بھنور

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ میری تحریریں بے مقصد ہوتی ہیں ۔بقول ان کے کوئی لکھاری چاہے جتنا بھی لکھ لے پتھر دلوں پہ اثر ہو نہیں سکتا ۔میری تحریروں کا کسی پہ اثر ہو نہ ہو بس لفظ لفظ زیر نظر ہو باقی مرضی خدا ۔ہو جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔قارئین ! میری تحریر کا موضوع ٹی وی پروگراموں کے دوران چلنے والے نا مناسب اشتہارات ہیں۔ان اشتہارات کو آج تک موضوع بحث تو بنایا جاتا رہا ہے اور کڑی سے کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی وہی سلسلہ چل رہا ہے ۔شکایتی زبانیں تھک کے خاموش ہو گئیں ۔لیکن میڈیا کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ۔اور عورت جسے مذہب اسلام نے خوبصورت اور مقدس رشتوں میں تقسیم کیا لیکن رزق کا ہتھیار بناتے ہوئے نادان انسان یعنی مسلمان نے تقسیم کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔وہ تقسیم ہو رہی ہے آج کہیں ٹی وی کی اشتہار بازی میں تو کہیں سمگلنگ کی صورت ۔اور کیا کیا رنگ ہیں اس تقسیم بازی کے جب سوال اٹھا تو کوئی شوق کی خاطر تو کوئی کسی مجبوری سے بلیک میل ہو کر اپنی روح کا سودا کر لیتا ہے۔پر جو سلسلہ اشتہار بازی کا ہے اس کا شکار تو سب نگاہیں ہیں ۔معصوم بچوں کی کہیں والدین کی تو کہیں اولاد کی ۔کیا لوگ اپنی زبانیں دل اور نگاہیں وقت کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں ۔اندھا دھند فحاشی کے بڑھتے ہوئے اس بحران کے اور بھی بہت دروازے ہیں ۔لیکن ٹھہریئے!

ابھی ہم نے صرف ایک ہی دروازے پہ دستک دی ہے۔آپ یقینا سوچیں گے کہ اس دروازے پہ اتنی کڑی دستک کیوں؟

تو وہ اسلیئے کہ جب ہم آپ اپنے پیاروں کو اخلاقیات کا سبق دیتے ہیں تو یہ اشتہارات ہی زہر کی پہلی بوند بن کر ہماری دی ہوئی نصیحتوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔جو برائی آسانی سے ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔وہ اخلاقی زندگی پہ سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہ میڈیاکی فطرت ثانیہ بلکہ فطرت اول بن گئی ہے۔کہ بھونڈے اور منفی ردعمل ابھارنے والے پروگراموں کی بھرمار کے دوران فحاشی سے بھر پور اشتہار بازی پیش کر دیتا ہے۔جو نوجوان نسل خصوصا بچوں کی اخلاقی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔یہ بھی جان لیجئے کہ جس طرح نامناسب اشتہارات ترقی پاتے جا رہے ہیں ۔اتنی تیزی سے ہم رسوائی کی گلیوں کا طواف کرتے جا رہے ہیں ۔قارئین!

ہمیں چاہیئے کہ ہم بجائے چیخ و پکار کے اپنا راستہ خود تیار کریں احتیاط اور اعتراف کے راستے پہ چلتے ہوئے دل و دماغ پر پڑے ہوئے دبیز پردوں کو سرکائیں جو نام نہاد ثقافت کے بھنور میں دھنستے چلے جا رہے ہیں ۔اخلاقی اور روحانی قدروں کی پامالی سے کس طرح اپنے پیاروں کو بچاسکتے ہیں۔اور یہاں یہ عمل قابل ذکر ہے کہ ٹی وی کے نا مناسب اشتہارات کا یہ سلسلہ تو ہماری اس تحریر سے رکنے والا نہیں ۔ہر چند حفاظتی اقدامات تو کیئے جا سکتے ہیں۔اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ تبلوں کی تھاپ گھنگھروؤں کی چھنا چھن یا کسی اشتہار سے متا ثر ہونے کے بجائے آپکے سکھلائے ہوئے اخلاقی سبق کو یا د رکھیں ۔کچی نیند سے جاگیں اشتہارات کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنانے والے انہیں بیچنے والے آپ کے غم کا مداوا کرنے کبھی نہیں آئیں گے ۔اخلاقی زوال پزیری کی ہوا آپکے ماحول کے درودیوار سے ٹکرا کر آپ سے اپنوں کی پہچان مسلمان کو مٹارہی ہے ۔اشتہار بازی پہ اور خصوصا اس اشتہار بازی پہ جس سے ہمارے معاشرے میں بے حیائی بد تمیزی اور بے شرمی پھیل رہی ہے پر میری تنقید جاری رہے گی۔بیچنے والا تو صرف اپنے رزق سے مطلب رکھتا ہے ۔پر جو زہر بن کر جسکی رگوں میں اترتا ہے وہ ہمارا معاشرہ ہے۔ہمارا وطن ہماری قوم ہے۔لیکن مذہب ہماری حیات میں گوشت اور ناخن کی طرح ہے ۔ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ہم فحاشی کو کسی بھی رو پ میں خریدیں ۔اپنے یا کسی کی وقت گزاری کیلیئے خالق کون ومقاں کی نظر میں ہیں سب۔یہاں تک کہ کسی کا کوئی بھی عمل ڈھکا چھپا نہیں ۔اور سچی نیت پا نی کی طرح ہوتی ہے ۔جو اپنا رستہ خود بنا لیتا ہے ۔تو چاہے رستے میں کتنی چٹانین اور پہاڑ ہی کیوں نہ دخل انداز ہوں ۔ دوسری صورت فحاشی کے اس بھنور میں کھینچتے چلے جائیں گے۔اور تبھی ہوش آئے گا جب خالق کا ئنات کی طرف سے رسی کھینچے گی ۔ﷲ تعالی ہم سب کو نیک رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!
kiran aziz
About the Author: kiran aziz Read More Articles by kiran aziz: 13 Articles with 13138 views write truth is my passion.. View More