کوڈ آف پشتونیت ایمان،غیرت اورآزادی کا بقیہ حصہ

2)یعنی اتحاد اور غیرت ( غیرت صرف ماں بہن کی عزت تک محدود نہیں پشتو میں غیرت کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ھوتا ھے ) یہی وجہ ہےکہ ھمارے کسی بھی علاقے میں کوئ سانحہ جب ھوتا تھا تو سارا گاوں مل کر متاثرہ شخص یا خاندان کی ھر طرح سے بھرپور مدد کرتے تھے کیونکہ اُن کی غیرت گوارہ نہیں کرتی تھی کہ اُن کہ ھوتے ھوۓ اُنکے گاوٰں والوں کا کویٰ اور مدد کرے یا وہ ہاتھ پھیلاۓ- اس طرح کوئ پشتون بار بار دھوکہ نہیں کھاتا –اور نہ ھی کسی دنیاوی مفاد کو اپنی غیرت پر حاوی ھونےکا تصور تک نہیں کر سکتا۔۔۔ تو اب وہ اقدار اور وہ غیرت کیا بھول گۓ ھو یا اکبر اٰلہ آبادی کہ شعر کی طرح آپ کی عقلوں پر بھی شہریت اور مادیت کا پردہ پڑ گیا اور آپ بھی شہروں میں بیشتر رہنے والوں کی طرح خود غرض اپنی زات اور اولاد کے اسیر ھوگۓ ھو-

آج کی پشتون نسل کو بھی شاعر مشرق علامہ اقبال کی مشہور نظم جواب شکوہ کو نہ صرف پڑھنے کی بلکہ سمجھنے کی اشد ضرورت ھے اور اس سے آپکو سمجھ اۓ گی کہ اپنے موجودہ حالات کہ زمہ دار آپ خود ھیںـ

ھم کو کبھی نہیں بھولنا چاھیے کہ ھمارے بزرگوں نے پاکستان کہ جس مرد آھن مرد مومن قائد اعظم سے پاکستان کو ایک ملک کی خاطر الحاق کیا تھا اسکے بعد سے لیکر آج تک کی لیڈر شپ تو اُن کی خاک پا بھی نہیں – قائد اعظم نے تو دو قومی کے بنیادی نظریہ پر ایک قوم کہ لییے آزاد ملک بنایا تھا –مگر بعد کہ نام نہاد سیاستدانوں اور کچھ جرنیلوں نے اس ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنا زاتی غلام بنا لیا –اور جنہوں نے اپنے زاتی مفادات اور پاور کے لییے جو جتنا گر سکتا تھا گرا یہاں تک پوری دنیا میں پاکستان کو رُسوا کر دیا ـ اور بدقسمتی سے ھم بھی اپنی جا ہلت کہ ہاتھوں ان حرص کہ مرض میں مبتلا ان غلام لیڈروں کہ دھوکے میں آگۓ –

پہلے ایک جرنیل نے80 کی دہای میں پشتونوں کو اسلام کہ نام پر اموشنل بلیک میل کیا اور اپنے آقا امریکہ کو سُوپر پاور بنانے کے لیے سارے مسلم دنیا کہ لوگوں کو جہاد کہ نام پر اکٹھا کیا اور اُن کی خون سے ھولی کھیلی گئ خود کہ لیے دینا بھر سے ھر قسم کی کرنسی سے اپنے اور ساتھیو ں کہ بنک بھرواۓ اور پاکستان میں اسلحے کہ انبار لگاۓ اور ساتھ میں اسکے استعمال کہ لیے لاتعداد مذہبی اور لسانی رنگارنگ فتنےکھڑے کرواۓ پھر دوسرے جرنیل جس کا تکیہ کلام ھی یہ ھے کہ میں ڈرتا ورتا نہیں ھوں جبکہ سنا ھے کہ ایک فون کال پر ڈھیر ھوگۓ تھے اور موصوف کا دوسرا کمال یہ ھے کہ لٹل یحٰیی کہلاۓ جاتے ھے لٹل اس لیے کہ موصوف اسقدر پی پی کر مدحوش ھو کر باتھ روم تک جانے کی ھمت کر لیتے ھیں جبکہ ان کہ اُستاد مرحوم وردی میں ھی فارغ ھو جاتے تھے ـ لہذا اب اگر ایسے ایسے جرنیلوں کے ہاتھوں ھم بےوقوف بنتے ھیں تو پھر قصور تو اپنا ھوا- ایسے گیدڑ نما جرنیلوں نے پاک آرمی کی ساکھ کو بےحد نقصان پہنچایا اور ھمارے ھزاروں بہادر سپاھی ان حرص کہ مریضوں کی وجہ سے شہید ھوۓ اور بدترین نقصان یہ کہ قبائیلوں کے دلوں میں فوج کہ لیے نفرت پیدا ھوئ کیونکہ انہوں نے طالبان بناۓ – اس وجہ سے پھر اُن میں سے ان جیسے کچھ طالبان نے یہ سوچا ھوگا کہ اگر یہ ھمارے سروں کی اور لاشوں کی قیمت وصول کرتے ھیں اور جن سے یہ لڑاتے ھیں انہی کہ ساتھ مل کر ھمارٰی موت پر جام سے جام ٹھکرا کر جشن مناتے ھیں تو پھر خود کیوں نہ اپنی لاش کی قیمت وصول کریں اور ان جرنیلوں کہ ارادوں کو خاک میں ملائیں یوں پھر یہ بیڈ طالبان کہلاتے ھیں اور وہ جن کی خون کی قیمت ان نام نہاد لیڈروں اور جرنیلوں کہ جیب میں جاتی ھے وہ گُڈ طالبان کہلاتے ھیں80 سے لیکر آج تک جس طرح پشتونوں کے خون اور لاشوں پر جو کمائ کی جا رہی ہے ابھی تک ان کا حرص کا خاتمہ نہیں ھواـ پہلے انہون نے جہاد کہ نام پر سیدھے سادھے نوجوانوں کو جہادی بنایا خوب دونوں ہاتھوں سے ڈالروں سے بنک بھر لیے اور پھر گڈ اور بیڈ طالبان کہ نام پر ایک دوسرے سے لڑواۓ

اور اس پر بھی بس نہیں کیا اپنے آقا سے ملکر قبائلی علاقوں پر ڈرونوں سے نا صرف حملے کراتے ھیں بلکہ اُن کو خوش کرنے کے لیے پاکستانی فوج کو جو ان گیدڑ نما جرنیل کی حکم پر اپریشن کے نام پر معصوم بچے بوڑھے اور عورتوں پر بمباری کی اور ھزاروں گھروں کو مسمار کیا اور اس ساری تباہی کی ویڈیو فلمیں بنا کرثبوت کہ طور پر پیش کرکہ ڈالر وصول کرتے رھے –( ثبوت اس لیے کہ ان کہ آقا صاحبان ان پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ھیں کہ جو اپنی ماں یعنی وطن کا سودا کر سکتے ھیں) ان سے کچھ بھی بعید نہیںاور یہ اس قسم کا سارا لین دین باہر ہی تکمیل پاتا ھے-

آج تک جو معصوم بچے اور بےگناہ لوگ شہید ھوے وہ تو شہید ھوکر ان گدھوں کی پہنچ سے آزاد ھوگۓ اسکے علاوہ صرف فاٹا سے 10،000 سے زائد نوجوان لاپتہ ھیں اور لاکھوں لوگ بےگھر ھیں ان میں ھزاروں عرتیں بیوہ اور بچے یتم ھو چکے ھیں وہ لوگ جو دوسروں کو پناہ دیتے تھے وہ اج خود در بدر ھیں مگر ان نام نہاد لیڈروں کو شرم نہیں آتی – لیکن شرم تو ھم کو آنی چاھیے کہ ھم بار بار ان سے دھوکہ کھاتے ھیں یہ تو روز اول سے فاٹا کو علاقہ غیر کہتے ھیں تو علاقہ غیر میں رھنے والے لوگ بھی غیر ھوے نا !!! صرف پیسوں کہ لیے یہ ھمارے دعویدار بنتے ھیں لہذا اب ھم کو خود کو پہچاننا ھوگا---

ویسے بھی غیروں کی پروا کون کرتا ھے یہ تو وہ لوگ ھیں کہ جس ملک کی بدولت دنیا کی ھر نعمت پاتے ھیں اُسی کو ھر طرح برباد کرنے میں لگے ھوۓ ھیں اگر ایک لمحے کو یہ سوچیں کہ اگر وہ کسی اور ملک میں پیدا ھوتے تو ان کو کوئ چپراسی بھی نہ بناتا اس لیے ان پر لعنت بھیجو اور خود تمام مشکلات کی پرواہ کیے بغیر اپنے اصلاف کی عظیم اقدار کو زندہ کرو اور پشتون ھونے کا ثبوت ان گیدڑوں کو ھی نہیں بلکہ دنیا پر ثابت کر دو کہ پشتون کہتے کس کو ھیں!

آج عشورہ کا دن ھے اور یہ ھمیں اپنے نبی محمد معطفٰیؑ کی آل حسن اور حُسین کی تاریخی شہادت اس بات کی ترغیب دیتی ھے کہ ظالم اور باطل کہ سامنے جھکنے کہ بجاۓ حق کے لیے مومن جام شہادت کو شان سمجھتا ھے! یہی وجہ ھے کہ واقعہ کربلا قیامت تک اسلام کو زندہ رکھنے کی ناقابل فراموش جیتی جاگتی داستان ھے لہذا پشتونوں 3 دھائیوں سے قسطوں میں مرنے کہ بجاۓ ایک بارگی سر پر کفن باندھ لو اور نکلو -- اور طورخم سے جمرود تک کےروڈ پر ڈھیرے ڈال دو اور اپنے ھاں کی غیرت اور شجاعت کے نغمے اور رقص سے ساری دنیا کو حیرت زدہ کر دو کہ پاکستان میں چند میر جعفر اور میر صادق ھی نہیں بلکہ یہاں ٹیپو سلطان جیسے شیروں کی لاکھوں کی تعداد رہتی ھے جو اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ھے –اور اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہ جانا جب تک دنیا سے منوا نہ لو کہ یہ وطن چند بزدلوں کی جاگیر نہیں بلکہ یہ اپنے عظیم نبی صلم کی آل اولاد کی قربانیوں کی شہادتوں کی والی وارث قوم ھے! اور اب چند غداروں کی بزدلی کے عوض اس ملک کی آزادی اور خود مختاری کی خلاف ورزی چند ٹکوں میں کرنے کا تصور بھی نہ کرے –

لہذا 15 سے 35 سال تک کہ تمام جواں پشتونوں سب نکلو سب مسلے مسائل بھول کر میدان میں آوٰ اب حق اور باطل کا فیصلہ ھو جاۓ یعنی ( دہ گز دہ میدان )اب حساب ھو جاۓیاد رکھو کہ پشتونوں کی یہ اصول ھے کہ ایک بار اُن کا خون سر زمین کہ لیے گر جاۓ پھر اسکو وہ کبھی نہیں چھوڑتا چاھے سارے دوسرے چھوڑ دے مگر اب آپ نے اپنے خون کو چند غداروں کی خاطر ضائع نہیں ھونے دینا اور اس ملک کی توقیر اور عظمت دنیا سے منوا کر سر اُٹھا کر جینا ھے۔ پشتو کی کہاوت ھے (غریب خودائ کڑے داوُس چاکڑے) مطلب یہ کہ غریب تو خدا نے پیدا کیا پر بےغیرت کس نے کیا--- تو میرے غیرت مند پشتونوں اب نہیں تو کبھی نہیں۔ جینا ھے تو سر اُٹھا کر جیو ورنہ پھر مر جاوٰ کیونکہ گیدڑ کی سو سال کی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ھے اگر واقعی پشتون ھو تو !!!

Zaib Mahsud
About the Author: Zaib Mahsud Read More Articles by Zaib Mahsud: 7 Articles with 5935 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.