تحریر : محمد اسلم لودھی
زندگی اورموت کا سلسلہ از ل سے ابد تک جاری و ساری ہے لیکن کچھ لوگ اپنے
بہترین کردار ٗحسن اخلاق اور شخصیاتی خوبیوں کی بنا پر مرنے کے بعد بھی
مدتوں تک یاد رہتے ہیں اس وقت مراد ممتاز صحافی اختر حیات سے ہے جو گزشتہ
دنوں ایک حادثے کاشکار ہوکر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔مرحوم سے میرا تعلق
نیاز مندانہ تھا اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ ان کی رہنمائی اور
سرپرستی کی وجہ سے ہی میں کالم نگار بنا ہوں یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ
بابائے صحافت اور سابق ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز حکومت پنجاب مراتب علی شیخ
صاحب کے پاس باقاعدگی سے آیا کرتے تھے اختر حیات صاحب سے میری پہلی ملاقات
بھی انہی کے پاس ہوئی ۔مراتب علی شیخ کا شمار میرے اساتذہ کرام میں ہوتا ہے
انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی اور میری تحریروں میں نکھار پیدا
کیا ان کی رائے ہمیشہ میرے لیے اعزاز کا باعث رہی ۔میں ان دنوں روزنامہ
جرات لاہورمیں روزانہ کالم لکھا کرتا تھا جبکہ اختر حیات ان دنوں روزنامہ
پاکستان میں رپورٹر تھے۔ مراتب علی شیخ صاحب نے میرے چند کالم اختر حیات کو
پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ وہ روزنامہ پاکستان میں میرے کالموں کی اشاعت کا
اہتمام کریں ان دنوں روزنامہ پاکستان اکبر بھٹی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا
اور ادارتی سیکشن کے انچارج ممتاز اور بزرگ صحافی حمید جہلمی جبکہ معاون کی
حیثیت سے سعید بخاری ہواکرتے تھے ایک دن اختر حیات مجھے اپنے ساتھ لے کر
سعید بخاری کے پاس پہنچے اور ان سے کہا یہ ہیں اسلم لودھی صاحب جن کی
تحریریں روزانہ روزنامہ جرات میں چھپتی ہیں میرا لکھا ہوا ایک کالم ہاتھ
میں تھماتے ہوئے کہا اب ان کے کالم روزنامہ پاکستان کے ادارتی صفحے پر شائع
ہونے چاہیئں ۔سچ پوچھیں تو مجھے اختر حیات بہت اچھے لگے جنہوں نے کسی لالچ
کے بغیر میرے کالموں کی اشاعت ایک قومی اخبارمیں کرنے کااہتمام فرمایا ۔
پھر جتنے اچھے اختر حیات تھے اتنے ہی نفیس اور ملنسار سعید بخاری بھی تھے
اﷲ تعالی نے ان دونوں کو اتنی خوبیاں عطا فرمائی تھیں کہ ان کا ذکر الفاظ
میں نہیں کیا جاسکتا ۔اس طرح میرے کالم روزنامہ پاکستان کی زینت بننے لگے
اکبر بھٹی کے بعد مجیب الرحمان شامی صاحب نے روزنامہ پاکستان کی ادارت
سنبھالی تب بھی میرے کالم کی اشاعت عرصہ دراز تک جاری رہی اس دوران میں جب
بھی روزنامہ پاکستان کے دفتر جاتا تو جہاں سعید بخاری اور حمید جہلمی صاحب
نہایت شفقت اور محبت سے ملتے وہاں اختر حیات بھی میرے لیے آنکھیں بچھاتا
۔وہ نہایت خوش مزاج اور حوصلہ مند انسان تھا اس کے باوجود کہ وہ ان دنوں
کرایے کے گھر میں رہائش پذیر تھا اور ایک عام آدمی کی طرح ان کا خاندان بھی
معاشی تنگدستی اور دیگر مسائل کا شکار تھا لیکن میں نے اختر حیات کی زبان
سے کبھی مایوسی کے الفاظ نہیں سنے ۔ حتی کہ حالات کی بے رخی سے جب میں بھی
پریشان ہوجاتا تو نہ صرف وہ میری حوصلہ افزائی فرماتے بلکہ زندگی کی نئی
راہوں پر چلنے کا حوصلہ بھی دیتے ۔ انہوں نے اپنی زندگی مختلف اخبارات میں
کام کرتے ہوئے شعبہ صحافت میں گزار دی پریس کلب ان کا دوسرا گھر تھا جہاں
جانا اور بہت دیر تک وہاں رہنا ان کا معمول تھا کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا
کہ ریاض بٹالوی صاحب کی طرح وہ سخت گرمیوں میں فٹ پاتھ پر پیدل ہی چلتے
ہوئے دکھائی دیتے ۔اس کے باوجود کہ ان کا شمار پاکستان کے ممتاز اور تجربہ
کارصحافیوں میں ہوتا تھا اس سطح کے کتنے ہی صحافی بہترین کاروں میں سفر
کرتے اور ڈیفنس میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے مفادات حاصل کرنے کی بجائے شعبہ
صحافت کے پودے کی آبیاری اپنے خون سے کی۔ اپنی ذات کے لیے کسی کے سامنے
ہاتھ نہیں پھیلا یا ۔پھر جب آج ٹی وی کا آغاز ہوا تو جہاں اور بھی بہت سے
صحافی وہاں پہنچے وہاں اختر حیات نے بھی بطور سنیئر رپورٹر جوائن کرلیا ۔اس
دوران جب بھی ان سے ملاقات ہوتی میں نے ان کو ہمیشہ خوش و خرم اور حوصلہ
مند پایا جب سعید بخاری دل کے عارضے میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے
تو سعید بخاری مرحوم کے اہل خانہ کے حق میں آواز بلند کرنے والے دیگر احباب
کے علاوہ میرے ساتھ اختر حیات بھی شامل تھے ۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ
صحافی جو کروڑوں لوگوں کی زبان بنتے ہیں ان کے مسائل حل کروانے کے لیے
بھرپورجدوجہد کرتے ہیں اپنی بہترین رپورٹنگ سے سیاسی لیڈروں کی تربیت کے
فرائض انجا م دیتے ہیں جو حکمرانوں کی زبان سے نکلی ہوئی اوٹ پٹانگ اور بے
ربط باتوں کو خوبصورت لفظوں کا روپ دے کر اخبارات میں کچھ اس طرح شائع کرتے
ہیں کہ بیان دینے والا ہر سیاسی لیڈر اور انتظامی افسر دانشمند اور مفکر
دکھائی دیتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ اصل مفکر وہ رپورٹر اور صحافی
ہیں جو بے چارے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سخت گرمی اور سخت سردی میں رات اور
دن پیدل پھرتے ہیں جن کو پوری زندگی نہ تو جی بھرکے سونا ملتا ہے اور نہ ہی
ان کے بیوی بچوں کو معاشرے میں دستیاب سہولتیں میسر آتی ہیں ۔سارا سارا دن
سرکاری محکموں ٗ کاروباری اداروں اور سڑکوں پر گشت کرنے والے ان صحافیوں کی
جیب میں بعض اوقات کھانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے علاج و معالجہ اور
ٹرانسپورٹ اور معقول رہائش تو دور کی بات ہے ۔ اختر حیات کا شمار بھی ایسے
ہی عظیم صحافیوں میں ہوتا ہے وہ باقاعدہ کالم بھی لکھا کرتے تھے ان کے کالم
ہرقسم کے تعصبات سے بالاتر ہوتے ۔ بہترروزگار کی تلاش انہیں زندگی کے آخری
دنوں میں سٹی 42 میں لے گئی ۔ایک دن میں صوبائی محتسب کے دفتر میں ایک کام
کے سلسلے میں پہنچا تو میرے سے پہلے وہاں اختر حیات موجود تھے وہ اپنی کرسی
سے اٹھ کر مجھ سے بغلگیر ہوگئے اور سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کرکے
کہنے لگے یہ وہ عظیم رائٹر جس کی ہر کتاب سے ماں کی محبت ٗ وطن سے پیار کا
درس ملتا ہے اختر حیات کے یہ الفاظ یقینا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھے
۔یہی ان سے میری آخری ملاقات تھی اس کے بعد بدھ 6 نومبر2013ء کی صبح
اخبارات میں جب اختر حیات کی رحلت کی المناک خبر سنی تو آنکھوں سے بے ساختہ
آنسو نکل آئے۔ پریس کلب سے نکلتے ہوئے انہیں ایک حادثہ پیش آیا سر پر چوٹ
لگنے کی وجہ سے انہیں لاہور کے واحد دماغی امراض کی علاج گاہ جنرل ہسپتال
پہنچایا جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس ہسپتال سے شاید ہی کوئی زندہ
واپس آتا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والا یہ ہسپتال صرف نام کا
ہسپتال ہے جبکہ میعاری علاج کی سہولتیں یکسر ناپید ہیں ۔سناہے بحریہ ٹاؤن
کے ہسپتال میں دماغی امراض کے مفت علاج کا بہترین اور جدید ترین انتظام
موجود ہے لیکن بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں اگر اختر حیات وہاں
بروقت پہنچ جاتاتو شاید اس کی زندگی بچ جاتی لیکن جب زندگی ہی ختم ہوجائے
تو موت کے فرشتے کو کون روک سکتا ہے ۔انسان خودبخود چل کر اس مقام پرپہنچ
جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہونی ہوتی ہے ۔بہرکیف اختر حیات ایک انمول اور
محبت کرنے والاعظیم انسان ٗ جرات مندصحافی ٗ شفیق باپ اور بہترین دوست تھا
وہ پاکستان سے بہت محبت کرتا تھا اسے ہم پیار سے چلتا پھرتا پاکستان
کہاکرتے تھے آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو یہ پاکستان کتنا اداس اور
غمگین دکھائی دیتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو اگر وزیراعلی پنجاب اخترحیات مرحوم
کی فیملی کو بہترین رہائش اور معقول ماہانہ معاوضے کی ادائیگی کا اہتمام
فرمادیں تاکہ پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے اس عظیم صحافی کی رحلت سے
اس کا خاندان معاشی تنگدستی کا شکار نہ ہو۔دعا ہے اﷲ تعالی لغزشوں سے صرف
نظر کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔بے شک ہم سب اﷲ کے
لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ |