کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار
زیادہ تر ملکی معیشت پر ہوتا ہے۔اس ملک کے سرکاری و نجی ادارے جتنے بہتر
طریقے سے کام سر انجام دیں گے اتنی ہی اس ملک کی معیشت مضبوط ہو گی ۔معیشت
کو بہتر بنانے کے لیے ملکی اداروں کو سب سے اہم کردار ادا کرنا پڑتا
ہے۔پاکستان کے اگر سارے نہیں تواکثر سرکاری ادارے بڑی تیزی سے تنزلی کی
جانب گامزن ہیں جیسے انہیں تباہ کرنے میں سب کی ریس لگی ہوئی ہے ۔ تقریباـ
ہر ادارہ خسارے میں جا رہا ہے جس کی سب سے بڑے وجہ چیک اینڈ بیلنس کا نہ
ہونا ہے۔تمام ادارے ٹھیک ٹھاک پیسے کما رہے ہیں مگر وہ پیسہ جاتا کہاں ہے
اس کا کسی کو نہیں معلوم، ریلوے میں جگہ نہیں ملتی،پی آئی اے کی بکنگ کھلتے
ہی ٹکٹ فروخت ہو جاتے ہیں اسی طرح باقی اداروں کا بھی یہی حال ہے مگر یہ
سارامنافع غائب کہاں ہو جاتا ہے؟اس سوال کا جواب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ
کبھی ہو گا۔
پاکستان کا ریلوے سسٹم تباہی کی جانب گامزن ہے جب کہ انڈیامیں ریلوے ترقی
کی جانب گامزن ہے انڈیا میں ریلوے کی کامیابی کی وجہ (باوجود اس کے کہ) اْن
کے پاس انگریز کے زمانے کے انجن ہیں لیکن اْن کے پاس ٹیکنالوجی ہے وہ جو
انجن خریدیں گے ٹیکنالوجی کے ساتھ خریدیں گے ہمارے ہاں اب تک ٹیکنالوجی کے
ساتھ انجن کی خریداری پر توجہ نہیں دی گئی۔ہم ٹیکنالوجی سے محروم ہیں ۔اور
پھر ہمارے پاس جو انجن ہوتے ہیں اْن کے ساتھ جو سلوک کیاجاتا ہے وہ انتہائی
سفاکانہ عمل ہے انجنوں کو چلانے کے لئے پْرانا خراب آئل استعمال کیا جا تا
ہے جس کے بعد انجن کب تک دوڑیں گے آخر انہوں نے رْک ہی جانا ہی۔ریلوے کے
پاس 500سے زائد انجن ہیں جن میں 400سے زائد ناکارہ ہیں۔جب کہ ایک انجن
5لاکھ یا اس سے زائد کما کر دیتا ہی۔لیکن سب نا اہلی کی وجہ سے ناکارہ ہیں
اور باقی بھی جلدنا کارہ ہو کر کھڑے ہو جائیں گی۔
پاکستان ریلوے گزشتہ حکومت کے عرصے میں شدید خصارے تلے دبے جا رہی تھی اور
دن بدن تنزلی کی جانب گامزن تھی۔کبھی ٹرینیں لیٹ در لیٹ تو کبھی ان میں
ایندھن ڈلوانے کے لیے سرمائے کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا۔کسی وقت میں
پاکستان ریلوے کے پاس سینکڑوں انجن ہوا کرتے تھے جو اب ناکارہ ہوتے ہوئے
صرف 85باقی رہ گئے ہیں جن کی ساتھ ساتھ ( (Maintenance نہ ہونے کی وجہ سے
حالت زار ہے ۔حکومت کے بدلتے ہی ریلوے کی وزارت مسلم لیگ کے رہنما سعد رفیق
کو دے دی گئی جنہوں نے پہلے دن سے ہی پاکستان ریلوے کی حالت بہتر بنانے کے
لیے تگ و دو ر شروع کر دی اور اب ریلوے کے حالات بہتر ہوتے دکھائی دے رہے
ہیں ۔
اسی طرح اگر ہم پاکستان انٹر نیشنل ائر لائن کی بات تو پی آئی اے کا سالانہ
خسارہ 305 ملین ڈالرز ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں 100 ارب روپے کے قرضوں
کے نیچے دب چکی ہے۔پچھلے کئی سالوں سے پی آئی اے کو شدید بحرانوں کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد
کا بہت زیادہ ہونا ہے ۔کسی وقت میں پی آئی اے دنیا کی بہترین ائر لائنز مین
شما ر کی جاتی تھی مگر اس وقت صرف 35طیارے ان کے پاس صحیح حالت میں موجود
ہیں جن کے لیے 18019ملازم کام کر رہے ہیں۔ ایک جہاز کو Maintain رکھنے کے
لئے اگر بین الاقوامی معیار کے مطابق 120 ملازمین درکار ہیں تو پی آئی اے
میں فی جہاز 515 ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں۔ آج پی آئی اے کو تقریباً 70
جہازوں کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت پی آئی اے کے پاس صرف 42 جہاز ہیں جن میں
سے صرف 21 قابل پرواز ہیں۔اب اگر ایک طیارے کے لیے اوسط515ملازم اس ادارے
میں موجود ہیں تو یہ ادارہ کیسے منافع میں جا سکتا ہے؟اس کا اندازہ اب آپ
بخوبی لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کے دوسرے سرکاری اداروں کی طرح پاکستان سٹیل مل بھی تباہ حالی کا
شکار ہے دن بدن اس کی کارکردگی کم ہوتی جا رہی ہے اور نقصانات کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے۔ایسی مل جس میں ایک سال کے دوران بیس 20 کرپشن کے کیسز پکڑے
جائیں اس نے کیا خاک منافع کما نا ہے؟
جس بھی پاکستانی سرکاری اداے کو نقصان کا سامنا ہوتے ہیں اس کے متعلق
افوائیں سر گرم ہو جاتیں ہیں کہ اس کی نجکاری کر دی جائے۔
اس طرح کی افوائیں پھیلانے والے وہی لو گ ہوتے ہیں جنہیں ادارے کے نجکاری
ہو جانے سے خاص فوائد حاصل ہوتے ہیں۔حالانکہ ادارے کے نقصانات کو ختم کرنے
اور بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ہر گز ضروپر ی نہیں کہ اس کی نجکاری کر دے
جائے بلکہ بہتر چیک اینڈ بیلنس اور اچھی پالیسی وضح کرنے سے بھی اداروں کی
کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے اور یوں اداروں کو نجکاری سے بچایا جا سکتا
ہے۔
اسٹیل ملز 80 ارب روپے کی مقروض ہوچکی ہے۔
پاکستان نہ صرف اس وقت اداروں کی تنزلی کا شکار ہے بلکہ بہت سے ایشو بھی
آئے روز سننے کو ملتے ہیں کبھی ملالہ کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو کبھی یہ بحث
کہ کون شہید ہے اور کون نہیں ۔ بجائے اس کے کہ ان اداروں کی بہتری کی طرف
توجہ دیں پوری قوم ان بحثوں میں الجھ کر رہ گئی ہے کہ جس کو کسی کو بھی
کوئی فائدہ نہیں ہے اور غیریب عوام تو اس پورے مرحلے میں پوری طرح پستی جا
رہی ہے ، کاش کوئی تو ہو جو دیانت داری کے ساتھ ملک کی تعمیر اور ترقی کے
لئے بہتر اقدامات کرے ۔اور گرتے ہوئے اداروں کی تنزلی کو ترقی میں تبدیل
کرنے کے لئے عملی اقدامات کی طرف توجہ دے ۔ |