ٹائی اور ٹوپی

میری فلائیٹ دوبئی کی تھی میری ساتھ والی نشست پر ایک درمیانی عمر کا گورا چٹاشخص بیٹھا تھا اس نے میرا حال احوال پوچھا اور میں نے اس کا، اس نے اپنا نام آرنلڈ بتلایا، وہ اصلاً جرمن تھا مگر گزشتہ آٹھ سال سے انگلینڈ میں مقیم تھا، اس نے بتلایا وہ پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ مجھے اس کی اردو پر حیرت ہو رہی تھی میں نے پوچھا آپ نے اردو کہاں سے سیکھی ہے؟ وہ مسکرا کر بولا میں تین سال پاکستان میں رہا ہوں ، میری بیوی بچے بھی اردو بول لیتے ہیں،میری بیوی کو سیاحت کا شوق ہے اس نے پورے پاکستان کا وزٹ کیا ہے اس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ آرنلڈ سے مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی ،گفتگو کرتے کرتے آخر ہم مذہب پر آگئے،مذہب کے موضوع پر ہماری گفتگو تقریباً دوگھنٹے جاری رہی، دوران گفتگو آرنلڈ نے مجھ سے پوچھا آپ ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟ میں نے آرنلڈ سے کہا آپ کے اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے لیکن میں یہ جواب ذرا بعد میں دوں گا پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں، میرا سوال ہے آپ ٹائی کیوں پہنتے ہیں؟ سوال سن کر آرنلڈ نے پہلے اپنی ٹائی اور پھر میری طرف دیکھا اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے اثرات نمایاں تھے جنہیں وہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا، یہ ٹائی یہ دراصل ہمارے لباس کا حصہ ہے اور یہ خوبصورت بھی تو لگتی ہے، میں نے کہا آپ کو خوبصورت لگتی ہو گی ہمیں تو بالکل اچھی نہیں لگتی بلکہ ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان اپنے گلے میں پٹہ کیوں ڈال لیتا ہے حالانکہ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں الٹا نقصان ہے، اگر آپ لوگ ایک غیر مفید بلکہ نقصان دہ چیز کو محض اس بنا پر پہنتے ہیں کہ وہ آپ کے لباس کا حصہ ہے تو پھر آپ خود ہی بتائیں ہماری ٹوپی پر آپ کا اعتراض بلا جواز ہے یا نہیں؟ٹائی کے بارے میں میری بہت سے لوگوں سے گفتگو ہوئی ہے لیکن آج تک کوئی شخص بھی مجھے ٹائی کا کوئی ایک فائدہ بھی نہیں بتلا سکا، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں ٹائی انتہائی نقصان دہ چیز ہے، میں نے دیکھا ہے لڑائی جھگڑے کے دوران لوگ ٹائی پکڑ کر کھینچتے ہیں اور گلے میں پڑا یہ پھندا نقصان کا سبب بن جاتا ہے،کئی واقعات ہیں کہ سکول میں ایک بچے نے دوسرے بچے کی ٹائی پکڑ کر کھینچی جس سے بچے کا سانس رک گیا اور اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ دوسری طرف ٹوپی کا جہاں تک معاملہ ہے تو مذہب اور ثقافت سے ہٹ کر بھی اگر دیکھا جائے تو اس کے کئی فوائد ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں سردیوں میں سر کو گرم رکھنا چاہیے،ٹوپی سے یہ مقصد خود بخود حاصل ہو جاتا ہے اسی طرح سخت گرمی میں بھی سر کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے، یہ مقصد بھی ٹوپی سے حاصل ہو جاتا ہے، پھر انسان کے جسم کے وہ حصے جو ننگے ہوتے ہیں مثلاً ہاتھ ، چہرہ اور پاؤں وغیرہ تو ان پر مٹی وغیرہ پڑ جاتی ہے۔ چہرے ، ہاتھ اور پاؤں کو تو ہم دن میں کئی دفعہ دھو سکتے ہیں مگر سر تو بار بار دھونا مشکل کام ہے لہٰذا اگر سر پر ٹوپی ہو گی تو یقیناً گر د وغیرہ سے حفاظت ہو گی اور سر گندا نہیں ہو گا۔ آرنلڈ بڑی توجہ سے میری بات سن رہا تھا، میں نے کہا اگر آپ غور کریں توٹوپی عظمت اور شان کی علامت ہے، پرانے زمانے میں بادشاہ تاج پہنتے تھے، آج کے زمانے میں فوج اور پولیس والے ٹوپی کو ایک اعزاز سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، آج تک کسی نے فوج پر اعتراض کیا ہے نہ پولیس پر، آخر کیا وجہ ہے کہ یہی ٹوپی جب کوئی مسلمان استعمال کرتا ہے تو اس پر لوگ اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ اب تو مسلمانوں پر تنقید کرنا فیشن بن گیا ہے۔یہ رویہ بہت افسوسناک ہے، آپ دیکھیں اگر کوئی شخص مونچھیں رکھے تو اس پر کسی کو نہ صرف یہ کہ کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ اسے داد دی جاتی ہے اور اگر مونچھیں زیادہ بڑی ہوں تو بعض دفعہ انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے، لیکن کوئی شخص داڑھی رکھ لیتا ہے تو اس پر اعتراض شروع ہو جاتا ہے کچھ لوگ استہزاء کے طور پر داڑھی والوں کو صوفی کہتے ہیں۔ اگر جواباً انہیں ’’مُچھلو‘‘ کہا جائے تو انہیں بڑا برا لگتا ہے۔
آج مغرب ہمارے ہر عمل اور ہر بات پر اعتراض کرتا ہے ہمارا مذہب ، ہماری ثقافت ، ہماری معاشرت ، ہماری تعلیم غرض ہر ہر چیز پر مغرب کو اعتراض ہے۔ وہ چاہتے ہم لوگ اپنا مذہب ، اپنی ثقافت اور اپنی معاشرت چھوڑ کر ان کا مذہب ، ان کی ثقافت اور معاشرت اختیار کر لیں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم بنیاد پرست ہیں اور بنیاد پرست ہونا گویاکہ ایک جرم ہے۔ مغرب چاہتا ہے اگر ہم ان جیسے نہیں ہو سکتے تو پھر کم از کم درجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زبانیں بند رکھیں ، قرآن کو غلافوں میں لپیٹ کر صندوق میں رکھ دیں ، احادیث پر عمل کرنا چھوڑ دیں ، صحابہ کرام کی زندگیوں کا تذکرہ نہ کریں اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ دہشت گرد ہو گا اور وہ مغرب کا دشمن ہو گا۔لہٰذا آج جو مسلمان اپنے مذہب ، ثقافت ، معاشرت ، قرآن ، حدیث ، خدا ، رسول اور صحابہ کی بات کرتے ہیں وہ دہشت گرد اور مغرب کے دشمن ہیں۔ مسٹر آرنلڈ آپ بتائیں کیا مغرب کا یہ رویہ درست ہے؟آرنلڈ کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا وہ خاموش رہا، میں نے کہا مغرب انسانی آزادی اور حقوق کی بات کرتا ہے لیکن کوئی عورت پردہ کرنا چاہے تو اس کا حق عورت کو کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس پر آرنلڈ نے کہا وہ دراصل برقعہ جو ہے اس سے سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس لئے۔ میں نے کہا برقعے سے سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو دوپٹے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے آپ کو برقعے پر اعتراض ہوا ، پھر چادر پر ، پھر دوپٹے پر اس کے بعد آپ کو باپردہ کپڑے پہننے پر اعتراض ہو گا اور آپ کا یہ اعتراض اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان عورتیں اور بچیاں ہاف شرٹ اور جینز نہ پہن لیں ۔ آپ سیکورٹی کی بات کررہے ہیں لیکن آپ کے ہاں اکثر لوگ اوور کوٹ پہنتے ہیں، اس کے نیچے بھی بہت کچھ چھپایا جا سکتا ہے مگر آپ نے کبھی اوور کوٹ پر تو اعتراض نہیں کیا۔ آرنلڈنے کہا ہاں یہ تو ہے،دیکھیں مسٹر آرنلڈ ہم مسلمان مغرب کے کہنے پر اپنا سب کچھ چھوڑ نہیں سکتے۔ آپ ٹائی پہننا اعزاز سمجھتے ہیں ہم ٹوپی پہننے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ ٹوپی اور پگڑی ہمارے لباس کا حصہ ہے۔ الحمد اﷲ ہمارے مدارس کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی اسے اعزاز سمجھتا ہے۔ یورپ کے بچے کو ٹائی سے محبت ہے تو ہمارے بچے ٹوپی اور پگڑی سے محبت کرتے ہیں جس طرح کوئی بادشاہ! اپنا تاج نہیں چھوڑ سکتا ہے جیسے کوئی جرنیل اپنی کیپ پر کمپرومائز نہیں کر سکتا ، اسی طرح ہم مسلماں اور ہمارے بچے پگڑی اور ٹوپی پہ سودے بازی نہیں کر سکتے۔ آرنلڈ نے میری باتوں سے اتفاق کیا ،آج کل وہ اس موضوع پر کتاب لکھ رہا ہے جس میں اس نے یہ سارا واقع بھی نقل کیا ہے۔

Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.