انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(ICC) کرکٹ کی انتظامیہ کا نام ہے۔
جو 1909ء میں برطانیہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے نمائندگان کی طرف سے
امپیرئیل کرکٹ کانفرنس کے نام سے شروع کی گئی۔ 1965ء میں اس کا نام تبدیل
کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس رکھا گیا پھر 1989ء میں اس کا نام دوبارہ
تبدیل کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل رکھ دیاگیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے 101 ارکان ہیں۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ارکان کو
تین گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فل رکن (ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے
ممالک)ایسوسی ایٹ رکن اور افیلی ایٹ رکن جن میں سے 10 ارکان وہ ہیں جو ٹیسٹ
کرکٹ کھیلتے ہیں ان کو فل ارکان کا نام دیا گیا ہے۔ 33 ارکان ایسوسی ایٹ
ارکان اور 58 افیلی ایٹ ارکان ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہر قسم کے کرکٹ کے
ٹورنامنٹ یا مقابلوں کو ترتیب دیتی ہے۔کرکٹ قوانین بنانے کا فرض بھی آئی سی
سی کا ہے۔کرکٹ میں کرپشن ، بال ٹمپرنگ اور دوسرے ایسے واقعات جن سے کرکٹ کو
نقصان پہنچتا ہوں ان پر سزا دینے کا حق بھی آئی سی سی کوحاصل ہے۔
کرکٹ میں کرپشن کا سب سے پہلے جو کیس سا منے آیا وہ بال ٹمپرنگ کا تھا ۔
کرکٹ کی تاریخ میں بال ٹمپرنگ کا تنازعہ پہلی بار 1976 میں سامنے آیاجب جان
لیور نامی کھلاڑی نے گیند پر ویز لین کریم لگائی۔ 1994میں جنوبی افریقہ کے
خلاف میچ کے دوران برطانوی کپتان مائیکل اتھرٹن کو جیب سے مٹی نکال کر گیند
پر لگاتے ہوئے پکڑے جانے پر 2ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا۔1990کی ہی دہائی
میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی طرف سے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ریورس
سوئنگ کی سمجھ نہ آنے پر پاکستان کے خلاف بال ٹمپرنگ کے الزامات عائد کئے
گئے۔ 2000میں سری لنکا کے خلاف میچ کے دوران پاکستانی باؤلر وقار یونس کو
بال ٹمپرنگ کے جرم میں ایک میچ کھیلنے سے معطل کردیا گیا۔ اسی میچ میں بال
ٹمپرنگ کے الزام میں ہی اظہر محمود کو بھی جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔
2003میں پاکستانی باؤلر شعیب اختر کا بھی بال ٹمپرنگ کے الزام میں دو میچوں
سے باہر کردیا گیا۔اس سے قبل بھی شعیب اختر پر یہ الزام عائد ہوچکا
تھا۔2001میں جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران
میچ فکسنگ کے الزام میں بھارتی کرکٹ سٹار سچن ٹنڈولکر پر امپائر نے ایک میچ
کی پابند ی عائد کردی۔2006میں انگلینڈ میں اوول ٹیسٹ کے دوران پاکستانی
باؤلر وں پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد ہوا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے
پاکستانی کپتان انضمام الحق نے ٹیم کو گراؤنڈ سے باہر بلوا لیا۔یہ اپنی
نوعیت کا انوکھا میچ تھا جس میں کسی کپتان کی طرف سے میچ مکمل کرنے سے
انکار کردیا گیا۔اس میچ کا پہلے تو انگلینڈ کو فاتح قرار دیدیا گیا۔ بعد
ازاں میچ کو برابر قرار دیدیا گیا۔
2010میں انگلینڈ کے باؤلر سٹیورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن پر جنوبی افریقہ کے
خلاف تیسرے ٹیسٹ میں بال ٹمپرنگ کا الزام عائد ہوا لیکن ثابت نہ کیا
جاسکا۔2010میں ہی آسٹریلیا کے خلاف T20میچ کے دوران پاکستانی کپتان شاہد
آفریدی پر میچ بال ٹمپرنگ کا الزام عائد ہوا اور ان پر دو میچوں کی پابندی
عائد کی گئی۔2012میں سری لنکا کے خلاف میچ کے دوران آسٹریلوی کھلاڑی پیٹر
سڈل پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد ہوا جسے بعد ازاں آئی سی سی نے کلئیر
کردیا۔اور اب 2013میں پاکستان کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز چائے کے
وقفے کے بعد جنوبی افریقہ کے باؤلر ڈوپلیسی کو بال ٹمپر کرتے ہوئے پایا گیا
ہے۔جس کو کوئی سزا نہیں دی گئی بس پلنٹی کے پانچ رنز دیکر ٹرخا دیا گیا۔
آئی سی سی بنانے کا مطلب یہی تھا کہ کرکٹ کے میدان میں ہونے والے اختلافات
کو باہمی مشاورت سے حل کیا جائے۔ کسی بھی ملک سے یا کھلاڑیوں سے ہونے والی
ناانصافی کا ازالہ کیا جاسکے۔مگراب یہ آئی سی سی وہ آئی سی سی نہیں رہی جس
کی ضرورت تمام ملکوں کو تھی۔ اب اس پر چندملکوں کی حکومت ہے جو اپنی من
منشا کے مطابق حکومت کررہے ہیں۔آئی سی سی پر اس وقت سب سے زیادہ بھارت
نوازگوروں کا اثرورسوخ ہے۔ان لوگوں کی پلاننگ کی وجہ سے پاکستان میں
انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے ابھی تک بند ہیں۔پاکستان کے حالات پہلے سے بہت
بہتر ہوگئے ہیں مگر پاکستان مخالف لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں دوبارہ سے
کرکٹ کے دروازے کھلیں۔
آئی سی سی کا اصلی چہرہ حالیہ جنوبی افریقہ پاکستان سیریز میں کھل کر سامنے
آگیا۔ کیمرے کی آنکھ نے وہ کچھ دکھا دیا جس کی گورے توقع بھی نہیں کررہے
تھے۔ایمپائرز نے بھی سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری ایکشن لیکر
بال تبدیل کردی مگر صدقے جاؤں ان گوروں کے جن کے دل اتنے کالے ہیں کہ بیان
نہیں کرسکتا۔ جو کچھ کیمرے نے دیکھا ان سب کو جھٹلا کر اپنی مرضی سے
ڈوپلیسی کا معاف کردیا۔اگریہ ہی کام کسی پاکستانی کھلاڑی نے کیا ہوتا
توگوروں نے ان کے خلاف پروپگنڈاکرکے ان کو سخت سے سخت سزا دلواتے۔
بال ٹمپرنگ میں آئی سی سی کا رویہ سب سے سخت پاکستان کے ساتھ رہا ہے۔ جوئے
میں ملوث ہونے کی سزا بھی زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ملی ہے۔ کیا ان جرائم
میں دوسرے ملکوں کے کھلاڑی ملوث ہونے کے باوجود پارسا ہوتے ہیں کہ آئی سی
سی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتی یایہ آئی سی سی کا دوہرا معیار ہے؟ آئی سی
سی اور اقوام متحدہ دونوں اس وقت پاکستان مخالف قوتوں کا ساتھ دے رہی ہے
جبکہ اس میں تمام ملکوں کی نمائندگی ہوتی ہے مگر یہ دونوں ادارے گوروں اور
ہندوؤں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دوٹوک بات
کرنی چاہیے ۔’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ کے مترادف پی سی بی کو
اپنے حق کی خاطر بولڈ سے بولڈ فیصلے کرنا ہونگے ورنہ پاکستان مخالف قوتیں
نہ تو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ شروع کرنے دیں گے اور نہ ہی پاکستان
پلئیرز کو کھل کرکھیلنے دیں گے۔ اگر آئی سی سی پاکستان کی بات نہیں سنتا
اور ان کوانکا حق نہیں دیتا تو پھر ایسی کونسل کا ممبر ہونے کا کیا
فائدہ؟بے عزتی کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ |