کھارادر
(سندھی میں کھارو در) کہا جاتا اور دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف
تھا اور اس لیے اس کو میٹھادر (سندھی میں مٹھو در) کہا جاتا تھا۔1795ء تک
کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات
کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ کراچی
کی ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو اس شہر کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں
کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔
1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک
کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے
ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر
کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔
ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔
کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880
کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔
1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407
تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز
تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت دہلی بنا تو کراچی سے
گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت
دی گئی تو کراچی کو اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔
1947 میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی
آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی
تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دارالحکومت
کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی
پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ ابھی کراچی میں
ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز
کی شکل میں ابھر رہا ہے۔
کراچی کی شان وشوکت میں صدر، کنٹونمنٹ، کلفٹن ، بندر روڈ پر پتھروں سے بنی
خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے۔ اس شہر کی تاریخی شان و شوکت کی گواہی دیتی
یہ عمارتیں آج زبوں حالی اور یاس کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔ ، ستائیس دسمبر
2009 کو ہونے والے بم دھماکے کے بعد بندر روڈ کی اکثر تاریخی عمارتوں کو
جلا دیا گیا۔ شہر میں بہت سی عمارتیں منہدم ہوکر نئے پلازے اور شاپنگ سنٹر
میں تبدیل ہورہی ہیں۔ تاریخی آثار مٹ رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخی
عمارت سے لے کر ٹاور تک کی سڑک جو کبھی بندر روڈ کہلاتی تھی ( جسے بعد میں
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا) پر ایسی کئی
عمارتیں تھیں جنہیں وقت کی دیمک تو کھوکھلا نہیں کرسکی لیکن یہ تخریب کاری
، پیشے کی ہوس، اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تباہ برباد ہورہی ہیں۔
مشہور گانا بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رہے گھوڑا گاڑی میں ان عمارتوں کا
خوبصورت انداز میں تعارف کرایا گیا تھا۔ کبھی اس مصروف ترین سڑک پر یہاں
ٹرامیں چلتیں تھیں اور زندگی انتہائی پرسکون گزرتی تھی۔لیکن بدلتے حالات نے
کراچی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ دھواں، دھول، کچرے کے ڈھیر اور ٹریفک کے
اژدھام میں شہر کا پرانا حصہ گھٹن کا شکار ہے۔
یاسمین لاری ماہرِ تعمیرات ہیں اور کراچی کی قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ
تعمیر سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری
دلچسپی رکھنے والی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری نے کراچی کے ثقافتی ورثہ کو
بچانے کے لئے طویل جہدوجہد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیسنو ہال کے پورے بلاک
میں بارہ عمارتیں ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ان میں سے پانچ کو قومی
ورثہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ان کے مطابق انگریز اس علاقے کو نیٹیو ٹاؤن یا
بلیک ٹاؤن کہتے تھے، اٹھارہ سو تینتالس میں بندر روڈ بنایا گیا تو اس کے
بعد قدیم شہر بڑھنا شروع ہوا اور اس علاقے کا نام مارکیٹ کوارٹر رکھا
گیا۔یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ’اس علاقے میں جو عمارتیں ہیں وہ شہر کی سب
سے قدیم عمارتیں ہیں ان کی اپنی ایک شناخت ہے، اگر یہ انگریز دور حکومت کی
بھی ہیں تو کیا ہوا تعمیر تو یہاں کے لوگوں نے کی ہیں‘۔ حکومت سندھ نے 129/
تا ریخی مقامات حکومت سندھ کے حوالے کیے ہیں جن کی دیکھ بھال کے لیے حکومت
سندھ ایک بورڈ آف مینجمنٹ تشکیل دیا ہے۔
شائد یہی سوچ تھی کہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے کراچی کی مزید 1061/ نجی
اور سرکاری عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ محکمہ ثقافت نے جو فہرست
جاری کی ہے اس میں کراچی جیم خانہ، عائشہ باوانی اسکول، میٹروپول ہوٹل، پرل
کانٹی نیٹل ہوٹل، بمبئی ہوٹل (کینٹ اسٹیشن)، پی آئی ڈی سی ہاؤس، کیپری
سنیما، پرنس سنیما، نشاط سنیما، سیفی ہوٹل، نگار سنیما، الفا ریسٹورنٹ،
لوٹیا بلڈنگ، جاگیردار ہوٹل، مینی والا اسکول، سیونتھ ڈے اسپتال، ہولی
فیملی اسپتال، ایف ٹی سی ہال شارع فیصل، سندھ میڈیکل کالج، جناح اسپتال،
ہاکی کلب، بلوچ آفیسرز میس، فوارہ چوک (گورنر ہاؤس)، تین تلوار (کلفٹن) اور
دیگر اہم اور قیمتی عمارتیں شامل ہیں۔ سندھ حکومت کا کلچر ڈیپارٹمنٹ رولز
آف بزنس مجریہ 1986کے مطابق کلچر ڈیپارٹمنٹ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ
ثقافتی ورثے کی عمارتوں کا تحفظ اور نگہداشت کرے جہاں تک ثقافتی ورثے کی
عمارتوں کو فہرست میں رکھنے اور فہرست سے نکالنے کی بات ہے یہ سندھ ثقافتی
ورثہ (تحفظ) ایکٹ مجریہ 1994ء کی دفعہ 3کے تحت ہے اور اس سلسلے میں حکومت
سندھ میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ مشاورتی کمیٹی حمید ہارون،
ڈاکٹرکلیم اﷲ لاشاری (تاریخ دان) عارف حسین آرکیٹیکٹ اور مس انیلہ نعیم
آرکیٹیکٹ پر مشتمل ہے۔ حکومت سندھ کے اعلامیے میں اس بات کی بھی وضاحت کی
گئی ہے کہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک 1061 بلڈنگوں کے مالکان
اور کسٹوڈین اور عام پبلک اپنے اعتراضات حتمی فیصلے سے پہلے کلچر ڈیپارٹمنٹ
میں داخل کراسکتے ہیں۔
کراچی میں بہت سی پرانی اور تاریخی عمارات خطرناک بھی ہوگئی ہیں۔ مدت سے ان
کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہے۔ تجاوزات نے بھی انھیں تباہی سے دوچار کیا
ہے۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے
سال 2008 ء میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں شہر کی مختلف قدیم اور
مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی
سی اے) کی ٹیکنیکل کمیٹی نے جن 157 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا۔ ان میں
’’محفوظ ورثہ‘‘ کی 22 عمارتیں بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں صدر ٹاؤن میں واقع
ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں 182 پرائمری 69 سیکنڈری اور 30
ایلیمنٹری اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستگی کے باعث حادثات کے خطرے سے دوچار
ہوسکتی ہیں۔دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کومحفوظ بنانے پرکافی توجہ دی جاتی
ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند میں تباہی کا سب سے زیادہ نشانہ ثقافتی
ورثے کو بنایا گیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی تاریخی ورثہ تباہی سے دوچار ہے،
موہنجو ڈارو اب برباد ہوچکا ہے۔ اس کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
کراچی میں بھی یہی صورتحال ہے، کراچی کے دلچسپ مقامات میں ، نئے اور پرانے
سب لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان میں مزار قائد۔ بابائے قوم محمد علی جناح
کی آخری آرام گاہ ،مسجد طوبٰی۔ واحد گنبد کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد،آئی
آئی چندریگر روڈ۔ پاکستان کی وال اسٹریٹ،آغا خان یونیورسٹی ہسپتال،ساحل
کراچی ، ڈی ایچ اے مرینا کلب ،منوڑہ کا ساحل،کلفٹن اور جہانگیر کوٹھاڑی
پیریڈ،سی ویو، کلفٹن،ڈی ایچ اے مرینا کلب،ہاکس بے،پیراڈائز پوائنٹ،سینڈز پٹ
پوائنٹ،فرنچ بیچ،رشین بیچ،پورٹ فاؤنٹین۔ 600 فٹ بلند فوارہ،زمزمہ تجارتی
مرکز۔ اپنے بوتیک اور کیفے کے کے لئے مشہور ہے۔
عبداﷲ شاہ غازی کا مزار،عجائب گھرپاکستان ایئر فورس میوزیم،قومی عجائب
گھر،میری ٹائم میوزیم،موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر،کراچی
ایکسپو سینٹر،برطانوی راج کے دور کی عمارات ایمپریس مارکیٹمیری ویدر
ٹاور،فریئر ہال،خالقدینا ہال،جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ،گورنر ہاؤس،سینٹ پیٹرکس
کیتھیڈرل،سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)،ہندو
جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے)،ایمپریس
مارکیٹ،سندھ کلب،جزائرکلفٹن آئسٹر روکس،منوڑہ،بنڈل،بھٹ شاہ،باغات بن قاسم
پارک (سابق کلفٹن پارک)،سفاری پارک (یونیورسٹی روڈ)،الہ دین پارک (راشد
منہاس روڈ)،سند باد،کراچی چڑیا گھر (گاندھی گارڈن)،سی ویو پارک،عزیز بھٹی
پارک،عسکری پارک پرانی سبزی منڈی پارک (یونیورسٹی روڈ)،ہل پارک،کشتزار
(فارم ہاؤسز)°ولیج گارڈن،میمن فارم ہاؤس،ڈریم ورلڈ ریزورٹ،ریس کورس،ایوان
عکس،(سینیما)کیپری سینما،نشاط سینما،پرنس سینما،یونیورس سنیپلیکس
(کلفٹن)،ہندو جمخانہ جیسے مقامات شامل ہیں۔ کراچی کے چند اہم تاریخی اور
قومی ورثہ کے حامل مقامات میں چند یہ ہیں۔ ہائی کورٹ کی عمارت، سندھ اسمبلی
بلڈنگ، ان میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت کو ثقافتی ورثے کا درجہ
دیا جاچکا ہے۔ کراچی کا قدیم ہوٹل ہوٹل میٹروپول بھی ان ہی تاریخی عمارتوں
میں شامل ہے۔ جسے اب قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہوٹل اب ملبے کا ڈھیر
ہے۔ ہوٹل کے ترجمان امتیاز مغل کا شکوہ بھی یہی ہے کہ جب ہوٹل ٹھیک تھا تو
قومی ورثے میں نہیں لیا گیا اب توڑ پھوڑ کے بعد میدان بن گیا ہے تو اسے
قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی ہوٹل کے سامنے لوٹیا بلڈنگ ہے۔ جو پرائیوٹ
پراپرٹی ہے۔ اس سے چند قدم آگے سندھ کلب کی عمارت ہے۔ جہاں انگریز دور میں
لکھا ہوتا تھا کہ یہاں کتوں اور کالے آدمیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں کراچی
میں سب سے پہلے بجلی لائی گئی تھی۔ اس سے آگے فریئر ہال ہے۔
فرئیر ہال
برطانوی راج کے دوران کی طرز تعمیر کی ایک مثال ہے ۔ یہ سر ہنری بارٹل
ایڈورڈ فرئیر کے اعزاز میں بنایا گیا تھا 1815-1884 میں سر بارٹل نے کراچی
کی اقتصادی ترقی میں اہ کردار ادا کیا تھا۔ اس عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ
اسی ہزار روپے خرچ ہوئے۔ حکومت نے اس میں صرف دس ہزار روپے دئے۔ جبکہ باقی
رقم کراچی میونسپلٹی نے خرچ کی۔برطانوی دور میں یہ ٹاون ہال کے طور پر
استعمال ہوتا تھا۔ ۔ اس عمارت کی بے حد شاندار بات یہ ہے کہ اسکی چھت کو
مشہور مصور صادقین نے اپنی مصوری کے شاہکاروں سے سجایا ہے اور اسکی
خوبصورتی کو صرف دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنی خوبصورت ہے کہ بہت
دیر تک سر اٹھائے رکھنے پہ بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ یہاں ہر اتوار کو پرانی
کتابوں کا میلہ بھی سجایا جاتا ہے۔
ہندو جمخانہ
ہندو جمخانہ مغل انداز تعمیر کی یہ خوبصورت عمارت آرٹس کونسل کے مقابل ہے۔
یہ کراچی کی پہلی پبلک عمارت تھی۔ ہندو جِمخانہ کی عمارت انیس سو پچیس میں
تعمیر ہوئی، جو مغل طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل شہر کا
ہندو امراء کا طبقہ اس میں سماجی سرگرمیاں منعقد کیا کرتا تھا، اس عمارت کی
تعمیر کے لئے سیٹھ رام گوپال نے رقم فراہم کی تھی۔ اس عمارت کا نقشہ ایک
مسلمان آرکیٹیکچر آغا احمد حسن نے بنایا تھا۔ عمارت مخدوش ہونے کی وجہ سے
1984 میں اسے منہدم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آج کل یہاں نیشنل اکیڈمی آف
پرفارمنگ آرٹس قائم ہے۔ یہ ادارہ گائیکی، اداکاری اور ڈانس کی تربیت فراہم
کرتا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی ہدایت پر سن دوہزار پانچ میں سندھ کے
محکمہ سیاحت اور ثفاقت آرٹس اکیڈمی شروع کرنے کے لیے کراچی کی تاریخی عمارت
ہندو جِمخانہ معروف اداکار اور صداکار ضیاء محی الدین کے حوالے کر دی تھی۔
اس دور میں اس عمارت میں تاریخی نوعیت کے سامان کو بے دردی سے حیدرآباد کے
میوزیم میں منتقل کیا گیا ۔ اس عمارت میں ضیا محی الدین نے ’ناپا‘ کی بنیاد
رکھی۔ اکیڈمی کا افتتاح بھی سابق صدر مشرف نے کیا تھا۔
این ای ڈی یونیورسٹی
این ای ڈی یونیورسٹی کی پرانی عمارت ڈی جے کا لج کے سامنے ہے۔ اس ادارے کا
قیام انیس سو بائیس میں عمل میں آیا جب پرنس آف ویلز کے کراچی کے دورے کے
موقع پر کراچی کے شہریوں نے عطیات جمع کر کے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔اس وقت
اس کا نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ یہ اس وقت صوبہ سندھ کا واحد
انجینئرنگ کالج تھا۔انیس سو چوبیس میں اس کا نام اس وقت کی معروف سماجی
شخصیت نادر شاہ ادولجی ڈنشا کی پہلی برسی کے موقع پر ان کے خاندان کی جانب
سے بہت خطیر رقم بطور امداد ملنے کے بعد اس کا نام نادر شاہ ادولجی ڈنشا
انجینئرنگ کالج رکھ دیاگیا۔ اس وقت اس کالج کا الحاق بمبئی یونیورسٹی سے
تھا۔ انیسو سینتالیس میں قیامِ پاکستان کے بعد اس کا انتظام سندھ حکومت نے
سنبھال لیا اور اس کا الحاق سندھ یونیورسٹی سے کر دیاگیا۔انیس سو اکاون میں
جامعہ کراچی کے قیام کے بعد اس کا الحاق جامعہ کراچی سے کردیاگیا جو انیس
سو ستتر تک جاری رہا۔انیسو ستتر میں اسے باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دے
دیاگیا۔
عبداﷲ شاہ غازی کا مزار
کراچی کے ساحل پر نیلے رنگ سے بنی ہوئی ایک خوبصورت ہے۔ یہ دراصل مشہور
بزرگ حضرت عبداﷲ شاہ غازی کا مزار ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ
بزرگ سن 720 ہجری میں مدینے سے براستہ کوفہ سندھ میں تشریف لائے اور یہاں
کے رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کی۔ کراچی میں یہ ایک قدیم مزار شمار ہوتا
ہے۔
مزار قائد اعظم"۔
کراچی کے عین وسط میں سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بنی ہوئی یہ عمارت پاکستان
کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ عمارت کو 1960 سے
1970 کے درمیان میں تعمیر کی گئی۔ اسکا ڈیزائن مشہور پاکستانی آرکیٹیکچر
"یحییٰ مرچنٹ" نے بنایا تھا۔یہ مقبرہ 75 فٹ چوڑے ایک چوکور چبوترے پر قائم
ہے۔ اس مقبرے کی اْنچائی تقریبا 43 ہے۔ اس کے اردگرد ایک وسیع و عریض باغ
ہے۔
سوامی نارائن مندر
کراچی میں مندروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سندھ اور خاص طور سے کراچی میں
صدیوں پرانی ہندوانہ طرز تعمیر رکھنے والی عمارات آج بھی موجود ہیں۔ سوامی
نارائن مندر طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سالوں پرانی روایات کا امین
ہے۔ بندر روڑ اور فرئیرروڈ کراچی کے درمیان واقع سوامی نارائن مندر شہر کا
قدیم ثقافتی ورثہ ہے۔سوامی نارائن مندر یا سری نرائن مندر کا سن تعمیر
1882ء بتایا جاتا ہے۔ اس کا طرز تعمیر آریہ اسٹائل کا ہے۔ اگرچہ رقبے کے
لحاظ سے یہ کوئی بہت بڑا مندر نہیں تاہم اس کی تعمیر کے لئے پیلے رنگ کا
جنگ شاہی اور چونے کا پتھر خصوصی طور پر کراچی لایا گیا تھا۔ مندر اس دور
کے مخصوص طرز تعمیر کے مطابق گنبد اور شکارا پر مشتمل ہے۔ شکارا سے مراد
مصری پیرامڈ نما چھت ہے جو نیچے سے اوپر جاتے ہوئے پتلی سے پتلی ہوتی چلی
جاتی ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران اس میں سو سے دو سو ناجائز تجاوزات قائم
ہوگئی ہیں جن میں رہائشی مکانات سرفہرست ہیں۔
نشاط سینما
حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے کراچی کی مزید جن 1061/ نجی اور سرکاری
عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ اس فہرست میں کیپری سینما، نشاط
سینما اور پرنس سینما بھی شامل ہیں۔ سنیما انڈسٹری کے بْرے حالات تو ایک
عرصے سے ہیں ۔ لیکن اس کا اثر کراچی پر یہ پڑا کہ آہستہ آہستہ یہاں کے تما
م سینما جو تاریخی ورثہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ختم ہوگئے۔
بندر روڈ ( اب ایم اے جناح روڈ) پر واقع نشاط سنیما کا کراچی کے سنیما
گھروں میں ایک منفرد مقام ہے۔ ایک تو یہ 1948 سے قائم ہے اور اس لحاظ سے یہ
کراچی اور پاکستان کا سب سے پرانا سنیما گھر تھا ۔دوسرے اس کا افتتاح
قائداعظم کی بہن مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ نشاط میں پہلی
فلم ’ ڈولی‘ دکھائی گئی۔ اْس وقت یہ سنیما کراچی کے مشہور پارسی بزنس مین
گوڈریج کانڈاوالا کی ملکیت تھا۔ 1988ء میں نشاط پاکستان کا پہلا سنیما گھر
تھا جس نے سٹیریو ساؤنڈ کی ٹیکنالوجی اپنائی۔
مہتا پلیس
کلفٹن جاتے ہوئے ایک خوبصورت عمارت نظر آتی ہے۔ یہ مہتا پیلیس ہے۔ جو 1927
میں سیورتن چندرا مہتہ نے اپنی گرمیاں گزارنے کے لئے بنوایا تھا۔ اس عمارت
کو بھی اس زمانے کے مشہور معمار آغا احمد حسن نے ڈیزائین کیا تھا۔ اس کی
تعمیر میں راجھستانی پتھر، اور جودھپور کا گلابی پتھر استعما ل کیا گیا۔
مغل طرز تعمیر کی یہ عمارت اٹھارہ ہزار پانچ سو مربع گز پر تعمیر کی گئی۔
اس میں ایک میل لمبی ایک سرنگ بھی ہے جو مندر تک جاتی ہے۔ اس عمارت پر
بھوتوں کے راج کے قصے بھی مشہور ہیں۔ تقسیم کے بعد حکومت پاکستان نے اس
عمارت کو منسٹری آف فارن افئیرز کے لئے خرید لیا۔ 1964 میں محترمہ فاطمہ
جناح یہاں منتقل ہوگئی اور انھوں نے یہاں سے ایوب خان کے مقابلے میں تاریخی
صدارتی الیکشن لڑا۔ 1960 میں اس کا نام قصر فاطمہ جناح رکھ دیا گیا ۔محترمہ
فا طمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی بہن شیریں جناح یہاں رہنے لگیں۔ ان کے
انتقال کے بعد اس عمارت کو سیل کردیا گیا۔1995 میں حکومت سندھ نے اس عمارت
کو خرید لیا اور میوزیم بنا دیا ۔ 1999 یہ عمارت میوزیم کا درجہ رکھتی ہے۔
’’مہتا پیلس میوزیم‘‘ کی تزئین و آرائش اور نئی گیلریز کی تعمیر کیلئے
وفاقی حکومت فنڈز فراہم کررہی ہے۔ مالی سال 2009-10کے دوران وفاقی حکومت نے
ڈھائی کروڑ روپے جبکہ سندھ حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے فراہم کئے۔
خالق دینا ہال
کراچی کی تاریخی عمارتوں میں اس کا شمار ہے۔ اس کا پورا نام غلام حسین خالق
دینا ہال ہے۔ ای عمارت لائیبریری کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ 1921 انگریزوں
نے خلافت موومنٹ میں حصہ لینے پر مولانا محمد علی جوہر ، اور مولانا شوکت
علی پر غداری کا مقدمہ اسی عمارت میں چلایا تھا۔ اور اسے ایک عدالت کی
حیثیت دے دی تھی۔ یہ عمارت بندر روڈ پر واقع ہے۔
وزیر مینشن
قائد اعظم کی جائے پیدائش کی حیثیت سے تاریخی اہمیت رکھنے والی یہ عمارت
کھارادر میں واقع ہے۔ یہاں قائد اعظم کے والد جناح پونجا 1874سے 1900 تک
کرائے پر رہے تھے۔ دومنزلہ اس عمارت کو میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔ قومی
ورثہ کی یہ عمارت خستہ حالی کا شکار ہے۔ 2008 میں اس کی آرائش اور تزئین کی
گئی تھی۔
ہولی ٹرینٹی چرچ
اس چرچ کا ایک نام گریژن چرچ بھی ہے۔ یہ 1852-1855 میں تعمیر کیا گیا۔
کیپٹن جان ہل نے اس کا ڈیزائن بنایا
ویلس برج
کراچی کا سب سے قدیم برج ہے۔ جو کینٹ اسٹیشن کے ساتھ ہے۔ اس برج کو اس وقت
تعمیر کیا گیا تھا ۔ جب کراچی میں ریل کی آمد ورفت شروع ہوئی۔ اس برج کے
ساتھ سٹی اسٹیشن کا بھی پرانا نام میکلوڈ اشٹیشن تھا۔ جو جان میکلوڈ ڈپٹی
کلکٹر کسٹم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس سڑک کا نام بھی میکلوڈ روڈ ہے۔ جسے
اب آئی آئی چندریگر روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ویلس برج 1850 میں قائم
ہوا تھا۔ یہاں پیجاب سے گندم لایا جاتا تھا ۔ اور پھر ہندوستان لیجایا جاتا
تھا۔
ڈینسو ہال
شہر کے قدیم علاقے میں بندر روڈ پر قائم ڈینسو ہال اب ایک بس اسٹاپ کے طور
پر پہچانا جاتا ہے۔ تالپور دور میں کراچی ایک چھوٹا سا ساحلی شہر تھا۔ جسے
انگریزوں نے وسعت دی اور ایک بڑی بندگاہ بنائی۔انگریز نے میونسپلٹی کی بناد
رکھی تو شہر میں لائیبریریاں قائم کی جہاں صرف انگریز اور ان کے خاندان کے
افراد کو داخلے کے حقوق تھے۔ ڈینسو ہال 1886 میں تعمیر کیا گیا، اور یہاں
کراچی کے شہریوں کے لئے پہلی لائیبری قائم کی گئی2010 میں اس عمارت کو
ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا۔
فری میسن لاج
کراچی پریس کلب سے آتے ہوئے پی آئی اے کے دفتر کے سامنے اور وائی ایم سی اے
سے متصل یہ عمارت برطا نوی راج میں 1914 میں تعمیر کی گئی۔ یہ عمارت فری
میسن ٹرسٹ نے بنائی تھی اور یہاں فری میسن سوسائٹی کے اجلاس ہوتے تھے۔ عام
لوگ جو اس زامنے میں انگریزی سے نا واقف تھے۔ وہ اس عمارت کو جادو گھر کہتے
تھے۔1972 میں بھٹو دور میں فری میسن تحریک پر پابندی لگا دی گئی۔ 1990 میں
اس عمارت کو سندھ وائلڈ لائف کو دے دی گئی۔ 2001 میں اسے ثقافتی ورثہ قرار
دیا گیا۔ اس عمارت کو بھی میوزیم بنانے کا منصوبہ ہے۔ برصغیر کی ممتاز ادیب
و ناول نگار قراۃ العین حیدر بھی اس عمارت بہت دنوں تک اپنا دفتر بنائے رہی
ہیں۔ |