ہم سب یزیدیت کے دور میں ہیں؟

اسلامی فکرکے معانی ومفاہیم کے صحیح فہم کے بغیرمعرکۂ کربلاکے پس منظرمیں چھپی ہوئی حقیقتوں کاادراک ناممکن ہے ۔ عہدرسالت اورعہدخلافت راشدہ پرجس کی گہری نظرنہیں ہے اس کے نزدیک معرکۂ کربلاکی حیثیت محض ایک جنگ سے زیادہ نہیں ہے ۔اس عظیم ترین ،تاریخی اورغیرمعمولی معرکے کو اسلام اورمسلمانوں سے وہی لوگ جوڑتے ہیں جواسلام کوصرف عبادات ووظائف کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ظاہرہے اس ’’جہالت نگری‘‘میں بسنے والے لوگ معرکۂ کربلاکی گہرائیوں میں اترہی نہیں سکتے۔ان کی معلومات کی انتہابس یہی ہے کہ میدان کربلامیں حضرت امام حسین کامقابلہ کافروں اوردشمنان اسلام سے تھا۔ان کوکیامعلوم کہ امام حسین سے نبردآزماہونے والے کوئی غیرنہیں مسلمان ہی تھے ۔وہ بھی ہمارے نبی کاکلمہ پڑھتے تھے ،وہ بھی اسلامی تعلیمات کے قائل تھے ، وہ نمازپڑھتے تھے ،روزہ رکھتے تھے ،حج وعمرہ کرتے تھے ، جہاد کرتے تھے اورزکوٰۃ دیتے تھے مگرسوال یہ ہے کہ پھرحضرت امام حسین کویہ اقدام کیوں کرنا پڑا؟

یزید مسلمان ضرورتھامگروہ ڈکٹیٹرتھا ۔اس نے اپنی حکومت کے ذریعے جس اسلام کوپیش کیاوہ حقیقی اسلام نہیں تھا۔اس کے یہاں انصاف کے دوپیمانے تھے اگراس کااپناآدمی یاکوئی طاقت ورجرم کرتاتواسے چھوڑدیتااوراس کے لیے کوئی سزاتجویزنہ کرتا لیکن اگرغریب و کمزورآدمی سے غلطی سرزدہوجاتی تووہ اسے سزاؤں کی بھٹی میں جھونک دیتاتھا۔وہ اسلام کے نام پروہ ساری چیزیں کر رہا تھا جو فطرت اسلامی کے یکسرمنافی تھیں۔ وہ جواکھیلتاتھا،شراب پیتاتھا،وہ گھمنڈی تھا،انانیت کی کیچڑمیں لتھڑاہواتھا ،ضدی تھا ،شدت پسند تھا مگروہ اپنامذہب اسلام بتاتااوراپناتعارف مسلمان کی حیثیت سے کراتاتھا ۔وہ چاہتاتھا کہ امام حسین بھی اس کی بیعت و خلافت تسلیم کرلیں ۔ظاہرہے جو شخص اسلام کی بنیادوں پرکراری ضربیں لگا رہاہوحضرت امام حسین اس کی بیعت کیسے کرسکتے تھے ۔ جوشخص اقتدارکے نشے میں چورہوکرظلم کرتا اور کراتا ہو حضرت امام حسین اس کی خلافت تسلیم کرکے اس کے ظلم کے معاون کیسے ہو سکتے تھے۔وہ تو ڈکٹیٹرتھاجب کہ حضرت امام حسین جس دین کے نمائندے تھے وہ جمہوریت نوازہے ۔ اسلام نے شخصی حکومتوں کوکبھی پسندنہیں کیا،اسلامی حکومتیں جب بھی قائم ہوئیں جمہوریت پر قائم ہوئیں مگریزید نے شخصی حکومت قائم کرکے من مانے طورپر جو چاہا کیا۔ حضرت امام حسین اس کی بیعت تسلیم کرکے اس کی حکومت اور کارکردگیو ں کو جوازنہیں فراہم کرناچاہتے تھے ۔کیوں کہ جوآدمی جتنابڑاہوتاہے اس کی اتنی ہی بڑی ذمے داری بھی ہوتی ہے اگروہ اس کی بیعت تسلیم کرلیتے توحضورسرورکائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے کایہ عمل آنے والے زمانے کے لیے نمونہ اورماڈل قرار پاتا ۔

امام حسین اوریزیدکوصرف دواشخاص مت سمجھیے ،یہ دوکردارہیں اوردومعنیٰ خیزاصطلاحیں۔جب تک مجبوروں پرظلم ہوتارہے گا اور اس کے خلاف آوازبلندہوتی رہے گی اس وقت تک یہ دونوں کرداربھی زندہ رہیں گے ۔حسینیت نام ہے شرافت کا ،پیارکا ،ہم دردی کا،مساوات کا،مواخات کا ،تواضع و انکساری کا،ظلم وبطلان کے خلاف آواز بلند کرنے کااوریزیدیت ظلم ، گھمنڈ ،ڈکٹیٹرشپ ،انانیت ، انتہاپسندی،اقرباپروری ،جاہ پسندی ، عیش پرستی اوراسلام کے نام پرغیراسلامی چیزوں پرعمل کرنے اور انہیں رواج دینے کے مترادف ہے ۔

اس معرکے کاایک اہم سبق یہ ہے کہ اگروقت کاعابدوزاہد،شیخ طریقت اورتقوی شعاربھی اپنی تمام تر زہد ، عبادت اور مشیخت کے باوجودظلم وانصاف کاحامی ہے ،اقرباپرورہے،ضدی ہے ،شدت پسندہے ،انانیت کی دلدل میں لتھڑہواہے ،گھمنڈی ہے ، انتہاپسندی کاشکارہے، اپنے زیردستوں اورچھوٹوں سے اچھاسلوک نہیں کرتااوراسلام کے نام پروہ سارے کام کررہاہے جواسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں توکہیں ایساتونہیں کہ اس کی نماز حقیقی نمازنہ ہو یزیدی نمازہو،اس کاروزہ یزیدی روزہ ہو،اس کی زکوٰۃ یزیدی زکوٰۃ ہو،ا س کا جہاد یزیدی جہادہو، اس کا تقویٰ یزیدی تقوی ہو، اس کافتویٰ یزیدی فتوی ہو،ا س کاحج یزیدی حج ہو اوراس کے سارے بنام اسلام کام یزیدی کام ہوں؟۔

معرکۂ کربلاکے پس منظرسے معلوم ہوتاہے کہ حضرت امام حسین نے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ بلاتفریق مذہب و مسلک پوری انسانی برادری کے لیے جنگ مول لی تھی۔اس طورسے حضرت امام حسین کاصرف مسلمانوں پرنہیں بلکہ پوری انسانیت پر احسان ہے ، دنیا بھرکے مقہور،مجبور،مظلوم اورستم وبربریت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں پراحسان ہے ۔انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایساانسان نہیں گزراجس نے اتنی بڑی سطح پرمظلوموں کی آوازبن کرنہ صرف یہ کہ خودکی بلکہ اپنے اہل خانہ اوراپنے ننھے منھے شیر خواربچوں تک کی کردنیں کٹواکرظالم کاہاتھ مروڑ دیاہو۔ایک وقت وہ تھا جب مکہ کی وادیوں میں ظلم وبربریت میں سسکتی ہوئی انسانیت پرحضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیار،محبت ،ہم دردی ،مواخات،مساوات اوریک جہتی کامرہم رکھاتھا اور ظلم کے خلاف عملی طورپرآوازبلندکرکے دنیاکوظلم وتشددسے نجات دلائی تھی اورپھرکچھ ہی سالوں بعد ایک وقت وہ بھی آیاکہ کوئی اور نہیں خود ان کے نواسے اس مہم کوآگے بڑھاتے ہوئے اپنے ناناجان کی آوازبن کرسامنے آئے اور تاریخ کارخ موڑ دیا۔

سنہ ۶۱ھ میں وقوع پذیرہونے والے اس سانحے کے آئینے میں اگرہم موجودہ احوال کاتجزیہ کریں تویہ کہناپڑے گاکہ اُس دورمیں اورآج کے دومیں عملاًکوئی فرق نہیں رہ گیاہے بلکہ سچی بات تویہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یزیدی عناصرجس کثرت سے درآئے ہیں اتنے توشایدکسی بھی دورمیں نہ ہوں۔ہم محسوس یاغیرمحسوس طورپروہی سب کررہے ہیں جواس دورکے یزیدی کر رہے تھے ۔ہم اپنے بھائی کامال ہڑپ کرجاتے ہیں مگرہمیں کوئی افسوس نہیں ہوتا،ہم جہاں ملازمت کرتے ہیں توہماری کوشش و خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنی کمپنی میں اپنے قریبی لوگوں کوہی رکھوائیں چاہے وہ اہلیت کے اعتبارسے زیروہی کیوں نہ ہوں، کمزور کودبانے میں ہم کسی بھی طرح نہیں چوکتے اوراپنی دولت کے بل پراس کونیچادکھانے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں رہناچاہتے۔ ایسا لگتا ہے جوجتنابڑاہے وہ اتناہی بڑاکرپٹ،ظالم ،اقرباپروراوراناپرست ہے ۔کیایہ یزیدیت نہیں ہے؟۔ہم آج بھی وہی کام کررہے ہیں جوکل یزیداوراس کے ہم نوا کررہے تھے فرق صرف یہ ہے کہ ہمارطریقہ کارتبدیل ہوگیاہے ۔ یزیدیوں نے اپنے زمانے کے اعتبارسے جوکچھ کرناتھا،کیااورآج ہم جدیدٹیکنالوجی کے سہارے ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ کیا یزیدیت کے دورپھرسے پلٹ آیاہے؟کیاہم یزیدیت کے دورمیں ہیں؟کیاآج کے حسینیوں کوآنکھیں نہیں دکھائی جارہی ہیں؟ہم ہرسال محرم الحرام کے موقع پرحضرت امام حسین کے نام پرمحافل منعقدکرتے ہیں،سبیلیں لگاتے ہیں،کھچڑابناتے ہیں۔بلاشبہہ یہ سارے کام بھی ضرور کرنا چاہیے کہ ان سے حضرت امام حسین اورکربلاوالوں کی یادتازہ ہوتی ہے مگرجوکام انتہائی اشد ضروری ہے اس کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔ہم سرسے لے کرپیرتک یزیدی فکراوریزیدی عمل میں غرق ہیں مگر تب بھی ہم اپنے حسینی ہونے کادم بھرتے ہیں، یا حسین یاحسین کانعرہ لگاتے ہیں۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 189338 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More