کربلا حق و باطل کی جنگ - قسط نمبر 2

یزید کے دور میں جو نظام تھا وہ قتل و غارت ،عیاشی،شراب نوشی پر قائم تھا ،وہ نظام جو ظلم و جبر کی پہچان بن چکا تھا ہر طرف دین کی قدریں پامال ہو رہی تھیں انسان کی قدر ختم ہو رہی تھی عزت محفوظ نہیں تھی ادارے تباہ و بر باد ہو رہے تھے ،خلافت کا نظام مکمل ختم ہو رہاتھا لہذا اس کو بچانے کا مطلب دین مصطفیﷺ کو بچانا تھا ۔تو امام حسین ؓ وہ جنگ لڑھ کر دین محمدی کو بچانے کے سنگ میل بنے،نظام مصطفیﷺ بچانے کے بھی سنگ میل بنے،اسلام کی سیاسی،معاشی،سماجی،روحانی قدریں ان کی حفاظت کرنے کے لئے بھی سنگ میل بنے،جب جمہوریت،امریت میں بدل رہی ہو ،جب اچھی قدریں ختم ہو رہی ہوں،امانت و دیانت،جب خیانت اور کرپشن میں بدل رہی ہواور جب ادارں پر ایک شخص کی ذاتی امریت مسلط ہو رہی ہو،اور ایک انسان کی ذاتی ضروریات پامال ہو رہی ہوں،اور اس وقت پھر ضرورت ہے کہ اٹھ کر حق کی آواز بلند کی جائے،یہ حق کی آواز امام حسینؓ نے بلند کی دین کو بچانے کے لئے انصاف کو بچانے کے لئے،انسانیت کو بچانے کے لئے شرم و حیاء کو بچانے کے لئے،اخلاق کو بچانے کے لئے انہوں نے اپنا سر قلم کروایا مگر ظالم کے اگے جھکایا نہیں۔ ان کی شہادت کربلا میں اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ آپ نے نہ صرف دینی،اخلاقی ،روحانی،بلکہ انسانیت کی عظیم سطح پر قدروں کو بچانے کے لیے قربانیاں دیں،تاریخ کا ہر دور ان کا احسان مند ہے ،کائنات انسانی کا ہر طبقہ حسینؓ کا احسان مند ہے،لہذا جو لوگ جس طریقے سے بھی چائیں،ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے اپنا مسلک ہے،اپنا طریقہ ہے ،حسین ؓکا نام بلند کر رہا ہے اور جب حسینؓ کا نام بلند ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے مارکہ کربلا میں حق کا نام سر بلند ہورہاہے،جو امام حسین کا نام لیتا ہے وہ باطل کے خلاف آپنی آواز بلند کر رہا ہے.اور دین محمدی کی سیاسی،سماجی،اخلاقی قدروں کو زندہ کرنے کا سبب پیدا کر رہا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے اپنی ساری اہل بیت سے محبت ہے اور اہل بیت میں سے سب سے بڑھ امام حسینؓ سے محبت ہے ۔اﷲ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتے ہیں جس شخص نے حسین ؓ سے محبت کی،جس نے حسین ؓسے محبت کی اس نے رسول ﷺسے محبت کی اور جس نے رسولﷺ سے محبت کی اس نے اﷲ سے محبت کی۔محبت حسین ؓ محبت رسول ﷺبھی ہے اور محبت خدا بھی۔حسین ایک فرد نہیں تھے وہ ایک پوری امت ہیں،پوری امت کے فضائل کا مظہر حسین ؓہیں۔محبت کرنا عبادت ہے اور محبت کے ساتھ اتباہ کی جائے،ان کے حسنہ کو ،شہار کو اپنایا جائے ۔حسینؓ نے دین اسلام کی کیسے خدمت اور دین کو کیسے سربلند رکھا اس بات کو سمجھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ میدان کربلا میں حق و باطل کے مارکے میں حسینؓ کے جسم پر ایک بھی زخم تلوار کا نہیں تھا،یزید دور سے تیروں کی بارش کرتے تھے مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سامنے آکر تلوار سے ان پر وار کرتا یا لڑھ سکتا،امام حسین کا جسم تیروں سے چھنی تھامگر تلوار کا کوئی زخم نہ تھاسوائے زخم شہادت کے اور وہ کب ہوا جب وقت نماز ہوا آپ نے نماز پڑھنے کے لئے اﷲ اکبر کہہ کر سجدے میں چلے گئے جب ان کا سر سجدے میں تھا تو بد بختوں نے تلوار چلا کر ان کو شہید کر دیا۔گویا امام حسینؓ سے محبت یہ پیغا م دیتی ہے کہ جنہوں نے کربلا کے اس سخت لمحات میں جب وقت نماز آیا تو نماز ترک نہیں کی۔اور اﷲ اکبر کہہ کر سر با سجود ہوئے اور شہادت حاصل کی تو دین اسلام کو زندہ رکھا اس کو بچایا۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ ہم محبت کا دعواہ کرتے ہیں لیکن طرز،حسینیؓ سے دور ہیں ،ہم محبت حسین کا دعواہ کرتے ہیں اور کرپشن میں بھی مبتلا ہیں جب کہ حسین ؓکی جنگ کرپشن کے خلاف تھی،ہم محبت حسینؓ کا دعواہ کرتے ہیں اور ساتھ امریت اور جبریت کا دیتے ہیں جب کہ ان کی جنگ ڈکیٹیٹر شپ کے خلاف تھی ،امریت کے خلاف تھی ظلم کے خلاف تھی ۔امام حسینؓ سے محبت عبادت ہے اور محبت کا پیغام یہ ہے کہ امام حسین کی زندگی کے طریقے کو اپنایا جائے۔

آج ہماری سو سائٹی، ہمارا معاشرہ حسین کا مظہر نہیں ،ہمارا معاشرہ آج یزیدیت کا مظہر ہے ہم آج یدیدیت کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ہم نام لوا تو حسینؓ کے ہیں مگر عمل پیرا حسوا یزید پر ہیں،ہمارا طرز زندگی یزیدی ہے ہمارہ طرز حکمرانی یزیدی ہے ،ہمارا طرز سیاست یزیدی ہے،ہمارا طرز تجارت یزیدی ہے جس معاشرے میں انسان کی جان کی قدر نہ ہو ،جہاں ہر روز ہزاروں بے گناہ بم بلاسٹ سے خود کش حملے سے ٹارگٹ کلنگ سے مارے جائیں اور مقتول کے ورثا کوقاتل کا پتہ تک نہ ہو اور مرنے والے کو یہ نہ پتہ ہو کہ میں مارہ کیوں جا رہا ہوں یہ طرز یزیدی نہیں تو اور کیا ہے،اس ،معاشرے میں کسی کی جان محفوظ نہیں،مال ،عزت محفوٖظ نہیں،کسی کا مستقبل محفوظ نہیں یہی کچھ تو تھا جو یزید کے ہاتھوں ہو رہا تھا اور ہونے جا رہا تھا آج حسینؓ کے نام لوا اہل سنت ہوں یا اہل تشعی پوری امت امام حسین ؓسے محبت کرنے والی ہے، ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ حسوا حسین ؓکے علمبردار بن کر اٹھیں ملک بچائیں ہمارے حکمران،سیاست دان اپنی سیاست بچا نے کی کوشش میں لگے ہیں ملک نہیں۔ہر ایک کو اپنی فکر ہے اس ملک میں ان غریبوں کی کسی کو پرواہ نہیں ان بچوں کی کوئی فکر نہیں جن کو ایک وقت کا نوالہ بھی نہیں ملتاجس کے گھر چولہہ نہیں جلتا ،جو اپنے بچوں سمت زہر کھا کر خود کو موت کے حوالے کرتا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں،بے روزگاری کا یہ عالم ہے پڑھے لکھے ملک چھوڑ رہیں ہیں رشوت کا بازار گرم ہے نوکری دینے کے لئے کروڑو میں رشوت مانگی جا رہی ہے۔یہاں عدل نہیں انصاف نہیں،نوکریاں نہیں زندگی بے معنی ،بے مقصد ہو کر راہ گئی،دن بدن ہمارے اندر یزیدیت بڑھ رہی ہے ہم حیوان ہوتے جا رہے ہیں،ایسے وقت میں ،ایسے معاشرے میں ایسے ملک میں ہر فرد کو مظہر حسینؓ بن کر اٹھ کھڑے ہونا ہوگا،معاشرے کے ہر فرد کو حسینی کردار کے حقیقی علم برادر بننا ہوگاخالی نعرے لگانے سے بات نہیں بنتی ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تباہ شدہ اقوام کے آخری درجے پر پہنچ گئے ہیں،عام آدمی تو دور کی بات خود ملک کا مستقبل محفوظ نہیں ملک کی سالمیت محفوظ نہیں ملک کی آزادی محفوظ نہیں ہمیں سوچنا ہوگا ،ہمیں یہ فکر کرنی ہوگی ہمیں اپنے کردار پر نظر ڈالنی ہوگی کہ ہم کہا ں جا رہے ہیں ہم کسی کے طرز زندگی کو اپنائیں ہوئے ہیں اور دعوے دار کس کے ہیں۔ہمیں حسین ؓ،رسول اﷲ ﷺ اور اﷲ سے محبت کا ثبوت دینا ہوگا ملک میں پھیلی یزیدیت کا مقابلہ جذبہ حسینی سے کرنا ہوگا،اور کرنا چاہئے،اب وقت آگیا ہے کہ یزیدی قوتوں کا مقابلہ جذبہ حسینی سے کیا جائے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75044 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.