مضاربے کے نام پر دھوکہ

میں دوپہر کے وقت انتہائی ضروری کا م سے نکل رہاتھا کہ ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج نے میرے پورے وجود کو ساکت کردیا میں کوشش کے باوجود بھی ٹی وی کے آگے سے نہ اٹھ سکا اور کرسی پر بیٹھ گیا میں چند لمحوں میں تین ماہ پیچھے پہنچ گیا جب جون کی چلچلاتی دھوپ میں آفس سے نکل کر کچھ دیر آرام کی غرض سے گھر پہنچا میرے گھر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی جب میں دروازے پر پہنچا تو سامنے میرا دوست کھڑا تھا جو ایک ہفتے سے مسلسل ملاقات کا اصرار کررہاتھا تاہم ذاتی مصروفیت کے باعث اس سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی اس نے مجھے دیکھتے ہی فورا ساتھ چلنے کی درخواست کی جس پر میں بادل نخواستہ اس کے ساتھ چل دیا راستے میں منزل کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایاکہ مسجد میں نماز پڑھنی ہے اور اس کے بعد مفتی صاحب سے ملاقات کرنی ہے میں نے مفتی صاحب سے ملاقات کا ایجنڈا پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ نماز کے بعد سب پتہ چل جائے گا مسجد میں پہنچنے کے بعد ہم نے نماز عصر اداکی جس کے بعد وہ مجھے ساتھ لے کر مفتی صاحب کے کمرے میں چلا گیا مفتی صاحب نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا مفتی صاحب کے اردگرد کچھ دیگر لوگ بھی تشریف فرماتھے جن سے حساب کتاب کے بعد مفتی صاحب ہماری طرف متوجہ ہوئے تو میرے دوست نے ان سے میرا تعارف کرایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے بزنس کے متعلق سمجھائیں مفتی صاحب نے تین سے چار منٹ میں اسلامی نقطہ نظرسے مضاربہ پر روشنی ڈالی جس کے بعد میرے ذہن میں مختلف سوالات گردش کررہے تھے جن کے متعلق میں مفتی صاحب سے جاننا چاہتا تھا تاہم میرے سوالات سے قبل ہی میرے دوست نے مفتی صاحب سے اجازت لی اور مجھے ساتھ لے کر باہر آگیا واپسی پر میں نے دوست سے مفتی صاحب کی گفتگو کے متعلق استفسار کیا توا س کا جواب انتہائی معصومانہ تھا اس نے مجھے اس طرح کی گفتگو سے روکتے ہوئے کہاکہ یہ علمائے کرام کی بے ادبی ہے وہ مفتی صاحب کے متعلق کوئی بھی بات سننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ ان سے اندھی عقیدت کرتاتھا یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں تھا مجھ سمیت ملک کے کروڑوں باسی مسجد اور امام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں اور امام مسجد پر اندھا اعتماد کرتے ہیں
مفتی صاحب کی گفتگو سے میرے اندربے چینی تھی میں شینل ،ٹائنز ،تاج کمپنی ،سائٹ ٹاک سمیت دیگر کمپنیوں کے فراڈ سے متاثرہ درجنوں چہروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا جنہوں نے راتوں رات امیر بننے کی خاطر لاکھوں روپے لٹادیے تاہم یہ معاملہ ان سے یکسرمختلف تھا کیونکہ اس مرتبہ شینل ،سائٹ ٹاک کے بجائے اسلام کا لبادہ اوڑھا گیا تھا میں سوچ رہاتھا کہ مسجد ومنبر وہ جگہ ہے جن سے لوگوں کا رشتہ بہت گہرا ہے لوگ دینی معاملات کے ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی مشاورت کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں اور مسجد کے امام سے مشاورت کے بعد اس کی رائے کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں مضاربہ کے نام پر شروع کیے جانے والے بزنس کے حوالے سے خدشات مجھے بے چین کررہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ مستقبل میں اس معاملہ سے مسجد ومنبر کی ساکھ مجروح ہو -

مفتی صاحب سے ملاقات کے بعد دوست کے ساتھ رابطہ بدستور رہا اس نے مجھے بارہا اس منافع بخش کاروبار میں شراکت کی دعوت دی تاہم میں ہر دفعہ اسے ٹال دیتا اس نے اپنی تمام جمع پونجی مفتی صاحب کے پاس جمع کراد ی دوماہ اس کو مناسب منافع ملا جس کے بعد اس نے مجھے بتایاکہ میرے دن بدل گئے ہیں بچپن سے میں جوخواب دیکھ رہاتھا اب ان کی تعبیر میرے سامنے ہے دوماہ کے منافع کے بعد اس نے اپنا دائرہ وسیع کردیا اس نے رشتے داروں کی منت سماجت کرکے 80لاکھ روپے مفتی صاحب کے پاس جمع کرادیے -

میں ٹی وی چینل پر مفتی احسان کی فوٹیج دیکھ رہا تھا جسے پولیس کھربوں روپے کے فراڈ میں ملوث ہونے پر گرفتار کرکے لے جارہی تھی اس فوٹیج نے میرے جسم میں آگ لگا دی میرے تین ماہ قبل کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے میں سوچ رہاتھاکہ اب اس ملک کا باشندہ کس پر اعتماد کرے گا؟میرے دوست کے الفاظ میرے دماغ میں گونج رہے تھے کہ یہ علمائے کرام کی بے ادبی ہے میں مفتی احسان کو ہتھکڑی لگے دیکھ رہاتھا اور اس مقدس شعبے کی تضحیک اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا -

سیاستدانوں،فوج،عدلیہ ،پولیس ،پٹواری سے مایوس آدمی کے لیے امید کی آخری کرن مسجد ومنبر تھی جہاں لوگوں کا اعتماد تھا تاہم مفتی احسان اور اس کے ساتھیوں نے مضاربہ کے نام پر گھناؤنا کھیل ،کھیل کر اس اعتماد کو تارتا ر کردیا جس کے اثرات شاہد صدیوں تک ختم نہ ہوسکیں میں سخت اضطراب کے عالم میں تھا کہ عصر کی اذان میری سماعتوں سے ٹکرائی تو میں وضو کرکے قریب میں واقع مسجد میں پہنچ گیا نماز کے بعد میں مولانا صاحب کے پاس بیٹھ گیا اور یہ سوال مولانا صاحب کے سامنے رکھے تو مولانا صاحب کاجواب تھاکہ اس پر ہم صرف روسکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے عزت بنانے میں سال لگتے ہیں تاہم اس کو گنوانے کے لیے چند سکینڈ کافی ہوتے ہیں مفتی احسان اور ان کے گروپ کے کاروبار پر ہمیں شروع سے ہی تخفظات تھے ہم نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ اس کام کا کوئی مستقبل نہیں ہے تاہم ان کا جواب ہوتا تھاکہ آپ بیوقوف لوگ ہیں آپ اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں مولانا صاحب نے بتایاکہ صبح سے شام تک میرے پاس مضاربہ سے متاثرہ درجنوں لوگ آتے ہیں جن کی کہانیاں انتہائی دکھی ہیں جن کو سن کر ہمارے پاس افسوس کے سوا کوئی چار ہ نہیں ہے اس واقعہ نے ہمارے سر جھکا دیے ہیں-

گزشتہ روز میری ملاقات اس دوست سے ہوئی جو مجھے مفتی صاحب کے پاس لے کرگیا تھا اس کی حالت ناقابل بیان تھی اس کی کہانی انتہائی دردناک تھی زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا اس نے بتایاکہ اس کے گھرمیں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے جن رشتہ داروں سے پیسے لیے تھے انہوں نے جینا حرام کردیا ہے میں تباہ ہوچکاہوں برباد ہوچکاہوں خداراہ مجھے اس جہنم سے نکال دو میرے پاس اس کو تسلی دینے کے لیے کوئی الفاظ نہیں تھے میں بھی مولاناصاحب کی طرح صرف اظہار افسوس ہی کرسکتاتھا-

ملک بھرمیں اس طرح کی ہزاروں کہانیاں ہیں مضاربہ کے نام پرکاوبار نے سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کردیے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے اس سے قوم وملک کا کتنا نقصان ہواہے اس کے متعلق اعدادوشمار اگلے چند روز تک سامنے آجائیں گے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کاروبار کی آڑ میں جو ہزاروں لو گ متاثر ہوئے ہیں انہیں زندگی بھر کی جمع پونجی واپس مل سکے گی ؟مفتی احسان سمیت اس کاروبار میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی ہونی چاہیے اس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی قومی کٹہرے میں لا یا جانا چاہیے کیونکہ یہ سب کھیل ایک دن یا ایک رات میں نہیں ہوا یہ گزشتہ کئی ماہ سے چل رہاہے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے کہاں سوئے ہوئے تھے ،قانو ن اتنی دیر بعد کیوں حرکت میں آیا اگر اس کام میں مجرمانہ غفلت نہ برتی جاتی تو سینکڑوں لوگوں کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا تھا اس کی شفاف انکوائری انتہائی ضروری ہے وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو اس معاملے کا خصوصی نوٹس لینا چاہیے اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی شحص یا کمپنی اتنی جرات سے اس طرح کا گھناؤنا کھیل نہ کھیل سکے-

adnan abbasi
About the Author: adnan abbasi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.