مفتی اعظم راجستھان : قیادت کا نمونہ

 درخت دوطرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جواونچے اورلمبے ہوتے ہیں اوردوسرے بڑے اورچوڑے یعنی گھنیرے اورسایہ دار۔بڑے اور چوڑے درخت ایک بڑے قطعۂ زمین کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں اورانسان ا س کے سائے میں بیٹھ کراپنی تھکان اتارتے ہیں اورپھرسے نئی قوت اورنئی انرجی جذب کرتے ہیں جب کہ لمبے اوراونچے درخت اپنی ٹہنیوں کی اونچائی کے باعث اتنے فیض رساں نہیں ہوتے ۔اس سے ایک اصول سمجھ میں آیاکہ جوجتنے زیادہ اونچے ہوتے ہیں وہ اتنے ہی بے فیض ثابت ہوتے ہیں اورجوجتنے زیادہ بڑے ہوتے ہیں ا س سے عوام اتنے ہی مستفیدہوتے ہیں۔اس کلیے کی روشنی میں غورکریں کہ اونچے درخت اور بڑے وچوڑے درخت میں جوفرق ہوتاہے وہی فرق ہمیں بے فیض اوربافیض افراد میں دیکھنے کوملتاہے ۔اس مفہوم کوالٹ کرکہیں کہ درخت جس قدراونچاہوگاوہ لوگوں کے لیے اتناہی بے کارہوگااورجتناہی بڑاہوگااتناہی سایہ دار، گھنیرا اورباکار ہوگا ۔ درختوں کی مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے مذہبی وسیاسی اشرافیہ کی اکثریت ’’اونچی ‘‘اور’’لمبی‘‘ہے یا’’بڑی ‘‘ اور ’’چوڑی‘‘۔ آپ محسوس کریں گے کہ ہماراآج کامذہبی اورسیاسی اشرافیہ اتنا ’’اونچا‘‘ اور’’لمبا‘‘ہوگیاہے کہ ا س نے اپنی فیض رسانی کا درجہ کھودیاہے ۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہماراعمومی مزاج جتنا ’’اونچا‘‘بننے کا ہوتا ہے اتنا’’بڑا‘‘بننے کانہیں ہوتا۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جوجتنازیادہ اونچاہوگاوہ اتناہی بڑا ہوگاایسے لوگ شایداونچے اوربڑے درخت میں فرق کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔

درخت کی ا س ہیئت کوذہن میں رکھیں اورسماجی سطح پر’’اونچوں‘‘کوشمارکرنے بیٹھیں ہاتھو ں پیروں کی انگلیاں بھی کم پڑجائیں اوراگر ’’بڑوں‘‘کی فہرست مرتب کریں توایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں بھی زیادہ محسوس ہوں ۔مفتی اعظم راجستھان حضرت مفتی محمداشفاق حسین علیہ الرحمہ ان بڑوں میں شامل ہیں جن کی فیض رسانی تقریباً۶۵برسوں تک اہل راجستھان پرسایہ فگن رہی ہے ۔یہاں سوال یہ ہے کہ وہ بڑے کیوں ہیں اور دوسرے ’’اونچوں‘‘کے درمیان ان کی وجہ امتیازکیاہے؟۔

دراصل انسان کوبڑابنانے میں علم، تجربہ،فکر،مزاج،دولت اورخاندانی وجاہت سمیت بہت سارے عناصرشامل ہوتے ہیں مگران میں مزاج بلفظ دیگراخلاق وعادات کا رول کلیدی ہوتاہے ۔اپنے اردگرد نظر اٹھا کر دیکھیے آپ کوبہت سارے افرادایسے ملیں گے جوعلم میں کوہ ہمالیہ ہوں گے ، جن کے پاس فکراورتجربے کاعظیم سرمایہ ہوگااورجودولت اورخاندانی عظمت ورفعت میں بھی اپنی مثال آپ ہوں گے مگر جب آپ ان کی ذات کی تہ میں اترکردیکھیں گے توآپ پرکھُل جائے گاکہ ان کے مزاج کی کجی انہیں لے ڈوبی،بڑے بننے کے امکانات کے باوجودوہ نہ توخود بڑے نہ بن سکے اورنہ عوام الناس کوفائدہ پہنچاکردوسروں کوبڑابننے کاراستہ دکھاسکے۔ان کے برخلاف جن افرادکامزاج معتدل، متوازن، مثبت ،تعمیری اور صائب ہوتاہے وہ اپنی دوسری حیثیتوں میں کم ہونے کے باوصف بھی بڑے بن جاتے ہیں اورایسے ایسے کام کرجاتے ہیں جوان کی عظمت کا حوالہ اور شناخت قرارپاتے ہیں۔ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جوبظاہرفرنٹ پر بڑے بن کردکھائی تونہیں دیتے مگر ہمارے دلوں کے ایوانوں میں وہ بڑے کی حیثیت سے ضرور شہ نشین ہوتے ہیں۔

حضرت مفتی اعظم راجستھان کی عظیم شخصیت میں جس چیزنے مجھے سب سے زیادہ اپیل کیااور جو چیز مجھے سب سے زیادہ روشن ،تابناک ، قوی،خوب صورت،اجلی اورچمکتی ہوئی نظرآئی وہ ان کی یہی مزاجی اوراخلاقی کیفیت ہے ۔ مسلسل ۶۵برسوں تک راجستھان کے سنی مسلمانوں عوام وخواص سب کی قیادت کرناکوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتاہے جوعلم وعمل اورفکروتجربے کے ساتھ ساتھ دیگرغیرمعمولی خوبیوں سے لیس ہو۔یہاں ایک بات سمجھ لیجیے کہ محض علم کی بنیادپرکبھی بھی قیادت نہیں کی جا سکتی ، ہاں علم وفکرکے ساتھ اگر انسان کامزاج اور اخلاق بھی شخصیت میں شامل ہوجائے توپھریہ علم سونے پرسہاگاکاکام کرتاہے اورلوگ غیرشعوری طورپراسیربنتے چلے جاتے ہیں۔مفتی اعظم راجستھان کی قیادت محض علم کی بنیادپرنہیں کھڑی ہوئی بلکہ علم کے ساتھ ساتھ وہ سارے عناصرشامل تھے کہ جس کی کسی حقیقی قائدکو ضرورت پڑتی ہے ۔نرم روی، تحمل ، برداشت،صبر،خوش اخلاقی،شفقت،مونست،منکسرالمزاجی اورہم دردی وغیرہ یہ سب عناصرمزاج سے متعلق ہیں۔عوام وخواص سب کوایک لڑی میں پرو کررکھناحضرت موصوف کی فطرت ثانیہ تھی ، وحدت کی تسبیح کاایک دانہ بھی اگرٹوٹ کرادھرادھرنکل جاتاحضرت مفتی اعظم راجستھان جب تک اسے اٹھاکردوبارہ تسبیح میں نہ ڈال دیتے چین سے نہ بیٹھتے تھے ۔ نفرتوں کے اندھیرے میں محبتوں کاچراغ جلانا،اختلافات کے طوفان میں محبت ، انسانیت اورتوسع کاپرچم بلندکیے رہنا،غلط فہمیوں کی دبیزتہ میں چھپاہواپیارکاموتی تلاش کرنا اور غیروں سے بھی زیرلب مسکراہٹوں اوردل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ استقبال کرناایساعظیم المرتبت ورثۂ پیمبری ہے جس سے حضورمفتی اعظم راجستھان نے وافرحصہ پایاہے ۔یہ ایساوصف ہے جواپنوں کوتواپنے سے دورکرنادرکنارشدیدترین دشمنوں کوبھی اپنے خیمے میں لے آتاہے ۔ ان کی شخصیت کایہ تاثرمیرے دماغ پراتناگہرا،پایہ داراورپختہ ہے کہ ان کی دوسری عظمتیں اورحیثیتیں چھپ سی گئی ہیں۔ قیادت کاحق جس طرح حضرت مفتی اعظم راجستھان نے اداکیاہے بلاخوف لائمۃ لائم ا س کی مثال مجھے ہندوستان بھرمیں کہیں نظرنہیں آتی۔

ا س سے معلوم ہوتاہے کہ قیادت کے لیے محض علم،محض فکر،محض تجربہ،محض دولت اورمحض خاندانی وقارکافی نہیں ہوتا۔ محض علم کی بنیادپرقیادت ،قیادت نہیں ، مرعوبیت ہوتی ہے۔محض تجربے اور فکرکی بنیادپرقیادت ،قیادت نہیں بلکہ مخاطب اورسامع پردھونس جمانااوراسے UNDER PRESSURE کرنا ہوتاہے اورمحض دولت اورخاندانی وجاہت پرقیادت بسااوقات’’فرعونیت‘‘کے برابرکھڑی ہوجاتی ہے لیکن جب یہ ساری چیزیں حسن مزاج کے ساتھ ہم آمیز ہوجائیں توپھرقیادت لفظی نہیں رہتی وہ الفاظ کے پنجرے سے نکل کرمیدان عمل میں کودجاتی ہے اورقیادت کے حقیقی معنی ومفہوم سے متعارف کراتی ہے ۔ اس طورپریہ قیادت خالص،نکھری ہوئی ،معیاری اوربالکلPure ہوتی ہے۔ حضرت مفتی اعظم راجستھان کی حیات وخدمات کی ایک طویل ترین فہرست سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کی قیادت محض لفظی قیادت نہیں تھی بلکہ یہ اتنی Pureاورخالص محسوس ہوتی ہے کہ اس میں کہیں بھی ’’سیاسی آمیزش‘‘نظرنہیں آتی۔
حضرت مفتی اعظم راجستھان کے یہاں گوکہ دولت اورخاندانی وقاروعظمت نہیں تھی مگرعلم وفکراورتجربے اورسب سے بڑی بات ان کے مزاج نے ان کی قیادت پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی ۔گویامزاج ایسا’’تربیت خانہ‘‘ ہے جہاں قیادت کی جانچ پرکھ ہوتی ہے اور یہاں سے کامیاب ہونے کے بعدہی انسان کو قیادت کاCertificateحاصل ہوپاتاہے ۔مجھے حضرت مفتی اعظم راجستھان سے نہ کبھی شرف تکلم حاصل ہوااورنہ کبھی شرف سماعت مگرجوکچھ میں نے ان کے بارے میں پڑھااورسنااوران دونوں کے مرکب سے ان کی شخصیت کی تفہیم کرنے کی کوشش کی تو اس کی بنیادپرکہاجاسکتاہے کہ مفتی اعظم راجستھان بلاشبہہ قیادت کاعظیم نمونہ اورماڈل ہیں۔اگریہ ماڈل اپنالیاجائے تودوسری ریاستوں کے مسلمانوں کی بھی اسی طرح قیادت کی جاسکتی ہے جس طرح اہل راجستھان کی گئی ہے ۔

حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کادکھ صرف اہل راجستھان کادکھ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کادکھ ہے۔وہ صرف ہمارے لکھنے ،تقریرکرنے ،پلکوں پر عقیدت کے دیپ سجانے اورہرسال عرس میں روایتی طورپر خراج عقیدت پیش کرنے کی حدتک عظیم نہیں ہیں بلکہ وہ حقیقی اورواقعاتی طورپرعظیم ہیں۔ اس کے شواہد راجستھان کی ۶۵سالہ تاریخ میں جابجابکھرے پڑے ہیں۔ راجستھان کے تمام سنی اداروں ، مساجدومدارس کی سرپرستی اورعلما،اساتذہ اورائمہ کو باہم شیروشکرکرکے اتحادواتفاق اورمحبت کی مثال قائم کردینا ایسا تاریخی اورغیرمعمولی واقعہ ہے کہ راجستھان کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔وہ ہمیشہ آپسی نزاع ، مشربی جھگڑوں سے دورونفوررہے اورلوگوں کواسی کی تلقین کرتے رہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے معاملات میں پڑکرکسی کی بھی شخصیت مجروح ہوجاتی ہے اورسنجیدہ لوگ اسے بنظراستحسان نہیں دیکھتے ۔ اگرحضرت موصوف ان معاملات میں پڑجاتے تو اتنا بڑا کام کرہی نہیں سکتے تھے ۔کام وہی کرتے ہیں جواپنی مقصدمیں لگے رہتے ہیں اورراستوں کے کیل کانٹوں کوایک طرف ہٹاکراپناراستہ طے کرتے رہتے ہیں ۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ پورے راجستھان بھرکے علما،اساتذہ کے درمیان فکری ونظریاتی اختلافات نہ رہے ہوں اوراگرایسانہیں توغیرفطری بات ہے ۔ اختلافات فطری چیز ہیں اسے نظراندازکرناگویافطرت سے بغاوت ہے ۔حضرت مفتی اعظم راجستھان اس نکتے سے اچھی طرح واقف تھے وہ سارے علما، اساتذہ اورائمہ کوساتھ لے کرچلتے رہے اورکسی پر اپنا نظریہ تھوپنے کی کوشش نہیں کی ۔اگروہ ایسانہ کرتے توواقعہ یہ ہے کہ وہ قیادت نہیں کرپاتے ۔یہ مثال ہے ایک اچھے اورکھرے قائدکی ۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں قیادت کے جوہر کھلتے ہیں۔اچھااورکھراقائداپنی کہتاکم ہے اوردوسروں کی سنتازیادہ ہے وہ اپنی بات تسلیم کرنے پرزورنہیں دیتا۔حضرت مفتی اعظم راجستھان میں یہ سب سے بڑی خوبی تھی وہ دوسرے کے اختلافی نظریے کی اتنی ہی تکریم کے قائل تھے جتنی اپنے نظریے کی ۔اسی اندازپرانہوں نے راجستھان کے علما،اساتذہ اورائمہ کی تربیت فرمائی اورانہیں حیات ذہنی اورحیات ملی واجتماعی کے معانی کاادراک کرایا۔ یقیناان کی تربیت کابہت سے اداروں اورتعلیم گاہوں پربھاری ہے ۔

یہ المیہ ہے کہ مدارس اوراداروں کے ذمے داران اپنے اپنے اداروں کی خوب سے خوب توسیع چاہتے ہیں مگران کی نظراستحکام پرنہیں ہوتی الاماشا ء اﷲ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہماراکام بظاہرپھیل توجاتاہے مگراندرسے سکڑتاچلاجاتاہے اورہمارے کاموں کوپختگی نہیں حاصل ہوپاتی یہی وجہ ہے کہ عصری تقاضوں کے مطابق باصلاحیت افرادکم کم ہی دست یاب ہوپاتے ہیں۔جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ حضورمفتی اعظم راجستھان توسیع پسندی سے زیادہ استحکام پسندی کے قائل ہی نہیں عامل بھی تھے۔ اس استحکام پسندی کی عملی مثال وہ افرادہیں جوانہوں نے اپنی تربیت،علم ،تجربے سے تیارکیے ہیں۔یہ افرادان کے بعدان کے چھوڑے ہوئے کام کوآگے بڑھاتے رہیں گے ۔وہ ملت اسلامیہ کی حقیقی تبدیلی کے خواہاں تھے ،وہ جانتے تھے کہ جب تک حقیقی تبدیلی یعنی داخلی اورروحانی نظام درست نہیں ہوگاخارجی تبدیلیوں کی اٹھان صحیح رخ پرنہیں ہو گی۔ قرآن کریم نے اسی فلسفے کی طرف اشارہ کیا:اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِہِمْ (سورۂ رعد:آیت ۱۱)یہاں نفس سے مرادداخلی تبدیلی ہی ہے اوریہ وہی بات ہے جواستحکام کے معنی ومفہوم سے مستفادہورہی ہے ۔

ان معنوں میں یہ کہنابالکل بجاہے کہ حضورمفتی اعظم راجستھان بلاشبہہ عظیم ترین انسان تھے۔یہ’’ عظیم ترین ‘‘یوں ہی نہیں لکھاجارہاہے ا س کی پشت پرراجستھان کی وہ ۶۵سالہ تاریخ کھڑی ہے جس میں جگہ جگہ ان کے عظمت ،حوصلے ،ہمت ،خوداعتمادی ،خدااعتمادی ،جذبوں ،ولولوں کے رنگ چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔تاریخ اورعظمت ان ہی جیسے افرادکو تلاش کرتی ہے وہ عظمت اورتاریخ کوتلاش نہیں کرتے ۔ تاریخ میں جتنے بھی بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں انہوں نے سچی قیادت کی مثالیں قائم کیں ۔نتیجہ یہ ہواکہ عظمت و سربلندی انہیں ایساسنبھالادیاکہ وہ تاریخ ملت کاسرنامہ بن گئے۔ ان کے برعکس وہ لوگ جودولت ،خاندانی وجاہت اورمحض علم وفکرکی بنیادپر’’قائد‘‘بن کرصرف اپنی قیادت کی رکاوٹوں کوزندگی بھر دور کرتے اورکراتے رہے وہ جب دنیاسے رخصت ہوئے تو اہل دنیانے بھی ان سے آنکھیں پھیرلیں اورتاریخ نے بھی ۔یہ تاریخ بھی عجیب چیزہے یہ انہی کے استقبال کے لیے اپنے بازوپھیلاتی ہے جوواقعی سراہے جانے کے لائق ہوتے ہیں اوران کی طرف پیٹھ کرکے کھڑی ہوجاتی ہے جوکرائے کے ٹٹوؤں ،جھوٹی شہرت اورخاندانی عزووقار کی بنیادپربڑے بنتے ہیں۔

ہمارے فہم ناقص میں حضرت مفتی اعظم راجستھان کی حیات وخدمات کایہ پہلواتناتابناک ہے کہ مجھے دوسرے پہلوؤں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔ حضرت مفتی اعظم راجستھان کی شخصیت مثال ہے ان کے لیے جوقیادت کے دعوے دارہیں مگراہل نہیں یااہل توہیں لیکن اپنی ذمے داریوں سے غافل۔حضرت موصوف دعوے دارنہیں ،اہل تھے ان کے کامو ں نے انہیں خودبخودقیادت کامنصب ان کے حوالے کردیاتھا۔سچی قیادت اسی کوکہتے ہیں کہ انسان غیرشعوری طورپراس کااسیرہوتاچلاجاتاہے ۔اﷲ عزوجل ان کی قبرکواپنی بے پناہ رحمتوں سے ڈھانک دے اوران کے اخلاف،مریدین ،متوسلین،محبین، معتقدین، متعلمین اورمنتسبین کوان کے نقش قدم پرچلائے۔

sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 189334 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More