آج کتنی جوانیاں گھر بیٹھے مرجھا
چکی ہیں؟ آج کتنی عصمتیں سر بازار نیلام ہوتی ہیں ؟ آج کتنے نوجوان اپنے
ہاتھوں سے خود کو تباہ کر رہے ہیں؟ اگر جہیز کی لعنت کو چھوڑ کر نکاح کو
آسان اور سستا نہ بنایا گیا تو ہر طرف بے راہ روی کا ایسا سیلاب آے گا جو
سب کچھ بہا کر لے جاۓ گا. آج ہمارے مسلمان طبقے نے جہیز کی لعنت کو گلے کا
طوق بنا لیا ہے. انھیں صرف کافرانہ اور ظالمانہ رسموں کی فکر ہے. جہیز کے
نام پر شادی بیاہ میں جو خرافات اور مشرکانہ رسوم رائج ہیں ان کا اسلام سے
دور تک کوئی تعلق نہیں. جہیز کے نام پر نقدی اور لین دین غیر مسلموں کا
طریقہ ہے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے. حقیقت تو یہ ہے جہیز ایک لعنت ہے اور ہم
مسلمانوں نے اس لعنت کو کو تہذیب و تمدن سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور یہ ایک
ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس لعنت نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے.
اس میں شبہ نہیں ہے کہ جہیز کی موجودہ شکل ایک تباہ کن رسم ہو کر رہ گئی ہے
لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے وقت جو کچھ دیتے ہیں وہ
انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر ہندوانہ رسم کی دیکھا دیکھی اب مسلمانوں میں
بھی یہ رسم ایک مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے جہیز کے مطالبہ کو پورا
کرنے کے لیے آج کتنے گھر اجڑ چکے ہیں. لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر
دیا ہے . لڑکی کی پیدائش رحمت ہوتی ہے مگر لالچی لوگ اسے زحمت میں بدلنے کی
ہر ممکن کوشش کرتے ہیں .
حیرت تو اس پر ہے کے لڑکی اپنے والدین سے کچھ مطالبہ کرے تو کر سکتی ہے کہ
ماں باپ سے فرمائش کرنا اس کا پیدائشی حق ہے اگرچہ اسے مطالبہ کرتے وقت
واپنے والدین کی بساط و وسعت کا خیال کرنا بھی ضروری ہے مگر یہ ہونے والے
داماد اور اس کے گھر والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے
گھر والوں سے فرمائش کریں. یہ تو ایک قسم کی مہذب بھیک ہوگئی جسے رسم و
رواج کے نام پر قبول کیا جا رہا ہے. اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی
اجازت دیتا ہے یا تو سائل کا حق دوسرے سے متعلق ہو یا پھر سائل اتنا تنگدست
ہو کہ اس کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہو اور سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو
اس کا سوال کرنا جائز ہے. ظاہر ہے ہونے والے داماد کا ہونے والی بیوی یا
سسرال پر کوئی حق تو ہوتا نہیں جس کا مطالبہ اس کے لیے جائز ہو لہٰذا اب
دوسری بات تنگدستی والی رہ جاتی ہے جب کے سماج میں اس بات کی گنجائش نہیں
ہے کہ داماد تنگدستی ظاہر کرکہ سسرال سے کچھ تقاضا کرے حالانکہ بقدر ضرورت
سوال کرنا اسلام میں جائز ہے . لیکن اگر دونوں صورتیں نہیں توایک قبیح فعل
ہے. حدیث مبارکہ میں ہے کہ
"حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوال کرتا ہے
تو چاہے زیادہ مانگے یا کام (ابن ماجہ) "
جہیز کی رسم ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل چکی ہیں جس کے باعث دیگر
برائیاں ، خود کشی، چوری، طلاق، پرتشد اموات، دھوکہ دہی اور دیگرکئی سماجی
مسائل بھی جنم لے رہے ہیں. بے چارے والدین سود پر قرض حاصل کر کہ اپنی
لڑکیوں کو بیاہتے ہیں اور زندگی بھر سود کے جال میں پھنس جاتے ہیں مگر پھر
بھی دامادوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی
نہ کسی طرح بیٹی کا گھر بنا رہے.
بہن یا بیٹی کو جہیزدینے کے لیے چوری یا ڈاکہ ڈالنے اور دھوکہ دہی کے
واقعات ہم نے سن رکھے ہیں. بسا اوقات لڑکیوں کی جانب سے خود کشی کے واقعات،
سسرال کی جانب سے بہوؤں کو آگ میں جلانے اور دیگر پرتشدد طریقوں سے جان سے
مارنے کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں. جہیز کم لانے یا نہ لانے کے
باعث طلاق کے واقعات بھی زبان زدوعام ہیں. جہیز کی اس لعنت کے باعث ہونے
والے ان جرائم کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی، معاشرے پر حکومت پر یا ان
لوگوں پر جنہوں نے جہیز کا مطالبہ کیا؟ تینوں میں سے کوئی بھی اس کہ ذمہ
داری قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمارا ملکی قانون کچھ کر سکے گا. ہاں یہ
ضرور ہوگا کہ منذ رجہ بالا کسی بھی امر کی وجہ سے لڑکی کا خاندان مزیدکرب
اور پریشانیوں میں ضرور مبتلا ہوجاۓ گا. اورالله کے سوا دنیا میں اس کا
کوئی پرسان حال نہیں ہوگا.
جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ ہے. جس سے واقف تو ہم سب
ہیں مگر مسئلے سے پہلوتی بھی ہم ہی لوگ کرتے ہیں . موجودہ سماج میں لڑکیوں
کی شادی کے لیے بہتر رشتے کا انتخاب مانگ و مطالبات، بھاری رقوم، قیمتی
چیزوں اور جائیداد کے دینے پر منحصر ہوگیا ہے. لڑکی کی شرافت، دینداری،
اخلاق و سیرت دیکھنے کا معیار باقی نہیں رہا. بلکہ لڑکے والوں کی نظر اس پر
ہوتی ہے کہ کس گھر سے زیادہ جہیز ملے گا. بعض اوقات جہیز مانگنے کے ساتھ تو
لڑکے کو کاروبار کراکر دینے کی شرط عائد کردی جاتی ہے.
ایک مرد کی یہ شان نہیں کہ وہ دوسروں سے مال کا ناجائز مطالبہ کرے اور
دوسرے کے مال کو جہیز کے منحوس نام پر بٹورنے کی کوشش کرے اور جہیز کے نام
پر مال و دولت، کار، موٹر سائکل ، فرج ، ٹی وی اور دیگر قسم کے مطالبات
کرکے لڑکی کے گھر والوں کو پریشان کرے بلکہ مرد کی تو یہ شان ہے کہ اپنی
زورو بازو کے بل بوتے پر کمائے اور اپنی منکوحہ اور اولاد کو بہتر زندگی
دے.
رسم جہیز قابل لعنت ہے اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل ہے اس کی
جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ فعل نہ سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں
اس کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت، بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے. اگر
جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوجاۓ اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں
کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں
اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے. |