بلا شبہ ایک بے ہنگم شور برپا
ہے۔یہ شور کسی گلی کوچے ،کسی عمارت میں نہیں ۔یا ہڑتال کے نام پہ ہونیوالی
توڑ پھوڑ کا نہیں ۔یہ شور برپا ہے ہر اس ظلم سہتے ہوئے فرد کے دل میں جو بے
یقین ہے بے بھروسہ ہے۔کہ اب اس کی زندگی میں کحچھ بہتر ہو گا ۔کیونکہ اب
بہتر صرف امراء کی تجوریوں کے ہورہے ہیں ۔اسی طرح کحچھ لوگ خواب و عذاب کی
اس کیفیت میں معاشرہ ایک نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہے۔سچائی اور حقیقت کو مد
نظر رکھتے ہوئے ۔اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے توہر شے ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہے۔سنا ہے دل ٹوٹنے کی آواز نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں یہ آواز ہم آپ نہیں سن
سکتے ، رب کریم کو صاف سنائی دیتی ہے ۔ہم سب جیسے بہرے ہو چکے ہیں ۔یہی وجہ
ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے۔بندہ جائے وقوعہ پر ہی ہمیں پکارتا
پکارتا خدا کے سپرد اپنی جان کر دیتا ہے۔اسی طرح وعدہ توڑنا بھی ایک عام سی
بات ہے ۔تو چاہے دل ٹوٹے یا گھر کے برتن جرم ایک ،جرم ایک حقیقت ہے مجرم
کھلے عام گھوم رہا ہے اس سے بھی بڑ ی حقیقت ہے۔ڈپلومیسی کا دور ہے۔اور بے
حسی کی چادر اوڑھ کر جیسے ہر شخص تماشائی بن کے رہ گیا ہو ۔یہ وہی شخص ہو
سکتا ہے جو ـــــ۔۔۔۔"جیب نکھارو گھر کو سنوارو "۔۔۔۔ کے اصول پہ عمل کرتے
ہوئے کبھی اپنے پڑوس میں جاننے کی کوشش نہیں کرے گا کہ ۔شائید وہاں کسی کو
اسکی مدد کی ضرورت ہو ۔"سبحان اﷲـ"کیا کہنا کہ ہم اب صرف اور صرف اپنی ذات
تک محدود ہو کر رہ گئے ۔اب تو یہ لفظ انسانیت بھی تو ڑ پھوڑ کا شکار
ہے۔انسان اور نیت دو الگ الگ لفظ ہیں ۔۔"قارئین"
انسانیت کو آپ انسان اور نیت سے پڑھئیے گا ۔تو مجھے خوشی ہو گی کہ آپ نے
میری تحریر میں فکر کو محفوظ کر لیا نیت بھی ایسی جو برکہ اوڑھے رکھتی
ہے۔ہاں۔۔۔لیکن چہرے سے عیاں ہو جاتی ہے۔زبر دست بات یہ ہے کہ اﷲفورـا ہی
نیتوں کا پھل بحش دیتا ہے۔۔۔۔۔دھوکہ کھاجانیوالوں کے لیئے یہ بات خاص طور
پہ اہمیت کی حامل ہے۔کہ جس شخص کی نیت کو وہ پہچان نہ سکے ۔اور دھوکہ کھا
گئے تو وہ ۔براہ کرم،اپنی قسمت پہ شافی نہ ہو اﷲنیتوں کو جان کے انجام کے
بھیانک سامان پیدا کر دیتا ہے۔جو دھوکہ دینے والا انسان عمر بھر بھگتتا
رہتا ہے۔غوروفکر سے جائزہ لیا جائے۔تو آج ہم اسقدر پریشان کیوں ہیں ۔مسائل
کا شکار ہر شخص ایک ایسی پگڈنڈی پہ چل رہا ہے۔جہاں اسے بس چلتے رہنا ہے۔اور
یونہی بس چلتے رہنا ہے۔زندگی جی نہیں رہا بس زندگی جیسے گزار رہا ہو۔دماغ
سوزی نہ کیجئے ۔اور مان لیجئے کہ ہم خود ، ہمارا عمل ہمارا مجرم ہے۔آج ہم
اخلاق کے حسن سے آشنا نہیں جو آشنا ہے وہ خوش ہے اس کی زندگی باغ و بہار
ہے۔۔۔ذلت اور اذیت قوم کا مقدر بن کہ رہ گئی اوریہ مقصد کوئی تحفے میں نہیں
ملانت نئے باکمال گناہ غیر اسلامی فطرت مگر ایک عادت کہ ہم مصنوعی ہیں ۔یہ
تسلیم نہیں کریں گے۔گناہ کوئی تسلیم نہیں کرتا۔جو تسلیم کر لے وہ خدا کا سب
سے پیارا بندہ بن جائے۔خدا کے قریب جانے کے لیئے جرم تو تسلیم کرنا ہو گا،
رونا ہو گا ،گڑگڑانا ہو گا۔اپنے آپ کو گناہگار ماننا ہو گا۔مگر بیگانہ
انجانہ انسان کڑوا گھونٹ کیسے پیئے گا۔۔۔۔شراب کی دکانیں ترقی کر رہی
ہے۔وہی پی پی کے جیئے جا رہا ہے۔ہوش کھو بیٹھا ہے جوش کھو بیٹھا ہے ۔ملت
اسلامیہ اپنا وقار کھو چکی ہے۔کیسے پائے گی واپس ِـ۔۔۔اپنی عزت اپنا وقار
کیسے ثابت ہو گا۔عالمی برادری کی نظر میں کہ مسلمان قوم فقط ایک قوم ہے۔ایک
یکجا قوم ۔۔۔اس کے بکھرے ہوئے ٹکڑے تو اپنے میڈیا سے عالمی میڈیا تک سب چن
رہے ہیں کانٹے ہی کانٹے ہیں ان لوگوں کی راہوں میں جو فرقہ پرستی کو ہوا دے
رہے ہیں۔ہو ا قدرت کے کنٹرول میں ہے یہ بھول گیئے ہیں ۔ایسے انجان لوگوں کو
اپنے بھیانک انجام سے آشنا رہنا ہی ہو گا۔ان کی بری صفات سے قوم منتشر ہو
گی یہ انکی بھول ہے۔وہ نئے نئے زاویئے سے اپنے شاطر دماغ استعمال کر کے
معاشرے کے دامن سے امن ختم کرینگے۔بے شک ان کی بھول ہے۔ان کے اور زندگی کے
درمیان واقع ہونیوالاایک واقعہ موت ہے۔اور یہ واقع کائنات میں کوئی ذی روح
نہیں بھول سکتاہے۔زندگی دنیا میں تھکا دے گی کس قدر بے خبر ہے بد دماغ
انسان سمجھتا ہے بانٹ دے گا ہم سب مسلمانوں کو ۔کبھی ہضم نہ ہو گی یہ سازش
اسے۔اور بد ہضمی کا انجام موت ہو تا ہے۔یہ بد ہضمی کا شکار تو ہو کر رہے گا
۔اور ایسے شخص کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو تحریر بوجھل نہیں آنکھیں
بوجھل ہو جاتی ہیں۔کہ کتنے معصوم لوگ فرقہ وارانہ سازش کا شکار ہو گئے۔یہ
وہی دماغ ہے۔یہ وہی دماغ ہے جو خالی کیا گیا ہے وہی دل ہے جو خالی کیا گیا
ہے۔اﷲسے محبت نہ رہی جس میں۔انسانیت کی قدر نہ رہی جیسے سمجھتا ہے کہ ہم
کبھی یکجا اور یکتا نہ ہو پائیں گے۔۔۔۔۔آہ !
کس قدر خصارے میں ہے۔۔۔۔ایسے شخص کی سازش کو ناکام بنانے کے لیئے ہر فرد کو
اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔پس دل میں جذبہ رکھنا ہو گا۔دولت کمانے کا
جذبہ کامیاب جا رہا ہے۔اور اسقدر کامیاب کہ بندہ حلال حرام کا مطلب ہی بھول
جاتا ہے۔یہاں اس جذبے کی بات ہو رہی ہے۔جو انسانیت کا زیور ہے۔جسے پہن کر
ہم اپنے گھر کو وطن کواپنی قوم کو بچا پائیں گے۔موقعہ پرست معاشرے کی
کمزوریاں جانچ کر اپنے وارکیئے جا رہا ہے۔اور ہر بندہ بے حس جئیے جا رہا
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک قوم بن کر سوچا جائے ۔بالکل اسی طرح کا اتحاد
پیدا کیا جائے آپس میں ۔کہ جیسا کہ آجکل حکمران کرسی کے حصول کیلئے آپس میں
اتحاد کیئے ہوئے ہیں۔میں میں کی رٹ سے ہٹ کر ہم بن کر سوچنا ہو گا۔اسی میں
ہم سب کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ہمارا دشمن ہمارے کاندھے پہ لاشوں کے بوجھ رکھے
جا رہا ہے۔لاشیں دفن ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ـ!
اس کے کندھوں پہ جو گناہوں کا بوجھ ہے۔وہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔تبھی تو
وہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانے والا گناہ مسلسل کیے جا رہا ہے۔اپنے مردہ
ضمیر کے ساتھ خدا کی نظر میں ہے۔ہر خبر پر بشر تو اپنے۔ہم اپنے آپ سے وعدہ
کریں ایسا وعدہ جو ہم کبھی توڑ نہ پائیں خود غرضی بے حسی کے نقاب اپنے
چہروں سے نوچ کر وعدہ کریں کہ خدا کے سمجھائے ہوئے راستے پہ چل کر اسطرح
انسانیت کو بچانا ہے۔جو اب معاشرے سے ناپید ہو تی جا رہی ہے۔اور ہم نے جو
وعدہ کیا وہ نبھانے میں ناکام ہو گئے۔پھر اﷲاپنا وعدہ نبھائے گا۔جو سزا
وعدہ خلاف کیلیئے رکھی ہے دے گا۔جو ہنوز منکرہیں۔انہیں بھی بلاآخر تیری ذات
پاک کا اقرار کرنا ہوگا۔یہ تحریر میں نے میں بن کے نہیں آپ بن کر لکھی ہے۔
" قارئین"
میری تحریر میں الفاظ میرے ہیں مگر احساس آپ کا ہے۔میری تحریر میں بھی
اتحاد ہے،ایک وعدہ ہے۔یہ اتحاد اور وعدہ ہم سب کو ایک قوم بنا دے گا۔انشاء
اﷲ! |