صومالی قزاق ساری دنیا کے لئے دہشت کی علامت

قزاقوں کی صدیوں سے پانی پر حکمرانی ہے۔ سمندر میں جہازوں کی آمد رفت اب بھی خطرے سے خالی نہیں ۔ اب بھی بحری جہازوں کا عملہ قرن افریقہ کے پانیوں میں داخل ہوتے ہی خوف و ہراس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں صومالی قزاقوں ساری دنیا میں مشہور ہوچکے ہیں۔ ٹام ہاکسن کی فلم کیپٹن فلپ اس موضوع پر بنے والی ایسی فلم ہے، جس نے ساری دنیا میں عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔ دو ہزار گیارہ کے بعد قزاقی کی ان وارداتوں میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ حال ہی میں اوام متحدہ ورلڈ بنک اور انٹرپول نے ایک رپورٹ جاری کی ہے ، جس میں قزاقی کرنے والے ، ان کے مددگار اور دیگر لوگوں سے انٹرویو کئے گئے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ قزاق آج بھی صدیوں پرانے اصول اور ضوابد کے پاسدار ہیں۔ آج بھی کوئی قزاق اگر کسی یرغمالی عورت کو اس کی مرضی کے بغیر زیادتی کا نشانہ بنائے تو اسے اسی وقت موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ قزاق کسی بھی سمندری راستے میں گزرنے والے بحری جہازوں کو روک کر مسافروں اور عملے کو یرغمال بنالیتے ہیں اور بھاری تاوان طلب کرتے ہیں۔ 2011 میں بحری قزاقوں نے جہازوں پر 176 حملے کیے تھے۔ کئی ایسے بحری جہاز بھی ان کا نشانہ بن چکے ہیں جن کے عملے میں پاکستانی شہری شامل تھے۔ بعدازاں بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد بہ دقت تمام ان کی رہائی عمل میں آسکی تھی۔ بحری قزاقوں سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی رائل نیوی کے 1500 سپاہی اور 14 جنگی جہاز ہمہ وقت سمندر میں گشت پر رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی کارروائیاں جاری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صومالیہ کے کچھ لوگ قزاقی پر اس لیے مجبور ہوئے ہیں کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہاز ان کے سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں، اور مقامی ماہی گیروں کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔گذشتہ کئی برسوں سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں صومالی قزاقوں کا تذکرہ اتنے تسلسل سے ہورہا ہے کہ ہر خطے کے رہنے والے ان کی کارروائیوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ صومالی قزاق قرن افریقا کے ساتھ لگنے والے سمندر میں مستقل اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

قزاق کو صومالیہ میں ایک پیشے کی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ نے نوے کی دہائی میں صومالیہ میں جو فوج کشی کی اس کے سبب ہی قزاقی کو عروج حاصل ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک گلوگارہم کے گیتوں سے یہ قزاق خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ شہرہ آفاق پاپ گلوکارہ برٹنی اسپیئرز کے گیت اس کے کروڑوں چاہنے والوں میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔اس کی جادوبھری آواز کے دیوانے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ برٹنی کے مداحوں کی چاہت نے اسے پندرہ برسوں سے امریکا کی مقبول ترین گلوکاراوں میں شامل کررکھا ہے۔ کیریئر کی ابتدا میں برٹنی کے دو گیت Oops! I Did It Again اور Baby One More Time بے انتہا مقبول ہوئے تھے۔ کئی ہفتوں تک یہ گیت میوزک چارٹس پر سرفہرست رہے تھے۔ اور جن البمز میں یہ گیت شامل تھے، ان البمز نے ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ مغربی پاپ موسیقی کے دل دادگان میں یہ گیت آج بھی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔پاپ میوزک ورلڈ کی یہ گلوکارہ کروڑوں شائقین کی فیورٹ سنگر ہے، مگر حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ برٹنی کی سریلی آواز سے نفرت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ بحرہند کے پانیوں میں دہشت کی فضا قائم کرنے والے صومالی قزاقوں کو امریکی گلوکارہ کی آواز سخت ناپسند ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ برٹنی کی آواز ہی کو ان کے خلاف خفیہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔صومالی قزاقوں کے خلاف بحریہ اب روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ برٹنی اسپیئرز کی آواز سے بھی کام لے رہی ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے مرچنٹ نیوی کی افسر راکیل اووینز کا کہنا تھا کہ صومالی بحری قزاق مغربی ثقافت اور مغربی موسیقی سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی لیے سمندر میں سفر کرنے والے بحری جہازوں کے کپتانوں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ قزاقوں کو دیکھتے ہی وہ برٹنی اسپیئرز کے مذکورہ بالا دو گیت انتہائی بلند آواز سے بجانا شروع کردیں، اور اب تک اس کے بڑے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ برٹنی کے گیت سنتے ہی بحری ڈاکو راستہ بدل لیتے ہیں۔سیکنڈآفیسر اووینز کے مطابق برٹنی کے ان گیتوں کا انتخاب ایک سیکیورٹی ٹیم نے کیا تھا جس کا خیال تھاکہ قزاق ان دو گیتوں کو سخت ناپسند کریں گے، اور بعدازاں یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا۔ سیکیورٹی ایسوسی ایشن فار دی میری ٹائم انڈسٹری کے سینیئر اہل کار اسٹیون جونز کا کہنا ہے کہ یہ ’ ہتھیار‘ اتنا موثر ثابت ہورہا ہے کہ قزاقوں کے حملے کی صورت میں بیشتر اوقات روایتی ہتھیار چلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور وہ برٹنی کی آواز سنتے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں۔صومالی قزاقی کی ابتدا بھی امریکہ کی توسیع پسند عزائم کی وجہ سے ہوئی۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں صومالیہ میں 1990 سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی، جس کے بعد سے سمندر میں صومالی قزاقوں تجارتی جہازوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد یورپی بحری جہاز صومالیہ کی ساحل پر تابکار فضلا اور خطرناک مواد ٹھکانے لگانے لگے جس سے علاقہ میں خطرناک بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں۔ اس کے علاوہ صومالی پانیوں سے بڑے تجارتی یورپی جہاز کثیر تعداد میں غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے لگے۔ مقامی ماہی گیروں نے تیز رفتار کشتیوں میں ان یورپی جہازوں کا تعاقب شروع کر دیا اور اس طرح قذاقی کی ابتدا ہوئی۔اپریل 2009 میں کچھ سولہ سے انیس سالہ قزاق لڑکوں نے امریکی مال بردار جہاز کے کپتان رچرڈ فلپس کو جان بچاؤ کشتی میں گرفتار کر لیا۔ امریکی بحریہ کے نشانہ بازوں نے قزاقوں کو قتل کر کے رچرڈ کو چھڑا لیا۔ امریکی اخبارات کے مطابق صدر بارک اوبامہ نے اس جھڑپ کی خود نگرانی کی اور اپنے پہلے فوجی امتحان میں سرخرو ہوئے۔مارچ 2011 میں بھارتی بحریہ نے کچھ قیدیوں کو قزاقوں سے چھڑایا۔ مگر 5 پاکستانیوں کو تین ماہ تک بھارت نے ممبئی جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا۔جون 2011ء میں انصار برنی وَقف نے چندا اکٹھا کر کے 2.1 ملین امریکی ڈالر کا تاوان ادا کر کے 22 ملاحوں کو صومالی قزاقوں سے ایک سال کی قید کے بعد چھڑایا۔ ملاحوں میں 11 مصری، 6 بھارتی، 4 پاکستانی، اور 1 سری لنکن شامل تھے مگر تاوان کی رقم صرف پاکستانیوں نے ادا کی ۔قزاقوں کے خلاف کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں کبھی کبھی غلط فہمی بھی ہوجاتی ہے۔ ایک ایسی ہی کاروائی میں صومالیائی ساحل کے قریب ہندوستانی بحریہ نے صومالی قزاقوں کے بجائے تھائی کمپنی کے ایک جہاز کو ڈبو دیا گزشتہ ہفتے خلیج عدن میں گشت کر رہے بھارتیہ بحریہ کے جہاز آئی این ایس طبار نے ایک بڑی کشتی پر گولہ باری کر کے اسے ڈبودیا تھا۔ جو افراد اب تک قزاقوں کی کارروائیوں سے محفوظ رہے ہیں انہیں بھی ہر وقت کا دھڑکہ لگا رہتا ہے کہ قزاقوں کی اگلی کارروائی کا نشانہ انہی کا جہاز بنے گا۔ بھارتی مالبردار جہاز ’صفینہ ابراہیمی‘ کے عملے کے اراکین اس سلسلے میں بہت چوکنا رہتے ہیں۔ اس جہاز کے کپتان عثمان داؤد کی آنکھوں کے گرد حلقے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ اْن کے بقول’ہم چویس گھنٹے قزاقوں پر نظر رکھتے ہیں‘۔خود اعلان کردہ جمہوریہ ’صومالی لینڈ‘ کے بندر گاہ ’بربیرہ‘ پر لنگر انداز ہونے والے صفینہ ابراہیمی کا عملہ 20 تاجر پیشہ جہاز رانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے کپتان عثمان داؤد کا کہنا ہے،’ مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ کتنی بار قزاق ہمارے جہاز پر سوار ہوئے۔ ایسا کم از کم بیس بار ہوا ہے‘۔عثمان داؤد نے یہ بھی بتایا کہ اْن کے عملے کے اراکین کو اچھی طرح یہ یاد ہے کہ کون سی تاریخوں کو قزاقوں نے حملہ کیا اور موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیاء اپنے قبضے میں لے لیں اور چند روز بعد انہوں نے پھر کسی اور جگہ سے لوٹ یا ڈاکے کا مال حاصل کیا۔ صومالی قزاقوں کے لیے جہازوں پر موجود الیکٹرونک مصنوعات، استعمال شدہ گاڑیاں، ٹرکوں کے پہیے، چاولوں کی بوریاں اور دیگر اشیاء کوئی خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہوتیں۔ ان کا اصل ہدف یورپی اور امریکی آئل ٹینکر ہوتے ہیں کیونکہ اگر ان کے عملے کو یرغمال بنا لیا جائے تو عموماً تاوان کی بہت بھاری رقوم حاصل ہوتی ہیں۔ ’صومالی لینڈ‘ کی بندر گاہ ’بربیرہ‘ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ’ابوکو جاما‘ کو قزاقوں کی سرگرمیوں کا بخوبی اندازہ ہے۔ وہ کہتے ہیں’ ہر ماہ اس بندرگاہ پر30 جہاز اور 50 کے قریب جھوٹی کشتیاں آکر لنگر انداز ہوتی ہیں، جبکہ چند سالوں پہلے تک ان جہازوں کی تعداد 40 سے 60 کے درمیان اور کشتیوں کی 60 تا 80 ہوا کرتی تھیں‘۔صومالی لینڈ جیسے چھوٹے افریقی ملک کی بندرگاہ سے ہونے والی آمدنی میں واضح کمی اس ملک کے لیے کافی تکلیف دہ ہے۔ صومالی لینڈ ہنوز عالمی برادری کی طرف سے اپنے وجود کے تسلیم کیے جانیکا منتظر ہے۔’صومالی لینڈ‘ کے بندر گاہ ’بربیرہ‘ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ’ابوکو جاما‘ کا کہنا ہے کہ صومالی لینڈ کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ اسی بندرگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہں سے اونٹ، بھیڑیں، اور بکریاں خلیجی ریاستوں میں بذریعہ بحری جہاز بھیجی جاتی ہیں۔قزاقی کوئی نیا کام نہیں ، معلوم تاریخ میں اس کی ابتداء صدیوں قبل ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جب سے انسان نے سمندر کے راستے سفر کرنا شروع کیا ہے اسی وقت سے اس کام کی بھی ابتداء ہوئی۔ بری راستوں پر جانے والے قافلوں کو اگر لوٹا جاتا تھا تو بحر ی ڈاکو(قزاق) سمندر میں سفر کرنے والے مسافروں سے بھی مال ومتاع چھین لیتے تھے۔ بحری قزاق صدیوں سے سمندروں میں موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں لیکن اکسیویں صدی میں صومالیہ کے قزاقوں نے کروڑوں ڈالر تاوان وصول کرکے اس کام کو ایک انتہائی منافع بخش صنعت کا درجہ دیدیا ہے۔
آج ایک سوال جو جدید دور میں زندگی گزارنے والوں کو پریشان کر رہا ہے کہ جب دنیا اتنی ترقی کرچکی ہے ، امریکی سیارے زمین پر چلتی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتے ہیں ، اس کے ڈرون طیارے غاروں میں پناہ گزین افراد کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور دنیا کے ہر ملک کے پاس جیٹ فائٹرز ہیں تو پھر ان صومالی قزاقوں کو مارنے کی بجائے تاوان کیوں دیا جاتا ہے۔ ان بحری قزاقوں کی تمام شرائط من وعن کیوں تسلیم کی جاتی ہیں اور برطانیہ و امریکہ جیسے ممالک اپنے بحری جہازوں کو ان سے کیوں نہیں بچا سکتے۔ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دنیا صرف ہمارے لئے ہی جدید نہیں ہوئی ، صومالی قزاقوں نے بھی ترقی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور ڈالروں سے اپنی تجوریاں ہی نہیں بھریں ، انتہائی حساس کمیونیکیشن نظام بھی خریدا ہے۔ قزاقوں کے پاس اس وقت جدید ترین سیٹلائیٹ فون، انٹرنیٹ، موبائل، جی پی ایس سسٹم اور بحری جہازوں کیلئے راستوں کی نشاندہی کرنے والا ریڈار نظام بھی ہے۔ قزاقی پر تحقیق کرنے والے ایک برطانوی محقق کے مطابق کچھ قزاقوں نے اپنی کشتیوں پر ایسے ریڈار نظام اور انٹینا نصب کئے ہیں جو سیٹلائٹ نظام اور جنگی جہازوں تک ان کے سگنل کو پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ
لوگ اپنے شکار کو بہت مہارت اور کامیابی کے ساتھ مطلوبہ علاقے میں لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس وقت بحری قزاقوں کا سب سے بڑا مرکز صومالیہ کی ساحلی پٹی ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں مؤثر حکومت کا نہ ہونا ہے۔ 1991ء سے لے کر آج تک صومالیہ میں کوئی مضبوط اور مؤثر حکومت کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا جس کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے اور مختلف مسلح دھڑوں نے اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کررکھی ہیں۔ عام طو ر پر کہا جا رہا ہے کہ خلیج عدن کا پورا علاقہ ہی قزاقی کی لپیٹ میں ہے اور امریکہ سے آسٹریلیا جانے والا کوئی جہاز بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں لیکن زیادہ ترقزاقوں کا بسیرا صومالیہ کا تین ہزار تین سو تیس کلومیٹر طویل ساحل ہی ہے۔

خلیج عدن اور افریقہ کے ساحلوں پر تو قزاقی عام ہے لیکن اب یہ وبا بحرہند تک پہنچ چکی ہے اور عالمی سمندر میں بھی قزاق جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بحری افواج اپنے مال بردار جہازوں کو تحفظ فراہم کرنے اور قزاقوں کے خلاف کارروائی کیلئے عالمی پانیوں میں متحرک رہتی ہیں لیکن صومالی قزاق پھر بھی باز نہیں آتے۔ صومالی قزاقوں کی یہ سرگرمیاں پچھلے کئی برسوں سے جاری ہیں۔ یہ قزاق، بنیادی طور پہ صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ بر اعظم افریقہ کا حصہ ہے۔ قزاقوں کی اس سرگرمی کا باعث کئی باتوں کو بتایا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیاسی عدم استحکام اور برسوں سے جاری خانہ جنگی جسکی وجہ سے عملاً کوئی حکومت نہیں ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صومالی مچھیروں کی انتقامی کارروائی ان غیر ملکی ٹرالرز کے خلاف ہے جو کہ انکے سمندری حصے میں آکر اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑتے تھے کہ انہوں نے سمندر کو مچھلیوں سے خالی کر دیا اور اس سے مقامی مچھیروں کا ذریعہ ء روزگار ختم ہو گیا۔ان قزاقوں میں تین طرح کے لوگ شامل ہیں۔مقامی مچھیرے، جنہیں سمندر سے پوری واقفیت ہے اور یہ قزاقوں کا ماسٹر مائینڈ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی بوٹس کو انکے ساحل کے قریب سے گذرنے کا کوء حق نہیں۔ سابق فوج کے افراد جو پہلے اپنے جنگی سرداروں کے لئے لڑا کرتے تھے اب اس کام میں شامل ہو گئے۔تیکنیکی مددگار جو تیکنیکی آلات کو دیکھتے ہیں مثلاً جی پی ایس۔یہ صومالی قزاق اپنی سمندری حدودوں کے قریب سے گذرنے والے پانی کے جہازوں پہ قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر لاکھوں ڈالر تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔صومالیہ ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے لیکن غربت یہاں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ قزاقوں کو ایک لمبے عرصے سے اتنی کامیابی سے حملہ کرتے دیکھ کر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ ان قزاقوں کو اسلحہ کہاں سے ملتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اسلحہ انکے پاس یمن اور موغادیشو کے رستے سے آتا ہے۔ دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ تاوان کی رقم ادا کیسے کی جاتی ہے۔ تاوان کی رقم ڈالرز کی شکل میں ادا کی جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز تک پہنچائی جاتی ہے۔قزاقوں کے ذریعے آمدنی نے علاقے کے معاشی حالات کو بہت بہتر کر دیا ہے۔ بہترین گھر بنے، تفریحی مقامات وجود میں آئے، مختلف اشیائے زندگی کی ڈیمانڈ بنی انکی مارکیٹ وجود میں آرہی ہے اور یوں خوشحالی نے جگہ بنالی ہے۔ خوش شکل لڑکیوں کو بھی مالدار بحری قزاقوں کی رفاقت ملی۔مقامی آبادی کے لوگ اس چیز سے خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے سمندر کے ماحول کو جو نقصان پہنچایا گیا اس طرح وہ اسکی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں بھی چند شکایات ہیں اور ان میں سر فہرست قزاقوں کا نشہ آور اشیاء اور اسلحے کا بے دریغ استعمال۔قزاقوں کی اس مصیبت سے وہاں سے گذرنے والے جہاز خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس علاقے کی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں سے ہر سال ہزاروں پانی کے مال بردار اور مسافر جہاز گذرتے ہیں۔ یوں یہ منظر بیک وقت قزاقوں کے لئے خوشحال زندگی کی نوید بنتے ہیں اور پانی کے جہاز سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک مسلسل خطرہ۔ اسکے علاوہ کاروباری حلقوں کی سرگرمیاں بھی اس سے متائثر ہوتی ہیں اور اعتماد دگرگوں ہوتا ہے۔اس ساری بظاہر دہشت ناک صورت حال کے باوجود ان قزاقوں کی پیدائیش کا ایک مثبت اثر محسوس ہو رہا ہے اور وہ صومالیہ اور اسکے ارد گرد کے سمندر کی ماحولیاتی زندگی کی بحالی ہے۔ صومالیہ سے منسلک کینیا میں رواں سال مچھلی کی بہترین پیداوار رہی۔ اسکی وجہ، بحری قزاقوں کے خوف کی وجہ سے باہر کے ٹرالرز کا شکار سے دور رہنا ہے۔خوف، شکار ہو جانے والوں کو کمزور بنا سکتا ہے مگر استعمال کرنے والوں کو مضبوط۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا اس دہشت گردی پہ قابو پانے کے لئے کیا راستہ نکالتی ہے۔اقوام متحدہ سے بحری قزاقی کی روک تھام کے لیے فورس قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ بحری جہازوں کے مالکان کی ایک بھارتی تنظیم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صومالی قزاقوں سے مقابلے کے لیے ایک خصوصی فورس قائم کرے۔ایسوسی ایشن نے کہا کہ قزاقی سے بین الاقوامی پیمانے پر جہاز رانی کی صنعت کو انشورنس، تاوان ، جہازوں پر محافظوں کی تعیناتی اور قزاقوں سے بچنے کے لیے طویل راستے اختیار کرنے پر ہر سال تقریباً 9 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔تنظیم کا کہناہے کہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی فورس کے محافظوں کو تجارتی جہازوں پر تعینات کیا جائے اور انہیں ایسے جہازوں پر چڑھنے کا اختیار حاصل ہو، جس پر یہ شبہ ہوکہ ان میں قزاق موجود ہوسکتے ہیں۔کئی برسوں سے بحری جہازوں کو یرغمال بنانے کی کارروائیوں مصروف صومالی قزاقوں نے اب اپنی کارروائیوں کا دائرہ بحیرہ عرب اور بحر ہند تک بڑھا دیا ہے جو صومالیہ کی ساحل پر واقع ان کے مراکز سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔بین الاقوامی سمندروں کی نگرانی سے متعلق ادارے کا کہناہے کہ اس وقت صومالی قراقوں کے قبضے میں 15 بحری جہاز اور عملے کے277 افراد موجود ہیں۔دنیا کے مصروف ترین آبی تجارتی راستے میں حالیہ مہینوں کے دوران قزاقی کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے انشورنس کی لاگت اور مال برداری کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں جبکہ صومالی قزاق اب تک کروڑوں ڈالرزتاون کی صورت میں وصول چکے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بین الاقوامی سطح پر قزاقوں کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ پہلے ایسا کیا جاسکتا تھا کیونکہ قزاقوں کا پیچھا کرنے والی فورسزکو صومالیہ کی زمینی حدود میں ان کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں تھی حالانکہ قزاقوں نے زمینی علاقوں میں ہی اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں.امریکا نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کرائی تھی۔ اس کے تحت ان ممالک کو قزاقوں کے خلاف کارروائی کا اختیارحاصل ہوگیا ہے جو صومالیہ کی عبوری حکومت کے مطابق اس کے ساتھ تعاون کررہے ہیں .صومالی حکومت نے ایسے ممالک کی فہرست اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون کو پیش کی تھی.۔پچھلے عرصے میں بحری قزاقوں کی سرگرمیوں میں کمی نظر آئی ہے، خلیج عدن سے گزرنے والے تجارتی اور سیاحتی جہازوں پر حملوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم بیورو کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ بحری قزاقوں کی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ اس علاقے میں متعین بین الاقوامی بحری دستوں کے اقدامات ہیں۔کہا جاتا ہے کہ صومالیہ کے پانیوں میں سرگرم بحری قزاق اب اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔ رواں سال وہاں تجارتی جہازوں پر صرف آٹھ حملے رجسٹرڈ کئے گئے ہیں، بحری قزاق صرف دو جہازوں پر قبضہ کر سکے۔ سن دو ہزار چھہ سے بحری قزاقوں کی سرگرمیوں میں اس قدر کمی نہیں ہوئی تھی، بحری قوانین سے متعلق روسی مرکز کے اہلکار کے مطابق قوی امکان ہے کہ بحری قزاق خلیج عدن میں بین الاقوامی بحری دستوں کی تعنیاتی کے پیش نظر اپنی سرگرمیاں روکنے لگے ہیں۔ بین الاقوامی دستے اور مختلف ممالک کے جنگی بحری جہاز خلیج عدن میں مسلسل گشت جاری رکھے ہوئے ہیں اس لیے بحری قزاق تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔بین الاقوامی بحری دستے تمام مشکوک جہازوں کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔بحری دستوں کی تعنیاتی کے علاوہ قانون سازی کے میدان میں کئے جانے والے اقدامات بھی اہم ہیں۔ اقوام متحدہ کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے جن کے ذریعے بحری قزاقی کے مقابلے سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو بہتر کیا گیا ہے۔ اب صومالیہ کے پانیوں میں حتی کہ صومالیہ کی سرزمین پر بحری قزاقوں کو گرفتار کئے جانے کی اجازت ہے جس سے بحری قزاقوں کو گہرا جھٹکا لگ چکا ہے۔خطرناک سمندری علاقوں میں جنگی بحری جہازوں کی تعنیاتی ایک موثر تدبیر ثابت ہوئی ہے لیکن بڑی جہازراں کمپنیاں اس پر مطمئن نہیں ہوئیں اور اپنے تجارتی جہازوں کے عملوں میں محافظین کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان محافظین کے پاس واٹر کیننز اور نوکدار تار ہے جو بحری قزاقوں کے حملوں کو ناکام بنائے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر بحری قزاقوں کو گرفتار کیا جائے تو انہیں عدالت کے سامنے لایا جانا ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کونسے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بحری قزاقوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

عالمی برادری ایسا قانون ابھی تک منظور نہیں کر سکی ہے اس لیے خدشہ ہے کہ بحری قزاق ایک علاقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں اپنی سرگرمیاں تیزتر کریں گے۔یہ بھی اطلاع ہے کہ مغربی یورپ کی بڑی بیمہ کمپنیاں (بحر ہند میں) صومالیہ کے پانیوں میں جہازرانی کی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر بحری بیڑا تشکیل دے رہی ہیں۔ منصوبے کے مطابق خلیج عدن میں تیز رفتار بحری کشتیاں متعین ہوں گی۔ ہر کشتی کا عملہ چار اراکین اور نو مسلح فوجیوں پر مشتمل ہوگا جنہیں بحری قزاقوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا حق ہے۔ ایک کشتی کی خدمات اٹھارہ ہزار ڈالر کے عوض حاصل کی جا سکیں گی۔لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود جب تک خوراک، تعلیم، ذریعہ معاش، اور مستحکم حکومت نہیں ہوگی، پوری دنیا میں سماجی انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہوگی۔ قزاقی یا لوٹ مار کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا۔
 
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387533 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More