اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو
اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقینا اللہ تعالی سننے والا، جاننے والا ہے
(سور الحجرات )
دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو
ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف
سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح
کوئی فتوی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے
نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو ۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر
مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی
میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو
تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح
تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔
اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے
جس سے بیشعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں جیسا کہ سور الحجرات کی
آیات نمبر 2 میں بیان ہے کہ
یا یہا الذِین آمنوا لا ترفعوا صواتم فوق صوتِ النبِیِ ولا تجہروا لہ
بِالقولِ جہرِ بعضِم لِبعض ن تحبط عمالم ونتم لا تشعرون(سورت الحجرات:آیت
نمبر:٢)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے
اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ، کہیں ایسا نہ ہو
کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ صحیح بخاری، تفسیر
سور الحجرات
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے
ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔
ان کے لئے مغفرت ہے اور بڑاثواب ہے
یا یہا الذِین آمنوا ونوا نصار اللہِ ما قال عِیسیٰ ابن مریم لِلحوارِیِین
من ا نصارِی ِل اللہِ قال الحوارِیون نحن نصار اللہِ فآمنت طائِف مِن بنِی
ِاسرائِیل وکفرت طائِف فایدنا الذِین آمنوا علی عدوِہِم فاصبحوا ظاہِرِین
(سورت الحجرات)
مومنو! خدا کے مددگار بن جا جیسے عیسی ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ بھلا
کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم
خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور
ایک گروہ کافر رہا۔ آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے
مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے
وہو الذِی سخر البحر لِتاکلوا مِنہ لحما طرِیا وتستخرِجو ا مِنہ حِلیة
تلبسونہا وتر الفلک مواخِر فِیہِ ولِتبتغوا مِن فضلِہِ ولعکم تشکرون (سور
النحل: ٤١)
اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے نکلا
ہواتازہ گوشت کھا اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم
دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں اور اس لیے بھی کہ تم
اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو۔
آمن الرسول بِما انزِل اِلیہِ مِن ربِہِ والمؤمِنون کل آمن بِاللہِ
وملائکِتِہِ وکتبِہِ ورسلِہِ لا نفرِق بین احد مِن رسلِہِ وقالوا
سمِعناواطعنا غفرانک ربنا واِلیک المصِیر(سورة البقرہ، 2 : 285)
رسول خدااس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان
رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں
پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے
پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ہم
نے تیرا حکم سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور
تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
وہ رسول اس پر ایمان لائے یعنی اس کی تصدیق کی جو کچھ ان پر ان کے رب کی
طرف سے نازل کیا گیا اور اہل ایمان بھی، سب ہی دل سے اللہ پر اور اس کے
فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔
سوال:سید کون ہیں؟ کیا ان کی تعظیم لازمی ہے؟
جواب:اسلام میں ذات پات اور سید کا معنی و مفہوم:
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض
قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی
سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان
کا ذریعہ ہیں۔فرمان باری تعالی ہے
یا یہا الناس ِانا خلقناکم مِن ذر وانثیٰ وجعلناکم شعوبا وقبائِل لِتعارفوا
ِن رمکم عِند اللہِ تقاکم ِن اللہ علِیم خبِیرo
ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں
بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو،
بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہےo
اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر
ہے۔ حسب و نسب پر نہیں۔دین کی نظر میں گھٹیا کمیں وہ شخص نہیں جو ایمان و
عمل میں پختہ ہے، باکردار ہو، صاحب علم و تقوی ہے، بہت اعلی ہے، بزرگ تر
ہے۔اور اگر ہاشمی، قریشی، مکی، مدنی ہے، ایمان عمل و صالح سے محروم ہے۔
جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ، شیبہ، ولید،
ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر، کمین تر ہیں۔ فریق اول کے رنگ،
نسل، زبان ان کی عزت وعظمت کے آڑے آئے۔ اور فریق ثانی کی خاندانی شرافت و
نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کر سکی۔ اور وہ نیکی سے محروم ہو کر "شر
الدواب" ہی رہے۔ بد ترین چوپائینمبر 1 خوب سمجھ لیں کہ ذات، قوم، قبیلہ صرف
تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و
عظمت کی سند ہے نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت۔
نمبر 2 قرآن و حدیث اور لغت عرب میں سید، ایک اعزازی لفظ ہے۔ جو مسلم ہو یا
غیر مسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں
جناب، Sir، ہندی میں شری وغیرہ۔ چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب،
قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے
اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعما کے لیے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے۔
ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح
روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ
قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالی کے حضور بطور شکوہ و معذرت کہیں
گے
وقالوا ربنا ِانا اطعنا سادتنا وکبرء انا فاضلونا السبِیلاoربنا آتِہِم
ضِعفینِ مِن العذابِ والعنہم لعنا کبِیراo
ترجمہ:اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں
کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیاo اے ہمارے رب!
انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت کرo
سید کا معنی:
سید وہ جو دوسروں پر عقل و مال کے حساب سے، تکلیف دور کرنے اور فائدہ
پہنچانے کے لحاظ سے فائق ہو، دوسروں کو حقوق دینے والا ہو۔ اپنی ذات سے مدد
کرے سیادت کا معنی ہے بزرگی، سید، رئیس۔۔۔ سید وہ جس پر غصہ غالب نہ ہو۔
عبادت گزار، پرہیزگار، برداشت کرنے والا۔ اس کو سید اس لیے کہا جاتا ہے کہ
لوگوں کی جماعت میں فائق ہوتا ہے۔ سید کریم، سید بادشاہ، سید سخی، اس کی
جمع ساد ہے۔سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم،
بردبار قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔
قرآن سنت یا لغت عرب میں سید قوم کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و
تکریم کے طور پر لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔
والذِین ہم لِفروجِہِم حافِظون ِالا علی ازواجِہِم و ما ملکت ایمانہم فِنہم
غیر ملومِین فمنِ ابتغ وراء ذلکِ فاوُلئک ہم العادون(سور الممنون 5،6،7)
ترجمہ:اس آیت کے آخری فقرے نے مذکورہ بالا دونوں صورتوں یعنی منکوحہ اور
مملوکہ کے سوا خواہش پوری کرنے کی تمام صورتوں کو حرام کر دیا ھے خواہ زنا
ہو یہ عمل قوم لوط یا وطی بہائم یا کچھ اور ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم
میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میںلونڈی تو ظاہر ہے کے نہ ہی اور بیوی اس
لیے نہیں کے زوجیت لے لیے قانونی جتنے قانونی احکام ہیں ان میں کسی کا بھی
ان پر اطلاق نہیں ہوتا نہ تو وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث
ہوتا ہے نہ اس کے لیے عدت ہے نہ طلاق نہ نفقہ وغیرہ بلکہ مقررہ چار بیویوں
کی مقدار سے بھی مستشنیٰ ہے پس جب وہ بیوی اور لونڈی دونوں کی تعریف نہیں آ
تی تو محآلہ وہ ان کے علاوہ کچھ اور میں شما ر ہوگی جس کے طلالب کو قرآن حد
سے گزرنے والا قرار دیتا ہے۔
ولا تقربوا مال الیتِیمِ ِالا بِالتِی ہِی احسن حتی یبلغ شدہ واوفوا الکیل
والمِیزان بِالقِسطِ لا نکلِف نفسا ِالا وسعہا واِذا قلتم فاعدِلوا ولو کان
ذا قرب وبِعہدِ اللہِ اوفوا ذلِکم وصاکم بِہِ لعلکم تذکرون
ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی
پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ
پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور
جب کسی کی نسبت کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو
اور خدا کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم
نصیحت کرو۔
سوال:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد کسی اور
کو نبی ماننے والے کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ تمام انبیا
علیہم السلام کی بعثت کے بعد ہوئی۔ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر ختم ہو گئی اور سلسلہ نبوت و وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ذات مبارکہ کے بعد منقطع ہو گیا۔ اب قیامت تک کی تمام انسانیت آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے چشمہ نبوت سے فیض یاب ہوتی رہے گی اور آپ کے بعد کوئی
نبی نہیں آئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
ما ان محمد با حد مِن رِجالِم ولِن رسول اللہِ وخاتم النبِیِین وان اللہ
بِلِ شی علِیماO
الاحزاب، 33 : 40
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے آدمیوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن
اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور سے لے کر تمام محدثین مجتہدین، آئمہ دین و
مفسرین نے خاتم النبیین سے مراد آخری نبی کے معنی بیان کیے ہیں اور اسی
معنی کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بیان فرمایا ہے :
انا خاتم النبِیِین لا نبِی بعدِی.ترمذی، 4 : 399، رقم : 2219
میں ہی آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
لہذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد کوئی
شخص کسی کو نبی مانے یا یہ عقیدہ رکھے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آئے گا وہ
کافر ہے
سوال:ختم نبوت سے کیا مراد ہے؟
جواب:ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں
نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے :
ما ان محمد با حد مِن رِجالِم ولِن رسول اللہِ وخاتم النبِیِین وان اللہ
بِلِ شی علِیماo
محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں
لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں سلسلِ نبوت ختم کرنے
والے ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo
الاحزاب، 33 : 40
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی
آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور
نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشار یا کنایتا عقیدہ ختم نبوت
کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی
متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔
لہذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الہی نے نبوت
کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح
لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِن الرِسال والنبو قد انقطعت فلا رسول بعدِی ولا نبِی.
اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہذا میرے بعد نہ کوئی رسول
آئے گا اور نہ کوئی نبی۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الرویا، 4 : 163، باب : ذہبت النبو، رقم : 2272
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی
نہیں آئے گا۔
سوال نمبر :دین کسے کہتے ہیں؟
جواب:دین ایک وسیع اور جامع اصطلاح ہے۔ دین کا معنی ہے : نظامِ زندگی،
سیرت، فرمانبرداری، برتا، سلوک اور حساب و احتساب، ایک انسان کا دوسرے
انسان کے ساتھ برتا ہو یا مخلوق کا خالق کے ساتھ معاملہ، ان سب باتوں کو
دین کہا جائے گا۔ صیح بخاری میں دین کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے :
الدِین : الجزا فِی الخیرِ و الشرِ.
دین خیر اور شر کی جزا کا نام ہے۔
بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب ماجا فی فاتح الکتاب، 4 : 1623
قرآن حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ذکر کیا تو
دین کا لفظ استعمال کیا :
ہو الذِی ارسل رسولہ بِالہدی ودِینِ الحقِ لِیظہِرہ عل الدِینِ لِہِ ولو
کرِہ المشرِونo
وہی ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دے
کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کر دے خواہ مشرک کتنا ہی
ناپسند کریںo
یعنی دین اسی نظام کو کہا جا سکتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل و اکمل ہو اور
انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کو
محیط ہو اور ہر شعب حیات میں مثر اور قابلِ عمل رہنمائی مہیا کر سکتا ہو۔
الصف، 61 : 9
یا یہا الناس ِن نتم فِی ریب مِن البعثِ فِنا خلقنام مِن تراب ثم مِن نطف
ثم مِن علق ثم مِن مضغ مخلق وغیرِ مخلق لِنبیِن لم :
لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو پہلی
بار بھی توپیدا کیا تھا یعنی ابتدا میں مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر
اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی
ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر اپنی خالقیت ظاہر کردیں۔
لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کوپہلی بار
بھی توپیدا کیا تھا یعنی ابتدا میںمٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے
خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے
اور ناقص بھی تاکہ تم پراپنی خالقیت ظاہر کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں
ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے
ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض
شیخ فالی ہوجاتے اور بڑھاپے کی نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ
بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بے علم ہوجاتے ہیں۔ اور اے دیکھنے والے تو
دیکھتا ہے کہ ایک وقت میںزمین خشک پڑی ہوتی ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے
ہیں تو شاداب ہوجاتی اور ابھرنے لگتی ہے اور طرح طرح کی بارونق چیزیں اگاتی
ہے۔ |