والدین کے لیے دنیا کی سب سے بڑی
نعمت اولاد ہے۔اس خوبصورت ، معصوم اور زندگی سے بھرپور نعمت کے لیے
انبیاءکرام نے بھی اللہ تعالی کے سامنے اپنی خواہش دعاﺅں کی صورت میں
رکھی۔حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے اس طرح دعا فرمائی:
قال رب ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعائ(آلِ عمران:۸۳)
”اس نے اپنے رب کو پکارا ،پروردگار، اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر ،
تو ہی دعا سننے والا ہے “
حضرت ابراہیمؑ نے ان الفاظوں میں اپنی خواہش کا اظہار کیا :
رب ھب لی من الصٰلحین(الصٰفٰات:۰۰۱)
”ائے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو“
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اولاد کے حصول کے لیے بارگاہِ الٰہی ہی
میںاپنا دامن پھیلانا چاہیے لیکن ہمارے یہاں دعاﺅں سے کم ،تعویز اور مختلف
پہنچے ہوئے ’شاہ یابابا‘ وغیرہ سے زیادہ کام لیا جاتاہے۔جس سے عموماً
عورتیں نہ صرف عصمت و عفت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیںبلکہ شرک جیسے ناقابل
معافی جرم کی مرتکب ہوتی ہیں۔
اولاد والدین کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے امانت ہوتی ہیں،ان کی اسلام کے
مطابق تربیت کرنااور جہنم کی آگ سے بچانا ہی ماں باپ کی اصل ذمہ داری
ہے۔اسی کو قرآن نے کہا:
یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا(التحریم:۶)
”ائے ایمان والو! بچاﺅ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے“
اگر بچوں کی صحیح تربیت اور پرورش نہ کی جائے تو وہی بچے والدین کے لیے
وبالِ جان اور باعثِ عذاب بن جاتے ہیں ۔ارشاد ہے:
انما اموالکم و اولادکم فتنة و اللہ عندہ اجر عظیم(التغابن:۵۱)
”تمہارے مال و اولاد آزمائش ہیں اور اللہ ہی کے پاس بڑا اجر ہے“
بعض دفعہ والدین کی محبت منفی شکل اختیار کر جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچوں
میں بگاڑ پیدا ہو تا ہے اور پھر ان کے لیے مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔اسی کو
اللہ تعالی نے فرمایا:
ان من ازواجکم و اولادکم عدولکم (التغابن:۴۱)
” تمہاری بعض ازواج واولاد تمہاری دشمن ہیں“
حاصلِ کلام یہ ہے کہ بچوں کی تربیت پیدائش سے ہی ایسی کی جائے جس کا مقصد
اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول ہو اور بچے دنیا اور آخرت دونوں میں کام
یابی حاصل کریں ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابتدائی عمر میں بچوں کی تربیت کرنے پرکوئی
خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے اوراس عمر کو ’کھیل کود کے دن‘کہہ کر ضائع کرنے
کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ جب کہ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر
میں ۰۸ فیصد، ابتدا ئی ۶ سال اہم کردار ادا کرتے ہیں اور باقی پوری زندگی
اسی کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں جو عادتیں، ذوق وشوق اور افکار و خیالات ان
کو ذہن نشین کرائے جائیں گے،وہ تا حیات قائم رہیں گے ۔ویسے بھی اس عمر میں
عادت ڈالنا یا تربیت کرنا آسان ہوتا ہے،کیونکہ ان کے سیکھنے کی صلاحیت
زیادہ ہوتی ہے اور ان کا ذہن سلیٹ کے مانند سادہ رہتا ہے ،جوچاہے آپ اس میں
لکھ دیں اوربچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر ہوتا ہے
۔ نبیِ کریمﷺ نے فرمایا:
”ہر بچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے
ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں“(مسلم:۸۵۶۲)
اسی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ عادتیں ۰۳ فیصد موروثی اور بقیہ ۰۷ فیصد ماحول سے
بنتی ہیں۔
بچوں کی تربیت کے یوں تو بہت سے پہلو ہیں لیکن موجودہ دور میں دیکھا جائے
تو سب سے اہم پہلو حیا ہے۔ اس وقت پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر میں
ڈوبا ہوا ہے ۔اس میں میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا
کر رہے ہیں۔ایسے میں بچوں کے اندر حیا کا تصور پیدا کرنا اوراسے ابتدا ہی
میں ان کے مزاج کا حصہ بنا دیناوالدین کا فرض ہے۔ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جن
قوموں کے اخلاق و کردار میں زوال آیا اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہوئیں تو
ان کے بچے اور نوجوان ذہنی و جسمانی دونوں طرح سے کھوکھلے ہو گئے اور زندگی
کے ہر محاذ پر ناکام ہوئے۔
اسلام نے اسی وجہ سے حیاکو شخصیت کا ایک اہم جزاور بنیادی اخلاقی صفت قرار
دیا ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
”ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم و حیا کرنا
ہے“(موطا:۵۳۶۱)
حیا کے مختلف مواقع ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
طرزِ گفتگو میں حیا: جب ننھے منے بچے بچیاں اپنی مٹھاس بھری زبان سے پیاری
باتیں کرتے ہیں توذہنی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے لیکن جب یہی زبانیں گالی گلوچ
، بے ہودہ گانے اور فلموں کے مکالمے ادا کرنے لگتی ہیں تو سماعت پر انتہائی
گراں گذرتا ہے لیکن اب تو والدین یا گھر والوں کو اس میں بھی مزا آتا ہے
اور جب بچہ گالی دیتا ہے یا گانے گاتاہے تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے
ہیں یعنی ایک طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگررفتہ رفتہ اس معصوم
کے ذہن پریہ اس بری طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ اس کی گفتگو کا حصہ بن جاتی
ہیں پھر وہ بڑے ہو کر بھی ان بری عادت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔
عموماً لوگ نومولود سے لے کر پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کے سامنے ہر طرح
کی فحش باتیں، مذاق اور دوسری تمام حرکات بغیر کسی شرم و حیا کے انجام دیا
کرتے ہیں کہ یہ تو ابھی نا سمجھ ہیں مگر یاد رہے کہ یہ تمام باتیں ننھے
ذہنوں پر نقش ہو جاتی ہیں،یوں ان کے دماغ میں حیا کے تصور پر جو کاری ضرب
پڑتی ہے، اس سے بچے شروع ہی سے بے حیا اور بے شرم بن جاتے ہیں۔زبان کو صاف
رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو ،بے ہودہ اور لچر مذاق ،غیبت اور جھوٹ وغیرہ
سے بچنا نہایت ضروری ہے۔حدیث ہے کہ:
”انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں
کوئی حرج نہیں سمجھتا لیکن درحقیقت وہ بدی ہوتی ہے، جس کے بدلے وہ ۰۷ برس
کی راہ تک آگ میں گر جائے گا“(ترمذی)۔
دوسری بات یہ کہ جب بچے بچیاں شعور کی عمر تک پہنچ جائیں تو ان کو صاف
الفاظ میں بتا یا جائے کہ صنفِ مخالف سے پیارے، میٹھے اور لوچ دار لہجے میں
بات نہ کریں۔ یاد رہے کہ بچے بچیاں عموماً تین سال کے بعد سے بہت سی باتوں
کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتے ہیں۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ امی یا بہن کی آواز
بازاروں میں دوکانداروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہو جاتی ہے یا ابو اور
بھائی جان کسی خاتون سے بات کرتے ہیں تو بناﺅٹی اور پیار بھرا لب و لہجہ
استعمال کرتے ہیں تو وہ اسے دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے یا ’اپنا کام
نکالنے ‘کا طریقہ سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہ عادت ان میں بھی جڑ پکڑ لےتی
ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انہیں اس بات کی تاکید کی جائے کہ
ڈرائیور،ملازم،دکاندار،طلبہ اور اساتذہ سے اپنا کام نکالنے کے لیے اٹھلانا
اور لاڈ دکھانا کسی بھی طرح سے قابلِ قبول عمل نہیں ہے، تاکہ ان کے دلوں
میں کسی قسم کی دلی بیماری یا بدنیتی پیدا نہ ہو سکے ۔اس کی تاکید قرآن
کریم نے ان الفاظ میں کی ہے :
یٰنساءالنبی لستن کاحد من النساءان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی
قلبہ مرض و قلن قولا معروفا(الاحزاب:۳۳)
”نبی کی بیویو،تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو
تو دبی زبان سے بات نہ کیا کروکہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں
پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“
بلوغت کے بعد اس پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہوگا جب بچپن ہی سے اس کی عادت
ڈالی جائے۔
لباس اور حیا:ہمارے یہاں لباس کے سلسلے میں حد درجہ لاپرواہی کی جاتی
ہے۔خواتین بچے بچیوں کے کپڑے تبدیل کرنے، نہلانے اور ان کے ڈائپر بدلنے میں
لوگوں یا دوسرے بچوں کی موجودگی کو معیوب نہیں سمجھتی ہیں ۔بعض گھرانوں میں
بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز گھومنے پھرنے دیا جاتا ہے کہ کون ہر دم کپڑے
دھوئے؟بعض گھروں میں بچوں کو ایک ساتھ برہنہ کرکے نہلانے کو عار نہیںمانا
جاتا۔ اسی طرح بچے بچیوں کو بغیر آستین،کھلے گلے کی فراک یا قمیص اور
ٹانگیں کھلی رکھنے کو عام فعل سمجھا جاتا ہے۔
فقہاءنے لکھا ہے کہ:”چار سال سے کم عمر کا بچہ ہو یا بچی ، اس کا جسم ستر
میں نہیں ہے لیکن جب وہ چار سال سے زائد کا ہو جائے تو ستر میں شرم گاہ اور
اس کے اطراف ہیں اور جب وہ بالغ ہو جائے تو بالغ افراد کی طرح ستر ہوگی“۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے کپڑے تبدیل کرتے وقت پردے کا خاص خیال رکھا جائے
اور جب وہ خود سے بدلنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت دیں۔اس کے
دو فائدے ہیں:
پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچیاں شروع ہی سے مناسب لباس کے عادی ہوجائیں گی
،ورنہ جب آپ نے ان کو ’ماڈرنیت ‘ کے چکر میں پیدائش سے لے کر بلوغت سے پہلے
تک جینس،ٹی شرٹ یا کھلے بازو والے فراک پہنا کر ان کے ذہن کو انہیں کا عادی
بنا دیا پھر بلوغت کے بعد اب آپ ان سے چاہیں کہ وہ شلوار قمیص اور دوپٹہ کے
ساتھ ساتھ برقع لگانا شروع کردیں تو اس کو نہ تو ان کا ذہن قبول کرے گا اور
نہ ہی وہ خود تیار ہوں گی۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ درندہ صفت لوگوں سے بچیاں محفوظ رہیں گی، کیونکہ
لباس ہی کا اس میں خاص کردار ہوتا ہے۔اس لیے بہتر ہوگا کہ ابتدا ہی سے ان
میں فطری حیا کے جذبے کو اس طرح سے ابھارا جائے کہ وہ ان کی شخصیت کا لازمی
جز بن جائے۔نمونے سے بچیاں جلدی سیکھتی ہیں ۔مثلاً ان کو ایسی ’گڑیاں یا
باربی ڈول‘ نہ دلائی جائیں جن کے لباس ،اسلامی لباس کے مطابق نہ ہوں اور ان
کو وجہ بھی بتادی جائے کہ ان کا لباس اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریقے کے
مطابق نہیں ہے ، اس لیے ہم نہیں خریدیں گے۔
نامحرم سے حیا: نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو، جب دس سال کے ہو
جائیں اورنہ پڑھیں تو مارواور ان کے بستر الگ کر دو“ (ابوداﺅد:۵۹۴)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس سال کے بعد بستر الگ کرنا ضروری ہے،خواہ سگے
بھائی بہن ہی کیوں نہ ہوں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جذبات پر شیطان غالب
آجائے۔ہمارے یہاں اس پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح گھروں میں کزن کے
نام پر’بھائی بہن‘ بتا کر بے تکلفانہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے اور خلوت
اختیار کرنے پر روک ٹوک نہیں کی جاتی ہے ۔جس سے اسلامی حدود کی پامالی ہوتی
ہے ۔اسی لیے بچپن ہی سے خاندان کے جن افراد سے پردے کا حکم قرآن و حدیث کی
رو سے موجود ہے، اس کا بھرپور اہتمام کرانااورمحرم نامحرم کی حدود کو قائم
رکھنا ضروری ہے ، خواہ ساری دنیا کی ناراضگی مول لینی پڑے ورنہ ایک خاص عمر
میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے
اور وہ خود کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام نے ان تمام چیزوں میں بھی رہنمائی کی ہے ، جن سے
بچوں میں شرم و حیا کا جذبہ ختم ہو سکتا ہے۔
(۱) ٹیلی ویژن: بے حیائی کا یہ ایک بڑا محرک ہے اور اس کی پہنچ تمام گھروں
میں ہے۔خواتین کو جب بچے زیادہ پریشان کرتے ہیں تو وہ ان کو ٹیلی ویژن کے
سامنے بیٹھا دیتی ہیں کہ کم سے کم اب دماغ تو نہیں کھائیں گے لیکن اس سے
بچے بچیوں میں گانے بجانے، بے حیائی کے مناظر سے لطف اندوز ہونے ، بے حجاب
ہونے اور فحش مذاق کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان کی ذہنی و جسمانی
صلاحیتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ظاہر ہے ایسے بچے جو’ ٹھمکے‘ لگاتے اور
دیکھتے جوان ہوئے ہوں ،ان سے اسلام کی اشاعت یا اس کی راہ میں جان و مال کی
قربانی دینے کی امیدیں لگانا بے قوفی ہی کہلائے گی۔یہی وجہ ہے کہ فسادات
میں وہ خود اپنی حفاظت نہیں کرپاتے ،چہ جائے کہ وہ ماﺅں اور بہنوں کو بچا
سکیں۔
دوسرا نقصان بچوں کو یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے کارٹونس کے نام پر عجیب الخلقت
کرداروں سے مانوس ہوتے ہیں کہ ان کا ہیرو بے پناہ قوت کا مالک ہے، ناقابلِ
شکست ہے،وہ کبھی نہیں مرتا تو پھر بھلا ان کے ذہنوں میں اللہ تعالی کی
وحدانیت،لازوال طاقت اور ابدی و کل مختار ہونے کا تصور کہاںسے اور کس طرح
آسکتا ہے؟اس کے علاوہ ٹیلی ویژن کے نقصانات میں بچوں کا تعلیم سے دور
بھاگنا،اس میں یکسو نہ ہونا، مطالعہ کا ذوق نہ ہونا، غیر سنجیدہ
ہونا،آنکھوں کا کمزور ہونا اور مزاج میں چڑچڑاپن آجانا،بے خوابی کا شکار
رہنا،سر میں درداور موٹاپا وغیرہ ہیں ۔
(۲)کمپیوٹراورانٹرنیٹ: یہ موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔جہاں یہ ہماری
تعلیمی و تحقیقی کاموں میں مدد کرتا ہے وہیں بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا
ایک اہم ذریعہ ہے۔عموما کمپیوٹر گھروں کے کونے کھدرے میں رکھا رہتا ہے۔ یہی
خلوت دراصل شیطان کا ہتھیارثابت ہوتی ہے۔اس کو ہمیشہ گھر کے نمایاں جگہ پر
رکھا جائے ، جہاں لوگوں کی برابر آمدو رفت رہتی ہواور والدین کو کمپیوٹر یا
انٹرنیٹ کے بارے میں واقفیت ہونی چاہیے کہ ان کو پتہ رہے کہ بیٹے یا بیٹیاں
کیا دیکھ اور کر رہی ہیں؟
سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے بچوں سے اعتماد کا رشتہ قائم کرتے ہوئے
انہیں سے اس اندازمیں سیکھا جائے کہ ان کو احساس نہ ہو کہ ہماری جاسوسی ہو
رہی ہے اور اس پر ہونے والی سرگرمیوں کاان سے تبادلہ خیال کیا جائے۔اس کے
علاوہ ساری فحش ویب سائیٹس کو بند کرا دی جائے ۔ اس کا آپشن موجود رہتا ہے۔
(۳)غیر مفید سرگرمیوں سے اجتناب:کہا جاتا ہے کہ خالی دماغ شیطان کا ہوتا ہے
۔اس لیے بچوں کو فارغ اوقات میں دل چسپ اور مفید سرگرمیوں میں لگائے رکھنا
چاہیے۔ جیسے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال، پینٹنگ، مضمون نویسی، بچوں کا
مشاعرہ، بیت بازی اور کھیل کود وغیرہ۔
ہمارے یہاں والدین خاص کر باپ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کو ’بڑکپن یا رعب ‘
کی وجہ سے معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ تصور سراسر غلط ہے۔آپ ﷺ بذاتِ خود بچوں کے
ساتھ کھیلتے تھے ۔حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
،دیکھا کہ آپ ﷺ چار پاﺅں پر چل رہے ہیں اور حضرت حسن ؓو حسینؓ آپ ﷺ کی پشت
پر سوار ہیں ، اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں تمہاری سواری (اونٹ) بہت اچھی سواری
(اونٹ) ہے اور تم دونوں بہت اچھے سوار ہو۔
ان سب کے علاوہ لڑکے لڑکیوں دونوں کو ورزش کرنے، اپنا ڈیفنس کرنے اور خاص
کر دوڑنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔موجودہ دور میں فساد ات عام ہیں ،اس میں ان
سب کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور ہم لوگ اسی میں مات کھا رہے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا چیزوں سے فائدہ اس وقت نہیں پہنچ سکتا جب تک
کہ والدین کا اپنے بچوں سے دوستانہ تعلق نہ ہو۔اس لیے ضروری ہے کہ ان سے
دوستی کی جائے اور اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ بچوں سے تعلق
بنے، نہ کہ تعلقات کی بنیاد پر رشتہ رہے۔
اکثر والدین یہی سمجھتے ہیں کہ بہترین لباس، عمدہ کھانا اور تمام طرح کی
سہولیات مہیا کرا دینے سے فرض ادا ہوجاتا ہے،مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ
بچوں کو ان سب چیزوں سے کہیں زیادہ ، ان کی ضرورت رہتی ہے۔اسی وجہ سے بچے
جب بڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی اپنے ماں باپ کی صرف ’مادی ضروریات‘ ہی کو پورا
کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، بقیہ اس کے علاوہ ان کے پاس والدین کے لیے وقت
نہیں ہوتا۔
بہتر ہوگا کہ بچوں کی ضروریات کو سمجھیں۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کو ان کی
زبانی سنیں جس میں اسکول کالج کے احوال، دوستوں کی روداد جن میں ان کی
احمقانہ باتیں بھی ہوتی ہیں لیکن تب بھی دلچسپی لیں، اس سے وہ آپ کو اپنا
دوست سمجھ کر ہر بات شیئر کریں گے تو آپ مناسب انداز سے اصلاح کر سکیں گے
،ورنہ وہ آپ سے چھپ کر سارے کام انجام دیں گے ۔جس سے آپ کا ہی نقصان
ہوگا۔یہی وہ عوامل ہیں جن سے دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور بچوں کی اصلاح
ہوتی ہے۔ |