حکیم اللہ محسود یکم نومبر 2013
کو ایک ڈرون حملے میں مارا گیا یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب حکومت اور
طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات ہو رہی تھی بلکہ حکومت کے مطابق یہ
مذاکرات شروع ہو چکے تھے۔ پھر ایسے موقعے پر حکیم اللہ کو مارنے کی وجہ
سوائے اس کے اورکیا ہو سکتی ہے کہ امن قائم ہی نہ ہو ،جنگ چلتی رہے، امریکہ
اور بھارت پاکستان کی جڑیں کاٹتے رہیں، دو مسلمان ملکوں پاکستان اور
افغانستان کے درمیان تعلقات خراب رہیں اور بجائے ایک دوسرے کی مضبوطی کا
باعث بننے کے ایک دوسرے کے مخالف رہیں اور ایک دوسرے کو کمزور کرتے رہیں ۔
اس جنگ میں یہی ہو رہا ہے ،افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالفوں کا اڈا بنا
ہوا ہے، امریکہ یہی سے پاکستان میں امن نہیں ہونے دے رہا، بھارت یہی سے
طالبان کو مدد فراہم کررہا ہے اور پاکستان کے خلاف انہیں استعمال کررہا ہے
اور اسرائیل اسی راستے دہشت گردی میں امریکہ اور بھارت کا معاون بنا ہوا ہے
۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ خطرات ہمیں اندرونی عناصر سے ہیں ان کی بھی آنکھیں
کھل جانی چاہئیں کہ اِن اندرونی لوگوں کے پاس بیرونی ساختہ اسلحہ ، گاڑیاں
اور ٹیکنالوجی کہاں سے آرہی ہے، مدرسوں سے پڑھے ہوئے یا بالکل اَن پڑھ لوگ
کیسے جنگی سازوسامان سے لے کر کمپیوٹرائیزڈ مواصلات کا نظام بنا اور چلا
رہے ہیں اور کیوں اگر اِن میں سے کوئی مذاکرات پر آمادہ ہوتا ہے تو اسے مار
دیا جاتا ہے ۔حکیم اللہ کو مارنے کے تو کئی مواقعے پہلے بھی ملے ہونگے تب
اُسے ڈرون کیوں نہیں مارا گیا اس وقت جب وہ مذاکرات کے خلاف تھا اور ولی
الرحمن حق میں تو وہ کیسے زندہ بچا اور ولی الرحمن کیوں نشانہ بنا۔ مذاکرات
کی مخالفت کرنے والوں کا اپنا نکتہ نظر ہے وہ اس کی کامیابی اور نا کامی پر
تبصرہ کرتے ہیں جبکہ میں کہتی ہوں کہ اسے ہو تو جانے دیں جتنے اس کی ناکامی
کے امکانات ہیں اتنے کامیابی کے نہ بھی ہوں تو دوچار فیصد امکان کو ہی
آزمالیں۔ اصل مسئلہ امن کی بحالی ہے، عوام کے مسائل کا خاتمہ ہے، معیشت کی
بحالی ہے، چاہے آپریشن اور جنگ سے ہو یا مذاکرات سے۔ آپریشن اور جنگ کو تو
آزمایا جا چکا ہے اب دوسرا طریقہ بھی دیکھ لینا چاہیے۔ اب تو امریکہ نے جو
کرنا تھا کر لیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے ۔حکیم اللہ سے بھی کسی
خیر کی توقع نہیں تھی اس کے ریکارڈ پر بھی نرمی اور رحم کا کوئی واقعہ نہیں
تھا وہ جس نے اٹھارہ ،انیس سال کی عمر میں طالبان کے ساتھ مل کرظلم اور
دہشت گردی کی پہلی پہلی کاروائی کی تھی اور دہشت اسکی شخصیت کا حصہ بن چکی
تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو بد نیتی کے تحت مارا گیا یا کیا اس کو مار کر
انتہا پسندی ختم کردی گئی یا کی جا سکتی تھی اور یااُسے طالبان کا زور
توڑنے کے لیے مارا گیا تونتائج جو سامنے آئے ہیں وہ توبہت ہی ہولناک ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ خیر کی توقع حکیم اللہ سے بھی نہیں تھی لیکن
طالبان نے جس شخص کو اپنا نیا امیر منتخب کیا ہے اُس کی ظلم و بر بریت کی
داستان حکیم اللہ سے بھی کئی گناہ زیادہ ہولناک ہے اور نہ ہی اُس میں لچک
نام کی کوئی چیز ہے وہ پہلے بھی امن معاہدوں کی دھجیا ں بکھیر چکا ہے اس
لیے اب فوری طور پر مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور نہ ہی امن کی
کوئی امید ۔
مولوی فضل اللہ جس کا اصل نام فضل حیات ہے ایف اے پاس ہے اور کسی زمانے میں
مُلا پولیو اور ملا ریڈیو کے نام سے بھی مشہور رہا ہے ۔ سوات جیسی پر امن
وادی کو اُس نے اپنی وحشت و بر بریت سے خوف کی علامت بنا دیا تھا اور فوجی
آپریشن میں شکست کھانے کے بعد افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
’’کیسے‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ
افغانستان کے صوبے کنٹر اور نورستان میں بیٹھ کر پاک فوج کے خلاف بالخصوص
اور عام لوگوں کے خلاف با لعموم کاروائیاں کرتا رہا ہے ۔ تو آخر امریکہ نے
پاکستان کے لیے کون سی آسانی پیدا کی یا کو ن سی دوستی کا ثبوت دیا۔ فضل
اللہ کے بارے میں سب یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بھارت سے کھلم کھلا امداد لیتا
رہا ہے اور افغان حکومت بھی نہ صرف اُس کی دوست ہے بلکہ اُس کی حفاظت پر
مامور ہے ورنہ وہ سالہا سال سے افغانستان میں علی الا علان محفوظ و ماموں
نہ بیٹھا ہوتا اور وہاں سے کاروائیاں نہ کرتا ۔ فضل اللہ کے طالبان کے
امیربن جانے کے بعد اب یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں دہشت
گردی کے ذمہ دار امریکہ، بھارت اور کرزئی ہے۔ میں عام افغانیوں کو اس کا
ذمہ دار نہیں سمجھتی کیونکہ وہ خود چار رہائیوں سے حا لت جنگ میں ہیں۔ لیکن
بھارت کا تعلیم یافتہ حامد کرزئی اس الزام سے مبراء نہیں ہے اور مختلف
اوقات میں اس کے بیانات میرے اس یقین کی تصدیق کرتے ہیں۔ فضل اللہ کے امیر
بن جانے سے پہلے بھی پاکستان دہشت گردوں کی زد پر تھا اور اس کی امارت کے
بعد بھی ہوگا لیکن اب امریکہ اور بھارت اپنے مقاصد پر زیادہ کھل کر کام کر
سکیں گے ۔ امریکہ افغانستان میں گزشتہ بارہ تیرہ سال سے مقیم ہے اور اپنی
جدید ترین ٹیکنالوجی، کیمروں اور ریڈاروں کی مدد سے اس کے چپے چپے کی خبر
رکھتا ہے توفضل اللہ اس کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتا ہے جب تک کہ وہ
آنکھیں بند نہ کرلے۔ اگر وہ پاکستان کی سرحد کے اندر آکر ڈرون حملے کرتا ہے
تو افغانستان جو عملاََ اس کے زیر تسلط ہے میں ایک شخص کو کیوں ہلاک نہیں
کر سکتا لیکن ظاہر ہے جو جب تک اُس کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے تب تک وہ اُس
سے بچا رہتا ہے اور جو نہی کسی انحراف کا امکان تک پیدا ہوتا ہے مار دیا
جاتا ہے لہٰذا فضل اللہ ابھی تک بچا ہوا ہے ۔
ملاریڈیو غیر محسود ہے بلکہ اُس کا تعلق قبائلی علاقے سے بھی نہیں ہے لہٰذا
یہ سمجھنا کہ وہ کسی جمہوری طریقے سے امیر بنا ہے بھی حماقت ہے کیونکہ
طالبان جمہوریت کے سخت مخالف ہیں تویقیناًیہ چناؤ کسی خاص ایجنڈے کا حصہ ہے
ورنہ زیادہ مضبوط امیدوار خان سید کو سمجھا جا رہا تھا لیکن وہ مذاکرات کا
حامی تھا لہٰذا امریکہ اور بھارت کے لیے قابل قبول نہ تھا اس لیے ان تجزیوں
میں بھی کچھ زیادہ وزن نہیں ہے کہ یہ تحریک اب پہاڑوں سے اتر آئی ہے اور
میدانوں میں مقبولیت حاصل کر لے گی اور فضل اللہ کو سوات اور خالد حقانی کو
صوابی سے کارندے میسر آئیں گے یاد رہے کہ یہ اپنے علاقے کے بدنام زمانہ لوگ
ہیں کوئی مقبول لیڈر نہیں اس لیے عوام کے ذہنوں میں یہ خوف ڈالنے کی ضرورت
نہیں ،یہ بھی یاد رہے کہ فضل اللہ افغانستان سے اپنی کمان بھی کچھ زیادہ
آسانی سے نہیں کر سکے گا اور اِن حالات کا فائدہ ہماری حکومت، خفیہ
ایجنسیوں اور فوج کو بھی اٹھا نا چاہیے اور اِن لوگوں کا کردار اور ان کی
وجہ سے انکے علاقوں کے مصائب میں اضافے کے امکانات سے بھی لوگوں کو آگاہ
کرنا چاہیے ۔ میڈیا بھی ان میں بڑے بڑے ناموں والے عہدے تقسیم کرنا چھوڑدے
فوج اور حکومت سے اختلافات بھلا دے اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کرنا چھوڑ
کر اِن کی مدد کرے تاکہ ہر پہلو سے مخالفین پر کاری وار کیا جا سکے اور
ایسی ضرب لگائی جا سکے کہ ملک اس مصیبت سے نجات حاصل کر سکے۔ حکیم اللہ کی
موت کے بعد ہمارے سیاست دان اور میڈیا جن نا ن ایشوز کو ایشوز بنا رہے ہیں
ان کو چھوڑ کر اپنی توانائیاں ایک ایسی منصوبہ بندی میں لگائیں جو دہشت
گردی سے قوم کو نجات دینے میں معاون ثابت ہو سکے اور اسی چیز کی اس وقت قوم
کو ضرورت ہے نہ کہ بیان بازی اور تنقید براے تنقید اور بیان برائے بیان کی۔
عمران خان، فضل الرحمن ، منورحسن ، چوہدری نثار اور دیگر کے بیانات سے
زیادہ ضروری اس وقت یہ امر ہے کہ دشمن کا تعین کر کے اس کا مقابلہ زیادہ
موثر انداز میں اور بھر پور طور پر کیا جائے۔ |