تحریر : محمداسلم لودھی
زندگی میں بے شمار لوگ ملتے بھی ہیں اور بچھڑ بھی جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ
ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی موجودگی کا احساس خوشی کا باعث بنتا ہے اور ان کی
جدائی انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے ۔5 اکتوبر 2013ء کی صبح جب میں نے
اخبار اٹھایا تو اس میں ایک ایسی شناسا تصویر پر نظر ٹھہر گئی جسے میں بہت
پہلے سے جانتا تھا ذرا غور کیا تو پتہ چلا یہ تو قاضی ریاض ہیں جن سے میرا
ابتدائی تعارف ان کے بیٹے کیپٹن جواد اکرام شہید کی شہادت کے موقع پر ہوا
تھا ۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب میں قاضی ریاض حسین کے گھر واقع عثمان
بلاک گارڈن ٹاؤن لاہور پہنچا تو وہ بیٹے کی شہادت پر بہت نازاں تھے ان کا
کھلتا ہوا چہرا یہ احساس کروا رہا تھاکہ کارگل کے میدان میں دشمن سے جنگ
کرتے ہوئے ان کے شہید بیٹے نے نہ صرف شہادت کا بلند مقام حاصل کرکے والدین
کا سرفخرسے بلند کردیا تھا بلکہ اس نے اپنی جان پر کھیل کر سبز ہلالی پرچم
کو دشمن کے ہاتھوں بے توقیر ہونے سے بچا کر پوری قوم کو سرخرو کردیا تھا ۔
میں جب ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کیپٹن قاضی جواد شہید کے میڈل ٗ سٹک
اور کیپ دیکھ رہا تھا تو میری آنکھوں میں شدت جذبات کے آنسو تھے لیکن قاضی
ریاض حسین جن کا بیٹا پاکستانی قوم پر نچھاور ہوچکا تھا ان کے عزم و حوصلے
اور جرات کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں بیٹے کی
جدائی کا صدمہ نہیں ہوگا دنیا میں کون شخص ایسا ہے جس کے دل میں اولاد کی
محبت نہ ہو لیکن قاضی ریاض نے اپنے دل پر لگے ہوئے وہ زخم ہم سے چھپا رکھے
تھے جب بھی بیٹے کی جدائی احساس غالب ہوتا تو وہ تنہائی میں بیٹھ کر آنسو
بہالیا کرتے لیکن میرے سمیت کسی دوسرے پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ غم سے
نڈھال ہیں ۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ شہادت سے پہلے ایک رات انہوں نے خود کو ایک ایسی
پاکیزہ محفل میں موجود پایا جس میں نبی کریم ﷺ ٗ صحابہ کرام اور اولیائے
کرام موجود تھے تمام کے سروں پر سفید دستاریں بندھی ہوئی تھیں اچانک آواز
آئی قاضی ریاض آپ بھی اپنے ننگے سر پر دستار باندھ لیں جو دستار مجھے سرپر
باندھنے کے لیے دی گئی وہ سفید رنگ کی بجائے سرخ رنگ کی تھی جو انہیں وہاں
موجود تمام لوگوں سے منفرد بنا رہی تھی اسی اثنا میں نماز فجر کے وقت آنکھ
کھل جاتی ہے اور اس خواب کے بعد ایسی کیفیت طاری ہوئی جس کا اثر کئی دنوں
تک آپ پر قائم رہا ۔
کارگل کامعرکہ برپا ہوا تو کیپٹن قاضی جواد اپنی یونٹ اوکاڑہ میں تھے انہوں
نے خود کہہ کر معرکہ کارگل میں بھارتی فوج سے برسرپیکار ہونے کے لیے اپنی
ڈیوٹی این ایل آئی گلگت میں لگوائی ۔کیپٹن جواد دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا
خواب لے کر پاک فوج میں شامل ہوئے تھے انہیں شہادت کی بہت تمنا تھی وہ اکثر
کہاکرتا تھا کہ میں بستر پر لیٹ کر نہیں مرنا چاہتا بلکہ دشمن سے لڑتے ہوئے
جام شہادت نوش کرنا چاہتا ہوں اور شہیدوں کے اس قافلے میں شامل ہونا چاہتا
ہوں جس کی سرداری روز قیامت نواسہ رسول حضرت امام حسین شہید ؓ فرمائیں گے
۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں وادی کارگل سطح سمندر سے 18 ہزار فٹ بلند ہے جہاں
دشمن سے بھی زیادہ انسانی زندگی موسم اور بیماریوں کا شکار ہوتی ہے ۔یہی
وجہ تھی کہ کیپٹن جواد جونہی کارگل کی بلند چوٹیوں پر پہنچے تو ان کا بلڈ
پریشر شوٹ کرگیا انہیں طبی امدا د کے لیے نیچے لایاگیا حالت بہتر ہوتے ہی
کمانڈنگ آفیسر کے روکنے کے باوجود وہ نئے جذبوں اور ولولوں سے محاذ جنگ کی
جانب چل پڑے ۔24 اور 25 جولائی کی رات بھارتی فوج نے کارگل کے بٹالک سیکٹر
کی ارشد پوسٹ پر شدید حملہ کیا اس پوسٹ کی کمان لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن (
یہ نوجوان بھی ڈی ایچ اے لاہور کا ہے )کے پاس تھی چند گھنٹوں کی شدید لڑائی
اور بھارتی فوج کی بوفر توپوں کی گولہ باری سے لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن اور
ان کے ساتھی دشمن سے دست بدست لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے اس طرح اس
پوسٹ پر بھارتی فوج نے قبضہ کرلیا ۔کیپٹن قاضی جواد چند جانثار ساتھیوں کے
ہمراہ اﷲ اکبر پوسٹ پر دفاع وطن کے تقاضے پورے کررہے تھے ٗ ہائی کمان کی
جانب سے انہیں حکم دیاگیا کہ وہ چند ساتھیوں کو اﷲ اکبر پوسٹ پر چھوڑ کر
خود ارشد پوسٹ پر بھارتی فوج کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے جوابی حملہ کریں۔
وہاں پہنچتے ہی کیپٹن قاضی جواد احمد اور ان کے رفقائے کار اتنی بہادری اور
منصوبہ بندی سے لڑے کہ کئی گھنٹوں کی جنگ کے بعد بھارتی فوج کو ارشد پوسٹ
خالی کرکے پسپا ہونا پڑا ۔ اس کامیابی کی اطلاع ملتے ہی ہائی کمان کی جانب
سے نہ صرف کیپٹن قاضی جواد کی عزم ہمت کی داد دی گئی بلکہ انہیں چند جوان
وہاں چھوڑ کر اپنی پوسٹ اﷲ اکبر آنے کا حکم ملا ۔
26 جولائی 1999ء کی صبح طلوع ہوئی تو کارگل کی برف پوش بلند وبالا اور
دشوار گزار چوٹیاں ایک خوبصورت منظر پیش کررہی تھیں ۔آج یہی بلند و بالا
چوٹیاں شہیدوں کے لہو سے ایک بار پھر سرخ ہونے والی تھیں بھارتی فوج ارشد
پوسٹ سے پسپا ہونے کے بعد پوری قوت کے ساتھ اﷲ اکبر پوسٹ پر چاروں اطراف سے
حملہ کردیا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ کہ مقابلہ بظاہر بہت مشکل تھا لیکن
کیپٹن جواد اور اس کے ساتھیوں نے بھارتی فوج کے حملے کو نہ صرف کامیابی سے
پسپا کردیا بلکہ انہیں بہت پیچھے ہٹنے پر مجبور بھی کردیا ابھی اس تازہ
ترین جنگی معرکے کی بازگشت فضاؤں میں موجود تھی کہ ہائی کمان کی جانب سے اﷲ
اکبر پوسٹ کو چھوڑ کر واپس لوٹنے کا حکم ملا ۔ فوج میں ہر حال میں حکم کی
تعمیل کی جاتی ہے چاہے اس کی تعمیل میں کتنا ہی جانی ومالی نقصان کیوں نہ
ہو۔ ایک جانب بھارتی فوج بوفرز توپوں سے مسلسل گولہ باری کررہی تھی اور اس
کے جنگی جہاز سفید برف پوش پہاڑیوں پر نیچے پروازیں کرکے بم گرا رہے تھے تو
دوسری جانب بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے کیپٹن جواد اور دیگر ساتھیوں کو
بلند و بالا پہاڑی چوٹی سے بحفاظت رسوں کی مدد سے نیچے بھی اترنا تھا
بہرکیف اﷲ اکبر پوسٹ کو بحفاظت خالی کرنے کا مرحلہ تو مکمل ہوگیا جس پر
بھارتی فوج نے فوری طور پر قبضہ کرکے بلندی پر اپنی توپیں گاڑ لیں لیکن
نیچے آنے کے بعد کیپٹن جواد کو یہ احساس ہوا کہ اﷲ اکبر پوسٹ جو بلند ترین
پہاڑی کی چوٹی پر قومی پرچم لہرا رہا تھا اسے باعزت طور پر اتار کر برستی
گولیاں اور توپوں کی گھن گرج میں اتارکر واپس لاناکسی کو بھی یاد نہیں رہا
۔ہائی کمان کو اطلاع کرکے خود کپیٹن جواد رسوں کی مدد سے ایک بار پھر
بلندیوں کی جانب گامزن ہوئے اور اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب بھی ہوگئے
جہاں سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا جب وہ پرچم کو سیلوٹ کرنے کے بعد اتار کر
واپسی کا راستہ اختیارکررہے تھے تو بھارتی فوج کی گولیوں کی ایک بوچھاڑ نے
کیپٹن جواد کو موقع پر ہی شہید کردیا اپنی جان پر کھیل کر جس طرح کیپٹن
جواد نے قومی پرچم کو بے حرمتی سے بچایا تھا وہ کسی اعزاز سے کم نہیں تھا ۔
جونہی کیپٹن قاضی جواد کی شہادت کی خبر ان کے والد قاضی ریاض حسین کو ملی
تو انہیں خواب کی تعبیر سمجھ آئی کہ دربار نبی کریم ﷺ میں انہیں سرخ دستار
کیوں پہنائی گئی تھی ۔شہادت سے پہلے کیپٹن قاضی جواد کی والدہ ثمینہ ریاض
نے بھی ایک خواب دیکھا کہ جواد ایک بلند و بالا پہاڑی پر سفید لباس پہنے
ہوئے کھڑا ہے اس کی کنپٹی سے مسلسل خون بہہ رہا ہے وہ شدید زخمی حالت میں
بھی مسکرا کر اپنی والدہ کو دیکھ رہا ہے لیکن پاس نہیں آرہا اور نہ ہی ماں
میں اتنی ہمت ہے کہ وہ خود چل کر اپنے زخمی بیٹے کے پاس پہنچ جائے ۔جب بیٹے
کی شہادت کی خبرملی تو ماں کو اس خواب کی تعبیر بھی مل گئی ۔کیپٹن قاضی
جواد شہید کو بہادری کے اعترا ف میں تمغہ بسالت عطا کیاگیا ۔
کیپٹن قاضی جواد شہید کی والدہ اپنے بیٹے کی جدائی اور شہادت پر اس لیے خوش
تھی کہ اس نے وطن عزیز پاکستان کے دفاع کے لیے اپنی جان نچھاور کرکے ان اور
ان کے خاندان کانام روشن کردیا تھا لیکن جب بیٹے کی محبت شدت اختیار کرتی
تو آنسوؤں کا سیلاب ضبط کے تمام بندتوڑ کر بہہ نکلتا۔ماؤں کے دل تو گلابوں
سے بھی نرم و گداز ہوتے ہیں وہ کہاں بیٹے کی تکلیف یا جدائی کو برداشت
کرسکتی ہیں ہائی بلڈپریشر کے مرض نے انہیں نڈھال کرکے رکھ دیا ۔لیکن قاضی
ریاض حسین اپنے بیٹے کی شہادت پر بظاہر بہت فخر محسوس کرتے تھے اور فخریہ
انداز میں اپنے بیٹے کی بہادری کے واقعات ہر آنے جانے والے کو سنایا کرتے
تھے شاید وہ اس طرح اپنے دل کے زخموں کو مندمل کیاکرتے تھے ۔بیٹے کی شہادت
پر ہونے والی میری ان سے پہلی ملاقات بہت جلد دوستی میں بدل گئی میں جب بھی
ان کی عینکوں کی دکان واقع ٹمپل روڈ پر جاتا تو گھنٹوں کیپٹن قاضی جواد
شہید کے بارے میں باتیں ہوتی رہتیں ۔اردو گرد کے اور لوگ بھی جمع ہوجاتے
اور خوب محفل جمتی سب لوگ قاضی ریاض کے حوصلے کی داد دیتے۔
مجھے خودبھی شہیدوں اور ان کے لواحقین سے بے حد پیار ہے میں جب شہیدوں کے
لواحقین سے ملتا ہوں تو خودکو زیادہ پرسکون محسوس کرتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ
ساتھ آنسو بھی بہاتا ہوں ۔وقت یونہی گزرتا رہا پھر ایک دن قاضی ریاض حسین
کے گھر میں ہی پاک فوج کے ایک اور افسر کیپٹن ساجد سے ملاقات ہوئی وہ ان
دنوں واہگہ سرحد پر رینجر پوسٹ پر تعینات تھے۔یہ 2001ء کی بات ہے ۔ خوبصورت
شکل صورت ٗ جواں ہمت اور پرعزم نوجوان مجھے پہلی ہی ملاقات میں بہت اچھے
لگے جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو کیپٹن جواد شہید کے بارے میں مزید مفید
معلومات سننے کوملتیں ایک مرتبہ کیپٹن ساجد کی دعوت پر میں اپنی فیملی کے
ساتھ واہگہ بارڈر کی رینجر پوسٹ پر بھی گیاوہاں کھڑے ہوکر بھارتی سرحدوں
اور بزدلوں کودیکھنے کا انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے پرچم کشائی اور پرچم
اتارنے کی تقریب تو واقعی قابل دید ہوتی ہے ۔ کیپٹن ساجد نے سرحد پر کھڑے
ہوکرہمیں تمام معلومات فراہم کیں پھر دوپہر کا کھانا کھاکر ہم واپس لوٹ آئے
۔ کیپٹن ساجد سے یہ میری آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد وہ ترقی پاکر
میجر بن گئے - وہ بہت ملنسار ٗ ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے ۔ ہر وقت ان
کے چہرے پر دھیمی سے مسکراہٹ رہتی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محنت اور
لگن جاری رہی اپنا ہر کام نہایت دیانت داری اور محنت سے کرتے یہی وجہ ہے کہ
ہر افسر ان کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا اور دل سے احترام بھی کرتا ۔ ان
کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا وہ اپنی زندہ دلی اور دلفریب مسکراہٹ سے ہر کسی
کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آگیا جب میجر کے عہدے سے ترقی
دے کر انہیں لیفٹیننٹ کرنل بنا دیاگیا ۔ ہر طرف سے مبارک بادیں ملنے لگیں
۔اسی دوران معلوم ہواکہ ان کا تبادلہ لاہور 204 سروے سیکٹر میں ہوگیاہے وہ
خوشی خوشی اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور آگئے ۔ابھی لاہور آئے ہوئے انہیں دو
ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن انہیں کھاریاں کینٹ تبادلے کی اطلاع ملی
جہاں پر انہیں گیارہ این ایل آئی یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر(CO)کی حیثیت سے
جوائن کرنا تھا ۔ یہ وہی یونٹ ہے جس کے ساتھ منسلک ہوکر اسی خاندان کے ایک
اور فرزند کیپٹن قاضی جواداکرام نے معرکہ کارگل میں جرات و بہادری کے انمٹ
نقوش ثبت کرکے جام شہادت نوش کی تھی ۔پوسٹنگ آرڈر کے ساتھ ہی یہ ہدایت بھی
شامل تھیں کہ اس یونٹ کو چند دنوں میں وزیرستان پہنچنا ہے جہاں پاک فوج
دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ برسرپیکار ہے ۔
کرنل ساجد جیسے پر عزم اور جواں ہمت افسر کے لیے یہ ایک خوشی کا مقام تھا
کیونکہ وطن عزیز کے دشمن چاہے اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ان کو شکست دے
کر دفاع وطن کے تقاضے پورے کرنا ہمیشہ ان کاخواب رہا تھا ۔کھاریا ں پہنچنے
کے چند دنوں بعدہی گیا رہ این ایل آئی کرنل ساجد کی کمانڈ میں وزیرستان
روانہ ہوگئی ۔میراں شاہ میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد یہ یونٹ ملک دشمن عناصر
اور دہشت گردوں کے خلاف معرکہ آرائی کرتے ہوئے بنوں ٗ اورکزئی ایجنسی ٗکرم
ایجنسی میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتی ہوئی وادی تیراہ پہنچ گئی ۔جہاں بھی
کرنل ساجد اور ان کی یونٹ کا ذکر ہوتا تو ان کی تمام فتوحات ٗ ہمت ٗ حوصلے
اور بہادری کی ہر افسر داددیتا اور تمام یونٹوں کی کوشش ہوتی کہ اتنے نڈر
اور جرات مند افسر کا ساتھ ان کو بھی نصیب ہو ۔
12جون 2013ء کا سورج طلوع ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے کھاریاں میں موجود
اپنے بیوی بچوں سے ٹیلی فون پر بات کی یہ ان کا روز کا معمول تھا انہوں نے
دوران گفتگو اپنی بیگم کو بتایا کہ آج ایک بار پھر دہشت گردوں کے خلاف
آپریشن کے لیے جارہے ہیں اور کہا خدا سے کامیابی کی دعا کرنا ۔اس دن کرنل
ساجد پہلے سے زیادہ خوش اور پرجوش دکھائی دے رہے تھے ان کو ہر کام کرنے کی
جلدی تھی انہوں نے اپنے تمام افسروں کو کہا کہ آج وہ بہت خوش ہیں اور چاہتے
ہیں کہ جلد از جلد اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں انہوں نے آپریشن کرنا تھا ۔
یہ وادی تیراہ کا علاقہ تھا جو "میدان" کے نام سے پہچانا جاتا ہے یہ علاقہ
نہ صرف پرخطرتھا بلکہ چاروں اطراف سے دہشت گردوں کی آمجگاہ بنا ہوا تھا ان
دہشت گردوں کو جب آپریشن کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے
آپریشن کو ناکام کرنے کے لیے راستے میں باردی سرنگیں نصب کردیں ۔ دہشت
گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد جب کرنل ساجد کی کمانڈ میں فوجی جوان
واپس آرہے تھے تو انہیں گمان گزرا کہ ایک مکان میں کوئی دہشت گرد چھپا ہوا
ہے انہوں نے اپنے جوانوں کو وہیں رکنے کا حکم دیا اور خود مکان میں ایک اور
افسر کے ہمراہ داخل ہوگئے ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے اس مکان کی مکمل
تلاشی لے لی جاتی پھر کمانڈنگ آفیسر اس مکان میں داخل ہوتے لیکن حکم
خداوندی کچھ اور تھا اس مکان کے اندر جا کر کرنل ساجد نے اس کمرے کا دروازہ
کھولا جہاں سے سیڑھیاں اوپر چھت کی طرف جارہی تھیں جونہی کرنل ساجد نے پہلی
سیڑھی پر قدم رکھا تو وہاں پر نصب بارودی سرنگ پھٹ گئی اور انہوں نے اسی
جگہ شہادت کا جام پیا جس کی ہر مسلمان سپاہی دل سے آرزو کرتا ہے ۔
انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔
بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں
کرنل ساجد کی شہادت بے شک وطن عزیز کی حفاظت کے لیے ہی تھی لیکن جب یہ خبر
کرنل ساجد کے سسر قاضی ریاض حسین تک پہنچی تو بیٹے کی شہادت پر سینہ تان کر
بات کرنے والا ٗ بات بات پر قہقہے مارنے والا قاضی ریاض اندر سے ٹوٹ پھوٹ
گیا نہ جانے کس طاقت نے انہیں ریزہ ریزہ کردیا تھا وہ بات بات پر رونے لگتے
اور کرنل ساجد کو یاد کرنے لگتے کبھی بیٹے کی جدائی کا احساس غالب آجاتا
۔جس طرح شہیدوں کے زخموں سے قیامت تک لہو رستا رہے گا اور وہ اسی حالت میں
روزقیامت اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی طرح ان شہیدوں کے لواحقین کے
دلوں پر لگنے والے زخموں سے بھی خون کبھی بند نہیں ہوتا وہ دنیا کو دکھانے
کے لیے بظاہر خود کو بہت مضبوط بناتے ہیں لیکن اندر سے ریت کی دیوار ثابت
ہوتے ہیں ۔دہشت گردی کی اس منحوس جنگ میں کسی کا باپ شہید ہورہاہے کسی کا
بھائی قبر میں اتر رہا ہے کسی کا بیٹا شہادت کا جام پیتا ہے لیکن زیر زمین
پناہ گاہوں میں پناہ لینے والے پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ہر سانحے اور
شہادت کے واقعے کے بعد ایک ہی بیان جاری ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ان
کے عزم میں کوئی لغزش پیدا نہیں ہوگی۔کاش یہ حکمران خود بھی کبھی وزیرستان
گئے ہوتے یا ان کی اولاد میں سے کوئی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کوئی شریک
ہوکر شہادت کا جام پیتا تب انہیں پتہ چلتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے
لڑی جاتی ہے انہوں نے اپنے بچوں کو تو برطانیہ بھیج رکھا ہے لیکن پاکستانی
قوم کے بچوں کو دہشت گردی کے اندھے کنویں بے دردی سے پھینکتے جارہے ہیں۔
عظیم ہیں وہ پاکستانی مائیں اور باپ ٗ عظیم ہیں وہ بچے اور بہن بھائی
جواپنے اپنے عزیزوں کو شہادتوں کو قبول کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے قبروں میں
اتارتے ہیں اور زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہتے ۔دہشت گردی کی یہ نام نہاد
جنگ پاکستان کی ہرگز نہیں تھی بلکہ امریکہ کے تحفظ کی جنگ تھی جس کو شروع
بھی امریکہ نے کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے پاس اسلحہ اور
تربیت بھی امریکہ اور اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ہے ۔حکمرانوں کی غفلت
کی وجہ سے بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیاں بھی قبائلی علاقوں میں اپنا نٹ
ورک مکمل طور پر قائم کرچکی ہیں ۔نہ جانے کب یہ منحوس جنگ ختم ہوگی اور کب
شہادتوں کا یہ سلسلہ رک پائے گا ۔بھارتی فوج سے جنگ کرکے مرتبہ شہادت پر
فائز ہونے والوں کے لواحقین سینہ تان اپنے شہیدوں کے بہادری کے قصے سناتے
ہیں اور معاشرے میں بلند مقام پاتے ہیں لیکن ان شہیدوں کا تذکرہ بھی کرنا
کوئی گوارہ نہیں کرتا صرف چند لفظوں کی خبر اخبار کی زینت بنتی ہے اور وطن
پر جانیں نچھاور کرنے والے قبروں میں اتر کر اپنے پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے روتا ہوا چھوڑ جاتے ہیں ۔
بیٹی کے سرکا تاج چھن جانے سے قاضی ریاض حسین کو جس قدر صدمہ پہنچا شاید اس
کا ذکر وہ الفاظ میں نہیں کرسکتے تھے یہی وجہ تھی کہ اندر ہی اندرسے دیمک
انہیں چاٹنے لگی زبان خاموش اور آنکھوں سے آنسو رکنے کانام نہیں لیتے تھے
وہ چند دنوں میں ہی ایک ایسے دیمک زدہ درخت کی مانند ہوگئے جس کا وجود تو
بظاہر ٹھیک نظر آتا ہے لیکن دیمک انہیں بہت جلد زمین بوس کردیتی ہے ۔ سچی
بات تو یہ تھی کہ وہ پہاڑ جیسے حوصلوں والا قاضی ریاض حسین ٗ اپنے بیٹے اور
داماد کی شہادت پر ریت کی دیوار بن چکا تھا بیٹے کی شہادت پھر داماد کی
شہادت پے درپے شہادتوں کا سلسلہ آخر کب تک وہ حوصلے رکھتے وہ تو اپنی بیمار
بیوی ثمینہ بیگم کو حوصلہ دیا کرتے تھے لیکن کرنل ساجد کی موت نے انہیں اس
قدر نڈھال کردیا کہ وہ ساری دنیا کے حوصلے انہیں پورے قد سے کھڑا نہ کرسکے
پہلے انہیں پھپھڑوں کی بیماری لگی جو کینسر میں تبدیل ہوگئی یہ کینسر دن
بدن بڑھتا ہی جارہا تھا کہ 29 اگست کی صبح کیپٹن قاضی جواد شہید اور کرنل
ساجد شہید پر آنسو بہانے والا قاضی ریاض حسین بھی اسی دنیا میں جا پہنچا
جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔ قاضی ریاض حسین وہ عظیم شخص تھا جس نے ایک
نہیں دو بیٹے وطن عزیز پر قربان کرکے خود کو عظیم وطن پرست ثابت کیا تھا
۔12اکتوبر 2013ء کی دوپہر جب میں ڈرائنگ میں بیٹھا ان کی غم سے نڈھال اہلیہ
ثمینہ ریاض سے اظہار تعزیت کررہا تھا تو مجھے اس گھر کے دردیوار سے قاضی
ریاض کے قہقہے سنائی دے رہے تھے جس طرح وہ پہلے اپنے شہید بیٹے کی میڈل
مجھے دکھایا کرتے ان کی سنیئرآرمی افسروں کے ساتھ تصویریں دکھاتے پھر اپنے
شہید بیٹے کی زندگی کے قابل فخر واقعات سناتے ۔اب وہ منظر سے غائب تھے لیکن
ان کی صبر مند اور پہاڑ جیسے حوصلے والی اہلیہ اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی
برسات لیے مجھے اور میری بیگم کو تمام واقعات سے آگاہ کررہی تھیں ایک طرف
وہ رو رہی تھیں تو دوسری جانب میں رو رہا تھا یہ آنسو ان شہیدوں کی یادمیں
بہہ رہے تھے جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا یہ آنسو
اس عظیم والد قاضی ریاض کی یاد میں بہہ رہے تھے جو انتہائی مشکل حالات میں
بھی حوصلے کا پہاڑ دکھائی دیئے لیکن یہ پہاڑ آخر تک بھی اپنا وجود برقرار
رکھتا جو رفتہ رفتہ وقت کے دھاروں میں بہتاہوا خود بخود تحلیل ہوتا
جارہاتھا ۔ گارڈن ٹاؤن قبرستان میں جہاں پہلے 26جولائی کو ہر سال ہم سب مل
کر کیپٹن قاضی جواد شہید کے مرقدخاص پر درود سلام پڑھا کرتے تھے اب قبرستان
کے اسی احاطے میں کیپٹن جواد شہید ٗ کرنل ساجد شہید اور قاضی ریاض حسین دفن
ہیں ۔بیگم ثمینہ ریاض نے بتایا کہ رحلت کے بعد قاضی ریاض خواب میں دکھائی
دیئے وہ ایک خوشگوار جگہ بیٹھے مسکرا رہے تھے اوریہ خوشگوار گوشہ یقینا جنت
کا کوئی حصہ ہی ہوگا کیونکہ جن کے بچے وطن عزیز کے لیے شہادت کا جام پیتے
ہیں ان کے والدین بھی تو جنت کے حق دار ٹھہرتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ قاضی
ریاض حسین ٗ اپنے بیٹے کیپٹن قاضی جواد شہید اور کرنل ساجد شہید کے ساتھ
جنت کے میوے کھارہے ہوں اور اس دنیا کی مصیبتوں اور پریشانیوں کو بھول کر
ایک نئی زندگی (جس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا )گزار رہے ہوں ۔ قرآن پاک میں
ہے اﷲ کی راہ میں مرنے والوں کو مرد ہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں لیکن تم اس کا
شعور نہیں رکھتے ۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ شہیدوں کے اس عظیم گھر پر اپنی
رحمتوں کا سایہ قائم رکھے ۔ آمین |