کوئی زمانہ تھا کہ پاکستان اپنی
ہاکی اور کرکٹ کی وجہ سے پہنچانا جاتا تھا اور ان دونوں کھیلوں میں پاکستان
کا کوئی ثانی نہیں تھا،ان دونوں کھیلوں میں اس نے نامور کھلاڑیوں کو پیدا
کیا جنہوں نے اپنی کارکردگی سے دنیا کو متاثر کیا لیکن اب یہ حال ہے کہ
پاکستان ورلڈ کپ ہاکی کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکا۔یہ چار بار ہاکی ورلڈ
کپ چیمپین ٹیم کے لیے شرم کا مقام ہے کچھ اسطر ح کا حال پاکستانی کرکٹ کا
بھی ہو رہا ہے۔
پاکستان نے دنیاِ کرکٹ میں بہترین کھلاڑی متعارف کرائے جنہوں نے اپ
کارکردگی کی وجہ سے نام بنایااور کئی ریکارڈ اپنے نام کیے۔پاکستانی کرکٹرز
دنیاِ کرکٹ کی بہت سی چیزوں کے موجد ہیں مثلاَ ریورس سوئنگ،گگلی ،تیسراوغیرہ۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بہت بری رہی ہے اور نہ
ہی یہ ٹیم کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکی ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے
اپنے آخری 16ایک روزہ میچوں میں سے صرف 6جیتے ہیں جب کہ اس 9کومیچوں میں
شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک میچ ٹائی رہا۔اسی طرح اس نے آخری 9ٹیسٹ
میچز میں سے صرف 3 میں کامیابی حاصل کی جبکہ 6 میں شکست ہوئی۔گزشتہ ڈھائی
برس سے پاکستانی بیٹنگ لائن نے ایک روزہ میچز میں ڈھائی سو کا ہندسہ عبور
نہیں کیا۔آخری دفعہ اس نے 2011میں نیوزی لینڈ کے خلاف268اسکور کیا بس وہ دن
اور آج تک انہوں نے ڈائی سو کا ہندسہ عبور نہیں کیا۔رنز کا تعقب کرتے ہوئے
کبھی 150کا ٹارگٹ بھی پاکستانی ٹیم کو پہاڑ جیسا لگتا ہے۔
گویا پاکستانی بیٹسمینوں کو کریز پر رکنے کے بجائے پویلین لوٹنے کی زیادہ
جلدی ہوی ہے۔گزشتہ 75ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں پاکستانی بیٹسمینوں نے
صرف سات سینچریاں سکور کیں جبکہ انڈین اور آسٹریلین بیٹسمینوں نے
بالترتیب79اور74ایک روزہ میچوں میں 31اور 22سینچریاں سکور کیں۔پاکستانی ٹیم
کے تو کیا کہنے۔۔۔۔یہ تو زمبابوے جیسے کمزور حریف سے بھی ہار جاتا ہے۔
پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے لیے مختص ہیڈ کوچ ڈیو وا ٹمور ماہانہ 16لاکھ روپے
لے رہے ہیں جبکہ فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین بھی لاکھوں کے حساب سے تنخواہ لے
رہے ہیں۔لیکن ابھی تک پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اور فیلڈنگ میں کوئی بہتری
نہیں آئی ہے اگر یہ لوگ اتنا پیسہ لینے کے باوجود پاکستانی کرکٹ میں بہتری
نہیں لارہے ہیں تو انکوفی الفور اپنے عہدوں سے فارغ کر دینا چاہیے اور اُن
کی جگہ کارآمد کوچز کو ڈھونڈ کر یہ ذمہ داری سونپ دینی چاہیے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تباہی کی ایک اور وجہ اس کے ڈومیسٹک لیول پر کوالٹی
کرکٹ کا نہ ہونا ہے اور نہ ہی ڈومیسٹک لیول پر ایسی پیچز بنائی جاتی ہیں جو
انٹر نیشنل لیول کی پیچز کا موازنہ کر سکیں اور ایسی پیچز تیار نہ کرنے سے
کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل لیول پر کرکٹ کھیلتے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
اور وہ بہتر نتائج نہیں دے پاتے ہیں۔
اب یہ ذمہ داری ارباب اختیار کی ہے کہ وہ پاکستانی کرکٹ کی بہتری کے لیے
اقدامات کرے اور ساتھ ہی اپنے ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنائے تا کہ پاکستانی
کرکٹ ٹیم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے اور دم توڑتی پاکستانی
کرکٹ مضبوط ہو سکے۔ |