ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

باہر کے دروازے پر دستک سن کر پہلے تو میں نے سوچا کہ نہ جاؤں میں ابھی گھر پہنچا تھا اور تھک کر چور ہو رہا تھا لیکن دوبارہ اور سہ بارہ بھی کنڈی کھٹکی تو مجبوراً اٹھنا پڑا۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو میرا ایک پرانا دوست کھڑا تھا جسے ہم سب بہت مذہبی کہا کرتے تھے، بڑا ہی عجیب آدمی ہے جب فارغ ہوتا ہے تو زبردست قسم کا مذہبی بن جاتا اور جب اس کو نوکری مل جاتی تو اس کے صرف اُس کے خیالات ہی مذہبی رہ جاتے لیکن کام سارے منافقوں کی طرح کیا کرتا تھا وہ اکثر ملازمتیں بدلتا رہتا ہے چنانچہ جن دنوں وہ نوکری میں نہیں ہوتا تو سب دوست اس سے ہمدری کرتے لیکن جیسے ہی اسے ملازمت ملتی وہ کسی کو منہ بھی نہ لگاتا یہ اس کی پرانی عادت تھی، میں اسے دیکھ کر زبردستی مسکرایا اُس کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی وہ شاید میری ابتر حالت کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا وہ مجھ سے بغلگیر ہوا میں اس کے موٹے پیٹ کے دباؤ سے بامشکل نکلا مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا، خود کو غیر محسوس طور پر اس کی گرفت سے آزاد کرایا میں نے ایک طویل سانس لی اور اپنے حواس کو بحال کیا اور پھر اس کی خیریت دریافت کی بتاؤ کیسے حال چال ہیں؟

کہنے لگا اچھے حال نہیں ہیں تم سناؤعلی! تم کہاں ہو؟ آج یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا تم سے ملتا چلوں میں زبردستی مسکرایا آپ کی نواش ہے، بڑا احسان ہے جو آپ نے ہم غریبوں کو یاد کیا۔

"نہیں بھائی احسان کاہے کا! دوست ہیں، دکھ سکھ میں دوست ہی دوست کے کام آتا ہے"۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بات کروں بغیر سوچے سمجھے پوچھ بیٹھا کہ کچھ ملت کی سناؤں، ملت کے کیا حال ہیں؟ یہ سنتے ہی اُس نے ایک گہرہ آہ بھری اور چندیا پر سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولاحال کیا پوچھتے ہو میاں! ملت کہاں رہی قوم کا تو شیرازہ بکھر گیا اب تک نجانے کتنے بچے یتیم ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم کتنے سہاگ اُجڑ چکے ہیں۔ ہمارے تو ظلم ہو رہا ہے قہر ہے قہر! یہ کہہ کر اس نے آنکھوں کو بند کرلیا جیسے اند ہی اندر رو رہا ہو۔ ارے یار تم تو گھر میں بیٹھے ہو ذرا باہر نکل کر دیکھو لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے، معاشی قتل عام ہوچکا ہے، لوگ بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے اُسے ڈکار آگئی اور پھر وہ اپنے نکلے ہوئے پیت پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا "یار تمہارے گھر کے قریب جو ہوتل ہے اُس کا کھانا بڑا لذیذ ہے ابھی ہوٹل میں دو پلیٹ مرغی کھائی بلکہ شاید دو مرغیاں کھا گیا۔ اُس وقت تو پتا نہیں چلا اب پیٹ میں گڑبڑ ہو رہی ہے۔ میں مسکرایا اور سوچنے لگا کاش مرغی کی ایک ٹانگ کے پیسے وہ قوم کے کسی ضرورت مند کو دیدیتا! اچانک اُس کی نگاہ گھڑی پر پڑی، اچھا یار گرمی بہت بڑھ گئی ہے چلتا ہوں جاکر کسی ایئر کنڈیشنڈ سینما میں فلم دیکھوں گا، فلمیں تو مجھے پسند نہیں ہیں بس وقت گزارنا ہے اور اب ویسے بھی قوم کی حالت دیکھ کر کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا۔ میں نے مسکرائے بغیر ہاتھ ملا کر اُسے رخصت کیا اور وہ جلدی جلدی سڑک کی طرف چلا گیا۔

ہر روز کی طرح آج بھی بوریت محسوس کر رہا تھا، کیا کروں ملازمت تو تھی نہیں اور گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی بس سوائے تفکرات کے اور کچھ نہ تھا خیال آیا کہ کیوں نہ کسی دوست کے پاس سے ہو آؤں (اور دوستوں کے بغیر بھی تو گزارا نہیں ہوتا…) ایک دوست کے دفتر پہنچا اور پھر اُس کے کمرے کی طرف بڑھا باقی لوگوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور کام میں مصروف ہوگئے سب جانتے تھے کہ اکثر آتا رہتا ہے، دروازہ کھول کر میں اندر گیا تو موصوف فائلوں میں اُلجھے ہوئے ہیں گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا اور بولے بس یار علی دو منٹ! اور پھر کام میں مصروف … اور پندرہ منٹ تک مصروف رہے، فارغ ہونے کے بعد لبوں پر مسکراہٹ سجا کر بولے اور سناؤ کیا چلے گا ٹھنڈا یا گرم! میں نے تکلفاً کہا کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی اُس نے چائے منگوائی اور کہنے لگا سناؤ کیسی گذر رہی ہے؟ میں نے رسانیت سے جواب دیا بس یار گذر رہی ہے، تم سناؤ حالات کیسے ہیں؟

اس کا چہرہ یکدم سرخ ہوگیا، غصہ میں کہا ارے یار چھوڑو اس بات کو، سوئے ہوئے درد مت جگاؤ! بدقسمت لوگوں کا کیا حال پوچھتے ہو؟ یہ بھی کوئی قوم ہے جس کے لیڈر اور رہنما کسی کام کے نہ ہوں! دل چاہتا ہے سب کو لائن میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون ڈالوں۔ مجھے اس بات کی امید نہ تھی نہ چاہتے ہوئے بھی کہہ گیا بھائی جان اگر ان رہنماؤں کو گولی مار دو گے تو ملت کسی کام کی نہ رہے گی۔ وہ بولا یار! تم بھی کس دنیامیں رہتے ہو، یہ لوگ بڑے مفاد پرست ہیں پہلے تو وزارتیں اور عہدے حاصل کرنے کے چکر میں لگے رہے اور جب کچھ نہ ملا تو دشمنوں سے مل گئے۔ میں فوراً بولا نہیں یار! اِن لوگوں نے اُصولوں اور عوام کی خاطر اقتدار کو ٹھکرا دیا۔ "بہت بھولے اور سیدھے ہو علی" یہ فقط غلط پروپیگنڈا ہے جب کرسی نہ ملی تو کہتے ہیں ہم نے خود ٹھوکر مار دی۔ قوم کو ایسے غداروں کی نہیں ہم جیسے مخلص اور با تقویٰ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اور تم تو جانتے ہو ہم ملنگ لوگوں کی خاطر تختہ دار پر بھی چڑھ جائیں گے۔ ویسے یاور اب ہماری عوام بھی بزدل ہوگئی ہے۔ میرا دل کٹھا ہوچکا تھا اس لئے اٹھنے لگا ، وہ بولا کیا جا رہے ہو؟ بیٹھو یار! میں نے کہا ں نہیں پھر آؤں گا اور جاتے جاتے درواسے سے پلٹ کر میں نے اُس سے پوچھا کیا ہوا آج کل کالم وغیرہ نہیں لکھ رہے؟ کہنے لگا یار وقت ہی نہیں ملتا اور ویسے بھی سوچتا ہوں قلم، کاغذ اور دوات اپنے پیسے سے لوں اور لکھتے وقت دودھ بھی اپنے پیسے سے پیوں تو کیا فائدہ ! اب تو جو پیسے دیگا اُس کے لئے قلم کو جنبش دونگا، بس بابا بہت ہوچکی قوم کی خدمت! میں کچھ کہے بغیر اُس کے آفس سے نکل آیا سارے راستے مجھے ملک و ملت کی حالت کا احساس ستاتا رہا۔

ایک دن میں نے سوچا کہ یونیورسٹی کا چکر لگایا جائے پھر میں نے سوچھا کہ اگر میں جامعہ گیا تو وہاں کے چکروں میں پھنس جاؤں گا، کوئی پارٹی مجھے اپنی طرف بلائے گی یا پھر کوئی اسٹوڈنٹ لیڈر مجھے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر سوچا کہ فارغ تو ہوں کیوں نہ جامعہ چلا ہی جاؤں۔ میں جامعہ کی حسین سڑکوں پر چہل قدمی کرتا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر نظر آیا میں ایک دم ایک درخت کے سائے میں ہوگیا کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لے، میں اُس سے ڈرتا نہیں تھا بلکہ اِس لئے بچنا چاہ رہا تھا کہ اگر وہ مل گیا تو کہے گا چائے پلاؤ، کل سے کچھ بھی نہیں کھایا سموسے بھی کھلاؤ! اور میں منع تو کر نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ ہمارا لیڈر تھا اور لیڈر کا پیٹ بھرنا ہمارا فرض ہے اور ویسے بھی میرے پاس صرف پچاس کا نوٹ تھا اور مجھے ابھی سارا دن گزارنا تھا اس لئے میں اسے ٹال گیا۔ مجھے وہاں ہر طرف اسٹوڈنٹس اپنی اپنی پارٹیوں کے لئے کام کرتے نظر آئے لیکن میں تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھتا چلا گیا، یکایک میری نظر سامنے کھڑی ایک نئے ماڈل کی چمچماتی کار پر پڑی، کار کے رنگ اور ماڈل سے میں نے پہچان لیا کہ یہ کار کس کی ہوسکتی ہے؟ یہ کار ایک نئے قومی رہنما کی تھی۔ اسی اثناء میں وہ ایک دوکان سے نکل کر اپنی کار کی طرف بڑھا میں راستہ بدل کر دوسری طرف چلا گیا کیونکہ اگر وہ مجھے دیکھ لیتا تو اپنی نئی کار کے بارے میں بتانا شروع ہوجاتا، بنگلے کے متعلق سناتا، قوم کی بدحالی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتا اور لوگوں کی بے حسی پر لمبی لمبی تقریریں کرتا اور پھر میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھتا اور مجھے جھوٹی مسکراہٹ سجانی پڑتی جس کی مجھ میں ہمت نہیں اس لئے میں بوجھل دل لئے گھر کی طرف چل پڑا۔

میں گھر میں لیٹا ہوا تھا کہ مجھے مغربین کی آذان کی آواز آئی میں نے سوچا کہ چلو آج اللہ کو بھی یاد کرلیں اور اللہ کے نیک بندوں سے ملاقات کا شرف حاصل کریں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہاں میری ملاقات ایک اُستاد جی سے ہوئی جو بچوں کو قرآن ناظرہ کی تعلیم دیا کرتے ہیں، سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ زندگی کیسی گذر رہی ہے؟ کہنے لگے بیٹا علی ! کیا پوچھتے ہو بس بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے سارا دن گذر جاتا ہے اور یہاں بچوں کو پڑھانے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ بچے بھی کم ہیں ایک بچہ 100 یا 150 روپے دیتا ہے گزارا کہاں ہوتا ہے آپ کو تو پتا ہی کہ مہنگائی کتنی ہوگئی ہے! بیٹا کچھ اور بچوں کا بندوبست کرو، میں سوچ رہا ہوں کہ کچھ پیسے جمع کرکے ایک موٹر سائیکل لے لوں تاکہ باہر کے بڑے علاقوں میں جاکر بچوں کو قرآنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کروں اور وہاں تو پیسے بھی زیادہ مل جائیں گے۔ اچھا اب ملتا ہوں مجھے جلدی گھر پہنچنا ہے، زندگی رہی تو انشاء اللہ پھر ملیں گے۔ میں مسجد سے باہر نکل آیا گھر جانے کو دل بھی نہیں چاہ رہا تھا اس لئے سڑکوں پر ہی گھومنے لگا اچانک مجھے اپنے پیچھے کسی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی، میں ڈر کر سائیڈ میں ہوگیا! دیکھا تو وہ ایک ٹیکسی تھی جس میں ایک لیڈر اور دو تین تنظیمی ساتھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھ کر اُنھوں نے مجھے بھی ٹیکسی میں بٹھالیا کہنے لگے آج مہنگائی پر اجلاس ہو رہا ہے ہم سب وہیں جا رہے ہیں اس لئے تم بھی چلو، وہ جو لیدڑ تھے اُن کو بھی وہاں تقریر کرنی تھی! جب وہاں پہنچے تو اجلاس شروع ہوچکا تھا پھر ہمارے ساتھی لیڈر کا نمبر آیا تو انھوں نے مہنگائی کے خلاف لمبی چوڑی تقریر کی اور لوگوں کو سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین بھی کی جبکہ وہ خود ہر جگہ ٹیکسی سے آتے جاتے، کوئی بڑا پروگرام ہوتا تو کرائے کی گاڑی لے آتے۔ واپسی کے وقت اُن کے ساتھ کچھ اور بڑی شخصیات نظر آئیں، میں نے سوچا لگتا ہے کہ بُرا وقت آگیا اور ہوا بھی ایسا ہی اُنھوں نے مجھ سے کہا یار علی ! ایسا کرو تم بس میں آجاؤ، بزرگوں کا احترام بھی ضروری ہے اِس لئے میں خاموش رہا۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ گھر کس طرح جاؤں کیونکہ اگر میں بس میں گھر جاتا ہوں تو پیسے کرایہ میں خرچ ہوجاتے ہیں جبکہ میں نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا یہ ہی سوچتا ہوا میں اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا ، آخر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے گھر پہنچنا چاہیے کیونکہ رات بہت ہوچکی تھی۔

گھر پہنچنے کے بعد میں اپنی چار پائی پر لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس قوم کا کیا ہوگا ہماری قسمتیں کب جاگیں گی! یہ سوچتے سوچتے میری آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور تکیے میں جذب ہوگئے پتہ نہیں یہ آنسو قوم کی حالت پر نکلے تھے یا پھر شدید بھوک کی وجہ سے ………

S mubarak zaidi
About the Author: S mubarak zaidi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.