پاکستان میں اکتوبر کے مہینے کا
اختتام موسم سرما کی آمد کا پیغام ہے۔ دسمبر اور جنوری میں سردی اپنے جوبن
پر ہوتی ہے۔ اس دوران شہر وں اور دیہاتوں دونوں کے منظر تبدیل ہوجاتے
ہیں۔پاکستان میں سردیوں میں درجہ حرارت کم سے کم 4 سینٹی گریڈ (39 °F) سے
لے کر شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں درجہ حرارت منفی زیرو ڈگری بھی ہو
جاتا ہے۔پاکستان کے کچھ حصوں میں صرف بارش ہوتی ہے اور کچھ حصوں میں
برفباری بھی ہوتی ہے۔شدید سردیوں میں یہاں دھند بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔دھند
کے لپیٹے میں زیادہ تر پنجاب، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے کچھ حصے آتے ہیں۔
سردیوں کے آتے ساتھ ہی پاکستان میں فیشن بھی بدل جاتا ہے۔ہر طرف نت نئے
ملبوسات اور سوئٹرز ،مفلرز،کوٹ وغیرہ نظر آتے ہیں۔آئس کریم اور قلفی بیچنے
والوں کی سائیکلیں کچھ ماہ کے لیے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور ان کی جگہ
ڈرائی فروٹ کے ٹھیلے سڑکوں پر گھومتے اور گلیوں کے کونوں پر نظر آنے لگتے
ہیں۔
اکتوبر کا مہینہ اختتام پذیر ہوچکا ہے اور ملک کے متعدد علاقوں میں موسم
سرما نے پہلی بارش کے ساتھ دستک بھی دے دی ہے۔جس کے ساتھ ہی ملک بھر میں
کہیں زیادہ اور کہیں کم سردی شروع ہوچکی ہے۔وادی سوات، ناران اور ملحقہ
بالائی علاقوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی ہلکی برفباری سے سردی کا زور بڑھ
گیا۔آزاد کشمیر کے بالائی پہاڑوں پر برفباری جبکہ باجوڑ ایجنسی اور شمالی
وزیرستان میں ہونے والی بارش نے موسم کو مزید سرد کردیا ہے۔جبکہ اس بارش نے
راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، سرگودھا، پشاور، ساہیوال، کوہاٹ، بنوں، مالا
کنڈ، ہزارہ ڈویژن، کشمیر، گلگت بلتستان، کوئٹہ، ژوب، قلات ڈویژن، ڈی آئی
خان اور ملتان ڈویژن میں بھی سردی میں کافی اضافہ کردیا ہے۔جبکہ کراچی میں
بھی زیادہ نہ سہی لیکن سردی کا آغاز تو ہوہی گیا ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں
میں سردی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی لوگوں نے رضائیاں اور کمبل نکال لیے ہیں۔
جبکہ معروفیت کے باعث روئی دھننے والوں اور لحاف گدے بیچنے والوں کے پاس
وقت کی کمی ہوگئی ہے۔ کمبل اور دلائیاں فروخت کرنے والوں کی مصروفیت بھی
بڑھ گئی ہے۔لوگوں نے گرم کپڑے نکال کر باریک کپڑے کچھ ماہ کے لیے رکھ دیے
ہیں۔ گرم ملبوسات خریدنے کے لیے لوگوں کی اکثریت لنڈا بازاروں کا رخ کرنے
لگی ہے۔موسم میں ابھی کچھ زیادہ خنکی تو نہیں آئی لیکن موسم کے مکمل تبدیل
ہونے سے قبل ہی لنڈا بازار مکمل آباد ہو گئے ہیں۔ خریداروں میں مرد، خواتین
اور بچے شامل ہیں۔ لنڈابازاروں میں سویٹر، گرم کپڑے، موزے، جوتے اور کوٹ
دستیاب ہیں۔ لنڈا بازار میں استعمال شدہ اشیا اور اترن کا یہ بازار ملک کے
متوسط یا غریب طبقے کی ضرورت کو پوری کرتا ہی ہے، لیکن غریبوں کے ساتھ ساتھ
امیروں کی بھی ایک بڑی تعداد انہی لنڈا بازاروں سے اپنے پسند کی
اشیاءخریدتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مہنگائی کا جن یہاں بھی بے قابو
ہے لیکن باقی دوکانوں کی بنسبت یہاں اشیا کافی سستی ہوتی ہیں۔ ایک طرف کمر
توڑمہنگائی نے جہاں شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے تو دوسری طرف انہیں
اطمینان ہے کہ کم از کم وہ لنڈا بازار میں سستے ملبوسات توخرید سکتے
ہیں۔لنڈا بازار میں صرف پرانے کپڑے ہی نہیں ملتے، بیگ قالین، پردے، میز کور
اور برتنوں جیسی گھریلو استعمال کی اشیاءبھی مناسب قیمت پر آسانی سے مل
جاتی ہیں۔ نوجوان بھی جدید فیشن کی ٹائیاں، جینز، ٹی شرٹس، لیدر جیکٹس ،
اوور کوٹ، جوتے اور سوئیٹرز تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ لنڈا بازار میں بہت سے
لوگوں کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اور ان کا بھرم بھی رہ جاتا ہے۔
ملک میں سردیاں اپنے ساتھ بہت سی کھانے کی چیزیں بھی لاتی ہیں۔لوگوں کا
پسندیدہ پھل اورنج ہو تا ہے جو کے کئی قسموں میں پایا جاتا
ہے۔کینو،مالٹا،مسمی،فروٹر وغیرہ ۔اس کے ساتھ سریوں میں جلیبی کافی مقبول ہو
جاتی ہے اور اس کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی یا گرم اسے دونوں طرح سے
کھانا پسند کیا جاتا ہے بلکہ پاکستان کے کچھ حصوں میں تو اسے گرم دودھ میں
بھگو کر رکھا جاتا ہے اور پھر کھایا جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے ٹھنڈے دودھ
میں بھگو کر کھانا پسند کرتے ہیں۔چپلی کباب بھی سردیوں میں کافی پسند کیے
جاتے ہیں۔ریوڑی کا استعمال بھی سردیوں میں بڑھ جاتا ہے۔گرما گرم چکن کارن
سوپ اور شکرقندی کا استعمال بھی بڑے شوق سے کیا جاتا ہے۔ دکانوں پر اسے چاٹ
مصالحے،کالی مرچ اور لیموں کے رس کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ سریوں میں
ڈرائی فروٹ کی دکانیں بھی خوب چلتی ہیں۔سردیوں کے آتے ساتھ ہی مختلف قسم کے
خوش میواجات ،خوبانی،اخروٹ،چلغوزے،بادام،کشمش،مونگ پھلی، انجیر، پستے خشک
کھوپرا وغیرہ دکانوں پر اور ریڑھیوں پر نظر آتے ہیں۔پاکستان خشک میوہ
ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔سردی میں اضافے سے مونگ پھلی سمیت خشک میوہ جات کی
ڈیمانڈ اور قیمت بڑھ گئی ہے ، عوام ڈارئی فروٹس کی قیمت سن کر ہی کانپ جاتے
ہیں۔کراچی میں سردیوں کی ابتدائی لہر آتے ہی بادام، پستہ،ا خروٹ، کشمش ،
کاجو اور دیگر خشک میوہ جات کی قیمتوں میں 100 سے 300 روپے فی کلو کا اضافہ
ہوگیا ہے۔سردیوں کی آمد کے ساتھ مونگ پھلی کی ڈیمانڈ سب سے زیادہ بڑھی ہے۔
بہت سے لوگوں کے لیے سردیوں کی یہ سوغات ہزاروں خاندانوں کے لیے عارضی
روزگار کا وسیلہ بھی ہے۔ مونگ پھلی سردیوں کی خاص سوغات ہے۔ تاجروں نے
کہاہے کہ خشک میووں میں سب سے زیادہ مانگ مونگ پھلی کی ہے، اس کی کاشت
زیادہ ہو تو قیمت کم اور اگر کاشت کم ہو تو ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔مونگ پھلی
بھوننے اور صاف کرنے والے کئی محنت کش نسل در نسل اسی کام سے وابستہ ہیں۔
مونگ پھلی ہر کسی کو مرغوب ہے، سردیوں میں گلی محلے مونگ پھلی کی ریڑھیوں
اور دکانوں سے سج جاتے ہیں۔ بے شمار طبی فواعد سے لبریز مونگ پھلی قدرت کا
ایک لذیذ تحفہ ہے۔ سردی اورمونگ پھلی لازم وملزوم ہیں ، جبھی تو موسم بدلتے
ہی اس میوے کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔
ایسے میں حلوائیوں کے پاس گاجر کے حلوے کی ڈیمانڈ بھی دوگنی ہوگئی ہے ۔
تازہ اور میٹھی گاجروں ، دووھ، بادام ، اخروٹ، چھوٹی الائچی اور کھوئے کی
موٹی موٹی پرتوں سے سجا گرما گرم گاجر کا حلوہ سردیوں کی خاص الخاص لذت ہے۔
پاکستان کے ہر شہر اور ہر کونے میں لوگ اس حلوے کو شوق سے کھاتے ہیںاور اب
تو ’شوگرفری‘ گاجر کا حلوہ بھی مارکیٹ میں آگیا ہے، اس لیے ذیابیطس کے
مریضوں کو بھی اب کوئی خوف نہیں رہا۔سردیوں کا ایک تحفہ کافی اور گرما گرما
مگر سدا بہار’ دودھ پتی چائے‘ بھی ہے۔سرد موسم میں یہ دودھ پتی کراچی بھرکے
’پشاور، کوئٹہ اور پشین ‘ کے ہوٹلوں کی اسپیشلٹی ہے۔ لوگ بار بار ’چینک پہ
چینک‘ پی جاتے ہیں۔ ان کے لیے سردی سے بچنے اورجسم کو گرم رکھنے کا سب سے
سستا نسخہ ہے یہ۔کچھ لوگ جو چائے اور کافی کے بعد بھی انڈے خریدنے کی
استطاعت رکھتے ہیں وہ نمک اور کالی مرچ کے ساتھ ’فارمی‘ اور’دیسی ‘۔۔مگر۔۔
ابلے ہوئے انڈے کھاکر سردی بھگاتے ہیں۔
دوسری جانب سرد موسم کی آمد کے ساتھ ہی بعض علاقوں میں دمہ کی بیماری بھی
شدت ا ختیار کر گئی ہے۔محکمہ صحت کے ترجمان پروفیسر ڈاکٹر مختار زمان کے
مطابق موسم سرما کے ساتھ پشاور سمیت شمالی علاقوں میں دمہ کی بیماری بھی
بڑھ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دمہ کی بیماری کاحملہ کسی بھی موسم
اورعمرمیں ہو سکتا ہے۔تاہم سردی کی شدت اور فضائی آلودگی کے باعث دمہ، سانس
اور سینے کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ سردیوں میں نزلہ، فلو، زکام،
کھانسی، نمونیا، جسمانی خشکی، ہاتھ پاﺅں کا پھٹ جانا اورسوزش کا ظاہر ہونا،
دردوں کے امراض کا بڑھ جانا شامل ہے۔ ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں درجہ
حرارت میں فرق کافی پایا جاتا ہے جوکہ گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک
پہنچ جاتا ہے اور سردیوں میں دس درجہ سینٹی گریڈ تک آجاتا ہے۔ 40 ڈگری
سینٹی گریڈ کا فرق انسانی جسم پر کافی مضراثرات مرتب کرسکتا ہے اور ان
مضراثرات کو زائل کرنے اور موسم کی مطابقت کے لحاظ سے خوراک اور جسم کو
ڈھانپنے کے ساتھ لباس اور اس کے ساتھ کچھ احتیاطی تدابیرکا اختیار کرنا
نہایت ضروری ہے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو انسان کے جسم
میں نائٹروجن کا عدم توازن منفی توانائی اور جسم میں پانی کی کمی جیسی
بیماریوں سے واسطہ پڑسکتا ہے اور اس کے ساتھ جسمانی درجہ حرارت کو قائم
رکھنا، چکنائی کا ہضم نہ ہونا، اساسی و تیزابی تبدیلی، دھاتی آنزز کا
توازن، عضلات کے گائی گوجن کے ذخیرہ میں کمی، عضلات و اعصاب کی حرکت کا کام
کرنے کی صلاحیتوں کا ختم ہوجانا کی تبدیلیاں جسم میں وقوع پذیر ہوجاتی ہیں
جو مختلف عوارض کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذاموسم کی تبدیلی کے منفی اثرات کو
زائل کرنے کے لیے لہسن، چنے، مٹر، مچھلی دودھ،، تل، گاجر، مالٹا، کینو، گرے
فروٹ کا استعمال کافی مفید ہے۔ یہ تمام اشیاءسردیوں میں وافر مقدار میں
میسر بھی آتی ہیں ۔
|