پاکستان میں سٹروک سوسائٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے
مطابق ملک میں فالج سے روزانہ کم از کم چار سو افراد کی موت واقع ہو جاتی
ہے۔
پاکستان سٹروک سوسائٹی نے صرف ہسپتالوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر
یہ اعداد و شمار مرتب کیے ہیں۔
|
|
پاکستان سٹروک سوسائٹی کے سابق صدر اور آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے مرض کی تفصیل بی بی سی کو بتاتے ہوئے کہا کہ
شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر
فالج کا حملہ ہوتا ہے اور ایک صحت مند انسان فوری طور پر مفلوج ہو کر بستر
سے لگ جاتا ہے۔
اس مرض کے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا اور خصوصاً پاکستان میں معذور افراد میں
سب سے زیادہ تعداد فالج سے متاثرہ افراد کی ہے جبکہ دنیا بھر میں ہر دس
سیکنڈ میں ایک فرد اس کا مرض کا شکار ہوتا ہے۔
نامہ نگار محمود جان بابر کے مطابق اس مرض اور اس سے منسلک مسائل پر کام
کرنے والی پاکستان سٹروک سوسائٹی کے مطابق اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد
فوری موت سے بچ جانے والے افراد میں سے تقریباً بیس سے چالیس فی صد کی تین
ماہ کے دوران موت واقع ہو جاتی ہے۔
|
|
پروفیسر محمد واسع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس بیماری کی بڑی وجوہات میں
بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر، مرغن خوراک، سگریٹ نوشی اور تمباکو سے
تیار کردہ مواد خصوصاً گٹکا شامل ہے۔
’مشینی دور میں جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک
جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ لوگ گھی کا استعمال بھی کرتے ہیں جو اس بیماری کی وجوہات میں
شامل ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا’حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عوام تو ایک طرف پاکستان
میں بہت سارے ڈاکٹر بھی اس بیماری کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں اور جب
وہ خود آگاہ نہیں ہوں گے تو وہ کیسے اس کا اچھا علاج کر سکیں گے‘۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ نمک، سگریٹ نوشی اور جامد طرز زندگی کو ترک کر کے
اور ورزش کی عادت سے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا ہے کہ ان کی سوسائٹی ملک کے بیس شہروں میں ایک
ہزار ڈاکٹروں کو اگلے سال تربیت دیں گے تاکہ اس بیماری کا منظم مقابلہ کیا
جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ بڑے شہروں میں بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے
اور صرف کراچی میں روزانہ فالج سے متاثرہ تین سے چار سو مریض ہسپتالوں میں
لائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال شفا انٹرنیشنل کے شعبۂ اعصابی امراض کے
سربراہ ڈاکٹر ارسلان احمد کہتے ہیں کہ زیادہ تر بڑے شہروں کے لوگ ہی
ہسپتالوں میں پہنچ پاتے ہیں اور چھوٹے شہروں کے لوگ فالج ہونے پر دیسی دوا
خانوں اور دیسی ٹوٹکوں کا سہارا لیتے ہیں۔ |