انصاف کون فراہم کریگا

بارہ سال کی عمر کا طالب علم دو ہفتے بعد اپنے گھر آیا تھا اپنے چار معصوم بہنوں کیساتھ گھر کے آنکن میں کھیل رہا تھا چونکہ وہ اپنے گھر میں سب سے بڑا تھا اس لئے وہ اپنی والدہ کیساتھ گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹا رہا تھا مدرسے میں اسے اپنی والد و والدہ اور بہنوں کی بہت یاد آتی تھی اپنے والد سے گلے مل کر سونا اور اپنی دوستوں کی باتیں کرنا کتنا مزہہے یہ ا س معصوم طالب علم کو ہی پتہ ہے مدرسے میں دوسروں کے گھروں سے آنیوالا کھانا اسے مجبورا کھانا پڑتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی کہ کاش وہ بھی روزانہ اپنی والدہ کے ہاتھ کا کھانا کھاتا مدرسے کی روٹین سے ہٹ کر اپنے گھر والوں میں رہنا اس کی ہر دفعہ خواہش ہوتی لیکن دو ہفتے بعد اسے ایک رات گھر آنے کا موقع ملتا اور اسی سے وہ انجوائے کرتا چھوٹی بہنوں کیساتھ کھیلنے کے دوران اس کی والدہ نے انہیں کھانا کیلئے روٹی دی اور ساتھ ہی اسے ہدایت کی کہ کھانا کھانے کے بعد جلدی سے سوجانا والدہ نے اسے یہ بھی کہا کہ والد کے آنے پر اسے زیادہ باتیں مت کرنا کیونکہ اسے دوسرے دن پھر کام پر جانا ہوتا ہے اس معصوم نے والدہ کی دلجوئی کیلئے اسے ہاں کہہ دیا لیکن اس کے دل میں یہ خواہش تھی کہ والد جلدی گھر آجائے یہی سوچ سوچ کر اسے نیند آگئی اور وہ نیند کی گہری وادی میں گم ہوگیا- معصوم طالب علم کا یہ خاندان دو کمروں پر مشتمل ایک گھر میں رہائش پذیر تھا جن میں ایک کمرہ باورچی خانہ تھی جبکہ دوسرے کمرے میں سب لوگ سوتے اس کا والدایک مقامی طور پر چلنے والی ایک بس کا ڈرائیور تھا بس ڈرائیور نے اپنے بڑے بیٹے کو مدرسے میں مذہبی تعلیم کیلئے داخل کروایا تھا -

نیند کی گہری وادی میں گم معصوم طالب علم والد کا انتظار کرتے کرتے سوگیا لیکن یکدم اسے اندھیرے کا احساس ہوا اور پھر سسکیوں آہو ں اور منت بھری آواز سن کر اٹھ بیٹھا وہ سمجھا کہ شائد وہ کسی اور جگہ پر ہے لیکن وہ اپنے ہی گھر میں موجود تھا اس نے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ چار افراد اندھیرے میں اس کی والدہ کو اٹھا رہے تھے اورساتھ میں مار بھی رہے تھے اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور والدہ کو آواز دی اس معصوم طالب علم کی آواز سننے کے بعد ان چاروں میں ایک نے آواز لگائی کی کہ اسے بھی سبق سکھاتے ہیں اور پھر نہ صرف اس کے ساتھ وہ حیوانی کھیل کھیلا گیا بلکہ اس کی والدہ کیساتھ بھی جسے وہ آج بھی سوچتے ہوئے ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کے ہاتھ میں چھرا ہوتا اور ان تمام لوگوں کو جنہوں نے اسے اور اس کی والدہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا ذبح کر ڈالے آج بھی وہ معصوم طالب علم اس بات کو یاد کرتے ہوئے رو پڑتا ہے کہ کس طرح ان چاروں نے اسے اس کی والدہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا کہ اس دوران اس کا والد گھر کے مین دروازے سے گھر میں داخل ہوا اور ان ظالموں نے پہلے اسے ہاتھ میں گولی مار دی اور جب اس کے والد نے مزاحمت کی تو پھر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور تین گولیاں اس کے والد کے سینے میں لگی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگیا اور وہ چار لوگ موقع سے فرار ہوگئے وہ اپنے والد کے مردہ جسم اور زیادتی کا شکار والدہ کو دیکھ رہا تھا اور اسکے آنکھوں میں جیسے خون آگیا لیکن وہ خود بھی زیادتی کا شکار ہو ا تھا اور پھر غصے کی ایک لہر نے اسے ہوش سے بے گانہ کردیا-

یقینا پڑھنے والوں کیلئے یہ ایک افسانہ یا ڈرامہ ہی ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر پشاور کے نواحی علاقہ تاروجبہ میں پیش آنیوالا واقعہ جو اسی سال کے آٹھویں مہینے میں پیش آیا تھا جس کی ایف آئی بھی تھانہ پبی میں درج کروائی گئی اور آج زیادتی کا نشانہ بننے والا طالب علم اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کے چکر لگا رہا ہے لیکن انصاف کے بڑے دروازوں میں ان جیسے غریب لوگوں کیلئے کچھ بھی نہیں کیونکہ جن لوگوں نے جرم کیا ہے وہ پیسے کے بل بوتے پر بہت کچھ کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس اندوہناک واقعے کے فورا بعد متعلقہ پولیس کو پیسے کھلا دئیے اور انہوں نے صرف ڈکیتی کا مقدمہ درج کروادیا اور اس معصوم طالب علم اس کی والدہ کیساتھ زیادتی اور والد کے قتل کا مقدمے کا اندراج ہی نہیں کروایا اور اس کے ساتھ ہی ضمانت قبل از گرفتاری بھی کروا دی یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں پر نام کی حد تک اسلام موجود ہے -

اپنے ساتھ ہونیوالے زیادتی کے مقدموں کا اندراج کیلئے آج معصوم طالب علم اپنی والدہ داد اور چار معصوم بہنوں کے ہمراہ عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے کیونکہ اپنے علاقے کے تھانے میں انصاف ملنے کے بجائے اسے دھمکیاں ہی ملتی ہیں اور اب عدالتوں میں آنیکا سلسلہ جاری ہے جو پتہ نہیں کب تک جاری رہیگا لیکن ایک سوال جو میرے ذہن میں سے گونج رہی ہے جس کا جواب اس معاشرے کے ہر فرد سے میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا وہ لوگ جو انصاف کے سنگھاسن پر بیٹھے انصاف کی فراہمی کا دعوی کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کو جواب دے سکیں گے کہ انہیں اس کیس کا پتہ نہیں تھا کیا تھانے میں تعینات ہر وہ اہلکار جو ان جیسے معصوم طالب علموں کے خاندانوں کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہیں اور ان کی ٹیکسوں پر پلتے ہیں کیا وہ اپنی طاقت ڈنڈا اللہ کے دربار میں بھی استعمال کرسکے گا جس پر بحیثیت مسلمان ہم سب کا ایمان ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئیگا جب ہر عمل کا حساب لیاجائیگا اور یہ دن یوم آخر ہوگا اورکیا اس علاقے میں جہاں پر یہ واقعہ پیش آیا اس علاقے کے لوگ یہ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے دربار میں بری کرواسکیں گے کہ بحیثیت پڑوسی ان کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی -کیا خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران اس بات کا جواب دے سکیں گے کیونکہ یہ تبدیلی والی سرکار کے ٹکٹ سے منتخب ہونیوالے وزیراعلی کا ہی حلقہ ہے کیا وہ اس معصوم طالب علم اس کی والدہ کیساتھ زیادتی والد کے قتل کا نوٹس لیکر اسے انصاف فراہم کرسکیں گے اور پولیس گردی سے بھی اس معصوم لوگوں کو بچا سکیں گے اگر جواب مثبت میں ہے تو بھی یہ کوئی احسان نہیں ہوگا کیونکہ حکمران ہی عوام کی مائی باپ ہوتے ہیں اور اگر نہیں اور انہوں نے آنکھیں بند کرلیں تو پھر انصاف وہ کرے گا جس کا در بھی بہت بڑا ہے اور جس کے ا نصاف میں وقت ضرور لگتا ہے لیکن اس کے انصاف میں کوئی شک نہیں اور جو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے-
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421617 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More