تحریر: حمیرہ احمد
پاکستان کی تاریخ اگر دیکھیں تو زیادہ پرانی نہیں ہے، کہ اسے اتنا آسانی سے
بھلا دیا جائے۔ اس کی تاریخ کے اوراک کو الٹ پلٹ کر دیکھیں تو آج بھی ان
میں تازہ لہو بہتا نظر آتا ہے، دریا کا رنگ لال اور بچوں کے ننھے جسم
برچھیوں پر لٹکتے نظر آتے ہیں۔ ننگ بدن اور زخموں سے چور ’’بن کے رہے گا
پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے کمزور جسموں کے ساتھ بوڑھی مائیں ایک امید اور آس
کے ساتھ سفر کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
جس ملک کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے اتنا کچھ کیا آج ہم اس کا کیا حال کررہے
ہیں۔ جب ہم اس ملک کے اثاثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ہم یہ بات کیوں بھول
جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں اور جدو جہد کے بعد اس ملک کو
حاصل کیا ہے۔ جب بھی کسی سیاسی پارٹی کے کسی بھی لیڈر کو شہید کیا جائے یا
پھر کسی بھی سیاسی پارٹی کے کارکن کو نشانہ بنایا جائے تو ہم اپنے ہی شہر
میں تباہی مچادیتے ہیں۔ گاڑیاں جلانا، سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچاناکیا
یہی ہمارا کام ہے․․․․․؟ کیا پاکستان کی ہر چیز کی حفاظت کی ذمے داری صرف
حکومت کی ہے․․․․․․؟ پاکستانی قوم کسی بھی چیز کی ذمے دار نہیں ․․․․․؟ مجھے
آج بھی یاد آتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ صرف ایک فرد کے قتل پر 30 سے زائد
گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ تین دن تک شہر میدان جنگ اور بے گانہ ہو کر رہ
گیا۔یہاں کا باسی خود کو پہچاننے سے انکاری تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ
کسی جنگ زدہ ملک میں آگیا ہو اور ناجانے کب اس کی جان کا پروانہ آجائے۔ خوف
و ہراس کا ایک منظر تھا جو ہر شخص کے چہرے سے عیاں تھا۔
کیا ہم نے سوچا کہ کیا ہم نے اسی آزاد ملک کے لئے رو رو کر اپنے رب سے
دعائیں کی تھی․․․․․․ کیا ہم نے قربانیوں کی تاریخ اس لئے رقم کی تھی․․․․․؟
خود ہی اپنے ملک کو اپنے ہاتھوں تباہ کررہے ہیں۔ وطن عزیز کے اثاثوں کو
نقصان پہنچاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق پورا کردیا۔ ہم یہ کیوں بھول
جاتے ہیں اس وقت یہ ملک ہمارا ہے۔ جیسے ہم اپنے گھر میں موجود ہر چیز کی
حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے ویسے ہم اپنے ملک کے محافظ کیوں نہیں بنتے․․․․؟
لوڈ شیڈنگ کا معاملہ یقینا پریشان کن ہے جس کے لئے ہماری حکومتیں ذمہ دار
ہیں مگر ایسے حالات میں جب ہم احتجاج کرتے ہیں تو کے ای ایس سی کے دفتر کو
توڑ پھوڑ کا نشانہ بناتے ہیں۔ گاڑی پر حملہ کیا جاتا ہے اور اگر ہاتھ پہنچ
جائے تو اسے بھی نذر آتش کردیا جاتا ہے۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے․․․․․․․․؟ ایک فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری
پالیسوں میں دوغلا پن کیوں ․․․؟ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں مگر ملک کو
نہیں۔ اپنے املاک کی حفاظت کرتے ہیں مگر جس ملک نے پناہ دی ہے سر چھپانے کو
جگہ دی ہے اس کی املاک کو آگ لگاتے ہیں۔ ہم اپنے لائٹوں ، شیشوں اور در و
دیوار کا خیال رکھتے ہیں مگر سرکاری لائٹس پر نشانے بازی کی جاتی ہے۔ دیوار
وں پر پینٹنگ کر کے انہیں بد نما بنادیا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سمندر جیسی ایک بہت عظیم نعمت عطا کی ہے۔ ہم جب چاہیں
وہاں سیر و تفریح کے لئے جائیں کوئی روک ٹوک خرچ اخراجات نہیں اپنی ساحل
اور اپنی مرضی ہے مگر ایک صاف ستھرے اجلے سمندر کے پانی کی قدر نہیں کی
جاتی۔ جو کچھ کھایا اسے وہیں پھینک دیا گیا اور آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ
جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پانی کے کنارے پر نظر آتے ہیں۔ پان کھانے والوں کو
اپنے منہ کی لذت کی فکر تو ہے مگر ماحولیات آلودگی کا کوئی خیال نہیں ہے۔
ذرا سوچئے! میرے اس پیارے وطن کے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے․․․․؟ کون کر
رہا ہے․․․․؟ کہیں ہم میں سے ہر شخص تو یہ نہیں کر رہا ۔ اگر ہم کر رہے ہیں
تو آج سے کیوں نہ ہم اپنے وطن سے وعدہ کریں کہ پھر ایسا نہیں کریں گے۔ ہاں
ہمیں فخر ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہم اسے گندہ
نہیں کریں گے بلکہ ہم اس کی دل و جان سے حفاظت کریں گے۔ گلیوں کی صفائی
رکھیں گے۔ اچھے برے حالات میں اپنے ملک کے دفاع کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔
یہ ہمارا ملک ہے اور اب ہم نے اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھنا ہے۔ اپنے گھر
میں کوئی نقصان نہیں کریں گے۔ اس کی خوبصورتی کا خیال رکھیں گے اور جب بھی
ہمارا ملک ہم سے قربانی مانگے گا تو ہر قربانی دینے کے لئے خود کو تیار
رکھے گے۔ ملک کو کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ آج اگر پاکستان کو دل سے اپنا
سمجھیں گے تو اپنے اندر حب الوطنی کے جذبات کو اجاگر کرپائیں گے۔ |