محلوں میں رہ کر جھونپڑی
نشینوں کے مسائل پر بات کرنا اور ان کا حل بتانا ہمارے لیڈران کے لئے ایک
اچھا مشغلہ بن چکا ہے۔ وہ جب محلوں سے نکلیں گے، غریب عوام کی زندگی کا
نزدیک سے مشاہدہ کریں گے، ان کے دُکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تب
انہیں پتہ چلے گا کہ غربت کس چڑیا کا نام ہے اور ملک کے غریب عوام مہنگائی
کا بوجھ کس طرح ڈھو رہے ہیں۔ ہمارے لیڈران محلوں میں رہتے ہیں، ان کے دن
رات عیش و عشرت میں گزرتے ہیں۔ عالی شان سواریوں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے
کتوں پر روزانہ ہزاروں روپئے خرچ ہوتے ہیں۔ انہیں ایک عام آدمی کی زندگی کے
حالات کیا پتہ ہوں گے۔ اقتدار پر رہ کر من مانی باتیں کرنے کی انہیں عادت
سی ہو گئی ہے۔ ایسے ہی لیڈروں کے لئے کسی شاعر نے کہا تھا
تو ہے سورج تجھے معلوم ہی کیا رات کا دُکھ……
آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی دن بہ دن غریب عوام کی کمر توڑتی چلی جا رہی
ہے۔ قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ لوگ بھوکوں مرنے کے دَر پہ
ہیں۔ حکومتوں کی فلاحی ، انقلابی، اور دیگر اسکیمیں صرف کاغذ پر خوشنما
دکھائی دے رہی ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی فکر ہی نہیں رہی۔ پانچ سال میں ایک
مرتبہ انہیں غریب عوام یاد آتے ہیں۔ جھوٹے سچے وعدے کرتے ہوئے اور ہتھیلیوں
میں جنت دکھا کر ووٹ لینا، اقتدار حاصل کرنا اور ووٹروں کو بھول جانا ان کا
شیوہ بن چکا ہے۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ غریب عوام کو مہنگائی اور دیگر
لوازمات کا کڑوی گولی نگلنا پڑے گا۔غریب دن بہ دن غریب اور امیر ہر دن اپنی
دولت کو بڑھاتے ہی جا رہے ہیں۔ چاہے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر کم ہو،
سونے کی قیمت میں ہر روز اضافہ ہو، شیئر مارکیٹ میں اُچھال آئے یا مندی اس
سے امیروں کو کوئی نقصان ہونے والا نہیں، کیونکہ ہر دولت مند اتنی دولت
اکٹھا کر چکا ہے کہ اسے یہ تبدیلیاں متاثر کر ہی نہیں سکتیں۔ ہاں اس تمام
چکر میں صرف غریب ہی متاثر ہوتا ہے اور ایسا متاثر ہوتا ہے کہ اسے سنبھلنے
کے لئے بھی موقع نہیں ملتا۔
آج پاکستان کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری بھی سَر اٹھائے ہوئے ہے۔
نوجوان نوکریوں کے لئے در بدر بھٹک رہے ہیں۔ اوّل تو نوکری ہے نہیں اور اگر
کہیں کوئی نوکری کا اشتہار اخبار کی زینت بن جاتا ہے تو اس ایک نوکری کے
پیچھے ہزاروں نوجوان دوڑ پڑتے ہیں۔ جب ہمارے ملک کا نوجوان وہاں نوکری کے
لئے جاتا ہے تو تجربہ مانگا جاتا ہے۔ اگر نوکری ملے گی تو تجربہ بھی ہوگا،
ماں کے پیٹ سے کسی کو تجربے کی بھٹی تو نہیں ملتی جناب! ملک میں نوکری
ناپید ہو کر رہ گئی ہے اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو وہ سیاسی کارکنوں
کو ہی ملتی ہے۔ اور ووٹ ڈال کر جتوانے والے نوجوان روزگار سے محروم نظر آتے
ہیں۔ ماں باپ اس مہنگائی کے دور میں کس طرح اپنی اولادوں کو تعلیم کے زیور
سے آراستہ کرتے ہیں یہ دکھ بھی ماں باپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر
ان کی اولادوں کو نوکری نہ ملے تو یہ ملک کے نوجوانوں کی حق تلفی ہی تصور
کی جائے گی۔شاعر سے معذرت کے ساتھ:
وقت نوجوانوں پر خراب آیا خوب
ان کا سایہ ہوا پرایا خوب
نوکری کا دم نکل گیا ورنہ
آندھیوں میں تعلیم کا دیا جلایا خوب
ایک اور مسئلے کی طرف رُخ کرتے ہیں یہاں بھی ارباب کے کان چوکنے ہو جائیں
تو بہتری کی صورت نکلے گی۔اور وہ مسئلہ ہے ادویہ کے بارے میں! دواؤں کی
قیمتوں میں آج کل جس تیزی سے اور من مانے طریقے سے اضافہ ہو رہا ہے اس کو
دیکھتے ہوئے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بہت جلد غریب عوام کے استعمال میں
آنے والی ادویہ بھی ان کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائیں گی، سب سے زیادہ
افسوسناک بات یہ ہے کہ ناداروں اور مفلوک الحال عوام پر کئے جا رہے اس ظلم
و ستم کا مرکزی و صوبائی حکومت کو ذرا بھی احسان نہیں رہا۔ دوائیں بنانے
والی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مرضی سے قیمتیں جب چاہتی ہیں بڑا دیتی ہیں۔
جو بخار کا سیرپ بیس روپئے کا ملا کرتا تھا آج اس کی قیمت پچپن روپئے کر
دیا گیا ہے۔ ایک معمولی ٹیبلٹ کی قیمت دو روپئے تھے آج اس کی قیمت بیس
روپئے سے کم نہیں۔ عوام کی پہنچ میں جو چھوٹی موٹی دوائیں تھیں ان کی قیمت
میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے جو عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی
جا رہی ہے۔ یعنی کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دواؤں کی خریداری بھی عوام کے
لئے ایک مسئلے سے کم نہیں ہے۔
ویسے بھی مہنگائی بڑھے یا بے روزگاری میں اضافہ ہو ۔ جرائم ان ہی دونوں
مسئلے کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔ ایک دور تھا جب آپ شہر کی سڑکوں پر رات کے دو
بجے بھی نکلیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا سوائے چند پولیس والوں کے ،
مگر انہیں بھی کاغذات چیک کروا کر آپ سکون سے گھر کی راہ لے سکتے تھے۔ مگر
آج کا دور اُس دور سے قدرے مختلف ہے۔ آج آپ اوّل تو رات کو دو بجے خود ہی
گھر سے نکلنے پر راضی نہیں ہونگے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے نکل بھی گئے
تو واپس اُسی حالت میں آپ کا گھر پہنچنا ناممکن ہے۔ یا تو آپ اپنی جیب کی
صفائی کروائیں گے یا موبائل چھیننے والے آپ کا موبائل صاف کر دیں گے غرض کہ
آپ لُٹ پُٹ کر ہی گھر پہنچیں گے۔ پہلے نوجوان لڑکے بجلی کے کھمبوں کے نیچے
روشن لائیٹ تلے پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے تھے آج بے روزگاری کی وجہ سے ایسے
ہی نوجوان لڑکے جرائم کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ مہنگائی بڑھی
تو جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا اور شہرِ قائد کا حسن تہہ و بالا ہو
گیا۔ اگر ہمارے ملک کے قابلِ قدر سیاستدان اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے
نعرے لگانے والے ارباب فی الوقت بے روزگاری، مہنگائی جیسے لعنت سے عوام کو
نجات دلا دیں تو یہ قوم انہیں سَر آنکھوں میں بٹھانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
کیونکہ قلیل آمدنی اور بے روزگار لوگ سبھی پریشان حال ہیں کہ جائیں تو آخر
جائیں کہاں؟
پاکستان اس وقت کئی طرح کے مسائل کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ جن میں
سرِفہرست بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ حالانکہ اس کے علاوہ بھی کئی مسائل
ہیں جن میں دہشت گردی، نشانہ وار قتل، بھتہ مافیا، اغواء برائے تاوان جیسے
جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ مگر فی الوقت بے روزگار ی اور مہنگائی پر قابو
پانا حکومت کے لئے بے حد ضروری ہے کہ جس سے براہِ راست غریب عوام نبرد آزما
ہیں۔ محترم افتخار عارف صاحب کے اس شعر کے ساتھ اختتامِ کلام کرتا ہوں کہ:
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے |