ڈالر کی اونچی اڑان حکومت پریشان وجہ کیا ؟

کسی زمانے میں ڈالر کی قیمت اور روپے کی قیمت میں کوئی خاص فرق نہ تھا مگر نوئے کی دہائی کے بعد تو ڈالر کو جیسے پر ہی لگ گے ہوں موجودہ دور میں ڈالر کی قدر میں اضافہ اس تیزی سے ہوا ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے خود حیران اور پریشان ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ ایسے ہی سابق دور حکومت میں ہوا تھاجب ڈالر نے ایک اونچی اڑان بھری تھی اور اس پر حکومت کو ایکشن لینا پڑا تھا اور ملک کے کئی کرنسی کا کوروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور قوم کو ایک امید دلائی گئی تھی کہ اب کی بار ڈالر میں اضافہ کر کے منافع کمانے والے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ بااثر لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر آرام سے بری ہو کر پہلے سے زیادہ معزز بن گے لیکن اب موجودہ حکومت کو ایک بار پھر انھی حالات کا سامنا ہے کیونکہ ڈالر اپنی اڑان کو اونچا سے اونچا کرتا جا رہا ہے لیکن حکومت بلکل بے بس ہے دوسرے لفظوں میں حکومت کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے کیونکہ ڈالر کی قدر میں غیر متوقع اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضے میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومتی مالیاتی اداروں کی طرف سے طے شدہ ملکی بجٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی جو اس بات کا جائزہ لینے کے لئے ہے کہ وہ پتا چلایا جائے کہ آخر ایسا کیونکر ہو رہا ہے جس کام کو بہت دن پہلے ہو جانا تھا حکومت نے بہت دیر کر دی ہے کمیٹی کے جائزے کے بعد یہ عجیب انکشاف ہواہے کہ پاکستان سے تقریباً 25 ملین ڈالر یومیہ ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کے راستے بیرون ملک سمگل ہو رہے ہیں یہ غیر ملکی زرمبادلہ بیشتر بریف کیسوں میں منتقل کیا جاتا ہے جو کہ حکومتی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے اور حکومت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے گورنر سٹیٹ بینک بھی روپے کی قدر میں حالیہ تحفیف کی سب سے بڑی وجہ یہی بتاتے ہیں ا سٹیٹ بینک ایف آئی اے کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کر رہا ہے تا کہ ان سوٹ کیسوں اور بریف کیسوں کی تلاشی لے سکے جو ڈالر کی سمگلنگ کا باعث بنتے ہیں شاید اسطرح زرمبادلہ کی سمگلنگ کے راستے بند کیے جا سکیں سٹیٹ بینک نے یہ چونکا دینے والا انکشاف اس وقت کیا جب امور خزانہ کی قائمہ کمیٹی نے ان سے دریافت کیا کہ حکومت روپے میں لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ سرمایہ کا غیر قانونی فرار غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا باعث بنتاہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو ا ایک تخمینے کے مطابق اس سے قبل ڈالر کی سمگلنگ 5 سے 10 ملین ڈالر یومیہ تھی جو اب ماہانہ 750 ملین ڈالر یا 9 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے گویا سمگل ہونے والے زرمبادلہ کی مالیت آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے کی رقم سے بھی کہیں زیادہ ہے یاد رہے کہ ایک تین سالہ بیل آؤٹ پیکیج کے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے 6.7 بلین ڈالر بطور قرض حاصل کرے گاجس کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کی پاسداری بھی کرنی پڑے گی کالے دھندے سے حاصل ہونے والے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس میں منشیات کی تجارت سب سے اہم ہے اس کے لئے سرمایے کی کمی منشیات کے دھندے سے حاصل شدہ روپے سے پوری کی جاتی ہیں منشیات فروش یور پ کو منشیات کی سمگلنگ کے لیے دالبدین، ایران ، ترکی روٹ استعمال کر تے ہیں اور ملک میں نقدی، اشیائے تعیش اور اسلحہ سمگل کر تے ہیں ان سے حاصل ہونے والی رقم کو بلیک مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو کالے دھن کو سفید کرنا چاہتے ہیں روپے سے ڈالر خرید کر دبئی کے راستے محفوظ مقامات پر بھجوا دیتے ہیں اس سارے کاروبار میں ہوائی اڈوں پر تعینات اہلکار بھی ملوث ہوتے ہیں جو اس کام کی منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق یہ رقم اتنی بڑی ہوتی ہے جو اپنی سروس پوری کرنے پر حکومت کی طرف سے ان کو دی جاتی ہے ایسی رقم وہ کسی ایک کام سے ہی کما لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان اہلکاروں کی کروڑوں کی جائیداد بن چکی ہوتی ہے جب وہ ان محکموں کو خیر اباد کہہ رہے ہوتے ہیں اس کی کئی مثالیں آئے دن میڈیا کی ذینت بنتی رہتی ہیں مگر ان پر کوئی چیک ایند بیلنس نہیں ہے کہ جو ان اہلکاروں کو چیک کر سکے کہ ان کے یہ اثاثے کہاں سے بنے ہیں۔وہ تمام لوگ جو اپنے کاروبار کا حساب نہیں رکھتے اور ٹیکس ادا نہیں کرتے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ بیرون ملک رکھنا محفوظ تصور کرتے ہیں زرمبادلہ کی کمی اور روپے کی قیمت میں تشویشناک تحفیف پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف رقم بھیجنے والے سے اس کے حصول کا ذریعہ آمدن دریافت کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے اس پر ٹیکس بھی ادا کیا ہے یا نہیں اگر حکومت ڈالر کی اس غیر متوقع اڑان کو روکنا چاہتی ہے تو تو اس کے لئے ملکی ہوائی اڈوں کی کڑی نگرانی کا نظام بنائے اور ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے باہر لے جانے کا مؤثر سدباب کیا جائے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے اس وقت برآمدات سے 25 بلین ڈالر اور زرمبادلہ کی ترسیلات کی صورت میں 14 ملین ڈالر سالانہ موصول ہو رہے ہیں جبکہ درآمدات کا بل 44 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ ملکی معیشت کے لئے خطرناک ہے اس فرق کو سٹیٹ بینک کے محفوظ ذخائر سے پورا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے زخائر بہت تیزی سے کم ہوتے ہیں زرمبادلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری سے روپے کی قیمت میں مسلسل کمی اور افراط زر کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی ایسی لہر آتی ہے جس کو وکنا خود حکومت کے بس میں نہیں ہوتا یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ڈالر ایک اونچی اڑان لے رہا ہے جس سے ملکی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206787 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More